درویش٬ ٹھگ اور آزاد کشمیر کے الیکشن

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک چرب زبان ٹھگ ایک خدا پرست درویش کے پاس گیا اور کہا کہ میں ایک مصیبت میں پھنس گیا ہوں ایک کمینے آدمی سے دس درہم قرض لے بیٹھا ہوں اب اس کے بار بار کے تقاضوں سے میرا جینا حرام ہوگیا ہے کمبخت دن رات سایہ کی طرح میرے پیچھے لگا رہتا ہے اس کی گالیوں اور طعنوں سے میرا دل چھلنی ہوگیا ہے خدا کیلئے اس ملعون سے میرا پیچھا چھڑا دیجئے۔نیک طینت درویش نے اس کی ہتھیلی پر دو اشرفیاں رکھ دیں اور خوش خوش وہ وہاں سے رخصت ہوگیا ایک اور آدمی جو یہ ماجرہ دیکھ رہا تھا درویش سے کہنے لگا قبلہ آپ کو معلوم نہیں کہ یہ کون ہے ؟ یہ تو رسوائے زمانہ ٹھگ ہے اگر مر بھی جائے تو اس پر رونا بھی جائز نہیں چہ جائے کہ اسے خیرات دی جائے درویش نے فرمایا کہ بھائی اگر وہ سچا ہے تو میں نے مخلوق سے اس کی عزت بچا دی ہے اور اس نے بے حیائی اور مکاری سے جھوٹ بولا ہے تو میں نے اس کی بے ہودگی سے اپنی آبرو بچا لی ہے ۔۔۔

قارئین 26جون 2011ءکا دن آزادکشمیر کے لاکھوں ووٹرز کے قوت فیصلہ اور ان کی بصیرت کا امتحان بن کر آگیا ہے اس دن حلقہ ایل اے ون ڈڈیال سے لے کر حلقہ ایل اے 29لیپہ تک آزادکشمیر کی ریاست کے لوگ مہاجرین کی نشستوں ایل اے 30سے ایل اے 41تک ایک پل صراط سے گزرنے والے ہیں آزادکشمیر کے باسیوں اور مہاجرین نے 26جون کو فیصلہ کرناہے کہ ان کیلئے نظریات اہمیت رکھتے ہیں یا مفادات اس دن تمام کشمیریوں نے یہ طے کرنا ہے کہ علاقائی تعصب اور برادری ازم کی لعنت کو انہوں نے اپنا مقدر بنانا ہے یا پھر دیانت دار ،اہل اور موزوں قیادت کو تخت کشمیر پر براجمان کرنا ہے ،ٹوٹی نلکے ،گلی محلے کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر بددیانت لوگوں کو اپنے سرو ں پر مسلط کرنا ہے یا پھر ”آزادی کشمیر “کیلئے اپنے دلوں میں حقیقی درد رکھنے والوں کو قانون ساز اسمبلی میں پہنچانا ہے ۔۔؟

یہ سب فیصلے آزادکشمیر کے ہر شہری کے اپنے ہاتھوں میں ہیں اس وقت آزادکشمیر کے الیکشن مہم میں پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی قیادت اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قومی اور صوبائی قیادت اس طرح ملوث ہوئی ہے کہ سیاسی گردوغبار نے کشمیر سے نکل کر پاکستان کی سیاست پر اثرات مرتب کرنا شروع کردیئے ہیں اور پوری دنیا میں آباد کشمیری اورپاکستانی تارکین وطن بھی اس تماشے کو دیکھ رہے ہیں ۔صرف اہل وطن ہی اس تماشے کو دیکھتے تو پھر بھی گوارہ تھا زخموں پر نمک چھڑکنے والی حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جبکہ مقبوضہ کشمیر پر جابرانہ تسلط رکھنے والا ہندوستان زیر لب زہر میں بجھی مسکراہٹ کے ساتھ آزادکشمیر اور پاکستان کی سیاسی قیادت کی قلابازیوں پر تبصرہ کرتا ہے اور تالیاں پیٹتا ہے اس وقت دل سے بے ساختہ ایک آہ نکلتی ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ٹھگ کون ہے اور درویش کون ہے ۔۔۔؟
بقول شاعر
الہی ٰ یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں ؟
کہ درویشی بھی عیاری ہے ،سلطانی بھی عیاری

قارئین اس وقت میاں محمد نواز شریف نے جب وفاقی وزراءکے دوروں کے بہت بعد جب آزادکشمیر کے ضلعی صدر مقامات کا دورہ کرنا شروع کیا اور ڈرون حملوں سے لے کر خروٹ آباد واقعہ اور خودکش دھماکوں سے لے کر کارگل ایشو پر بات کرتے کرتے صدر زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے CODکے تحت کیے جانے والے معاہدوں اور وعدہ خلافیوں کا ذکر چھیڑا تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان آصف علی زرداری صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے اور انہوں نے پوری دنیا کے سامنے الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ ”مولوی نواز شریف اور مولوی ضیاءالحق “ تک کے نئے القابات ایجاد کردیئے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ میاں محمد نواز شریف کے گلوں میں کتنی حقیقت ہے یا صدر پاکستان آصف علی زرداری کے غصے میں کتنی صداقت ہے یہاں پر ہم صرف یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ آزادکشمیر اور پاکستان کی سیاسی قیادت صرف چند ہزار مربع میل کے علاقہ کو سیاسی طور پر فتح کرنے کیلئے ریکارڈ پر ایسی باتیں نہ پیدا کرے کہ جو مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیں کیونکہ یہ بات ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی اور میڈیا وار پاکستان سے کہیں زیادہ موثر اور جاندارہوتی ہے جب ہم الیکشن کے جوش وخروش میں الزامات کی بارش کرتے ہوئے قومی رازوں کو فاش کرنا شروع کردیں گے تو بین الاقوامی فورمز پر بھارت ہمارے قائدین کی انہی باتوں کو نقل کرکے اپنا موقف منوانے کی کوشش کرتا ہے کشمیری قوم کی حالت اس وقت مرزا غالب کے ان اشعار کی طرح ہے ۔
دل ہی تو نہ سنگ وخشت ،درد سے بھر نہ آئے کیوں ؟
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں ؟
دَیر نہیں ،حرم نہیں ،درد نہیں ،آستا ں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم ،غیر ہمیں اُٹھائے کیوں ؟
جب وہ جمال ِ دل فروز ،صورت ِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوزپردے میں منہ چھپائے کیوں ؟
قیدِ حیات وبندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ؟

قارئین پوری کشمیری قوم کو چاہیے کہ 26جون 2011ءکو قبیلائی منافرتوں ،علاقائی تعصبات اور چھوٹے چھوٹے مفادات سے نکل کر اپنی قیادت کا انتخاب کرے ورنہ وقت ہاتھ سے نکل گیا اور غلط فیصلے کیے گئے تو خداجانے آئندہ پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات میں کشمیری قوم کس حیثیت سے ووٹ ڈالے ۔۔۔؟

اس موقع پر پاکستانی سیاسی قیادت ریاست جموں کشمیر کے معروضی حالات اور اقوام عالم کے ہر فورم پر ”آزادی کشمیر کے کیس“ کو ذہن میں رکھے اور گلگت بلتستان والی غلطی یہاں نہ دہرائے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو لاکھو ں کشمیری شہداءکی قربانیاں ضائع ہوجائیں گی اور مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائے گا ہمیں امید ہے کہ ہماری درددل سے کی جانے والی اس گزارش پر پوری کشمیری قوم اور ہماری معزز سیاسی قیادت کان دھرے گی اس وقت درویش بھی امتحان میں ہیں اور درویشوں کاامتحان بننے والے تمام ٹھگ بھی اپنی تیاریوں کے ساتھ ہوس کی مختلف تصویریں اور ترغیبات لے کر میدان میں موجو دہیں دیکھتے ہیں کہ درویش کی آبرو بچتی ہے کہ نہیں ۔۔۔۔؟

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
برطانوی وزیر اعظم چرچل کو ریڈیو سے تقریر نشر کرناتھی موسم بہت خراب تھا وہ ٹیکسی میں سوار ہوکر ریڈیو سٹیشن پہنچے اور ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ واپسی پر میرا انتظار کرو دھند کی وجہ سے ڈرائیور چرچل کو پہچان نہ سکا اور انتظار کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں نے چرچل کی تقریر سننی ہے میں آپ کے انتظار میں نہیں رک سکتا چرچل نے اپنا تعارف کرائے بغیر اسے کرایہ کے ساتھ بھاری ٹپ دے دی ڈرائیور نے خوش ہوکر کہا
”جناب چرچل جائے بھاڑ میں ۔۔۔میں آپ کا انتظار کرتاہوں “

قارئین فیصلہ کشمیری قوم نے کرنا ہے کہ کسے بھاڑ میں بھیجنا ہے اور کسے آئندہ پانچ سالوں کیلئے منتخب کرنا ہے26جون کو معمولی دن نہ سمجھا جائے ۔۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337546 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More