گولی کا انصاف

گھر سے باہرجاتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ آج وہ زندہ سلامت واپس نہیں آئے گا،آج اس کی ماں اور بہنوں کی دعابھی اسے ناگہانی آفت سے نہیں بچاسکے گی۔ گھرسے نکلتے وقت اس کی روشن آنکھوں میں کئی سنہرے خواب اوراس کے دل میں کئی ارمان تھے ۔وہ نہیں جانتا تھا کہ آج ماں کی آغوش نہیں بلکہ موت کی آغوش اس کی منتظر ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ آج وہ شہر قائدؒمیں دن دیہاڑے اپنے محافظوں کے ہاتھوں گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔اگرسرفرازشاہ کی والدہ کومعلوم ہوتاتو اسے گھر سے باہرجانے کی اجازت نہ ملتی ۔ سرفرازشاہ کی بدقسمتی اسے مقتل گاہ تک لے آئی تھی پھراچانک ایک شخص نے اس کوگردن سے دبوچ لیا اورگھسیٹتا ہواسڑک پرکھڑے رینجرزکے پاس لے گیاگویاکوئی قربانی کاجانورہاتھ لگ گیا ہو۔رینجرزکے اہلکاروں نے اپنی اپنی بندوقوں کارخ سرفرازشاہ کی طرف موڑدیا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ رینجرز نے دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کے کسی اہلکار کویا کسی بہت بڑے دہشت گردکوقابوکرلیا ہے۔اس دوران سرفرازشاہ کے مضطرب دل میں کئی خیالات اوروسوے ابھرے ہوں گے،اس نے خودسے اپناجرم پوچھا ہوگا۔اس نے یقینا سوچاہوگا کہ اب اس ملک میں آمریت نہیں جمہوریت کاراج اورعدلیہ آزاد ہے لہٰذا یہ محافظ مجھے جان سے نہیں مارسکتے۔ شفیق ماں کاچہرہ بھی اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ہوگا۔اس نے بہنوں کی شادی اوراپنے روشن مستقبل کیلئے جوخواب دیکھے تھے وہ چکناچورہونیوالے تھے ۔شام کواس نے اپنے کسی دوست سے ملنا تھامگراب وہ اس کے جنازے کوکندھادے گا۔وہ روزانہ اخبارات میں ٹارگٹ کلنگ کی خبریں پڑھتا تھا مگرآج وہ خودٹارگٹ بناہوا تھا ۔ سانپ کی طرح بندوق کی بھی ایک دہشت ہوتی ہے ۔ بندوقوں کے سائے میںسرفرازشاہ تھرتھر کانپ رہا تھااور اپنے محافظوں سے جان بخشی کی فریاد کررہا تھا مگرانہیں اپنے اس ہم وطن نوجوان پررحم نہیں آیا اوراُن ڈرے ہوئے رینجرز نے اس پرگولیاں برسادیں۔سرفرازشاہ سڑک پرگرپڑااورشدت دردسے تڑپنے لگا،اس نے پھرفریادکی کہ مجھے ہسپتال پہنچادو،خدارامجھے مرنے سے بچالولیکن کسی محافظ کوسڑک پرتڑپتے سرفرازشاہ پرترس نہیں آیا ۔گولی مارنے سے زیادہ ظلم یہ تھا کہ رینجرزنے سرفرازشاہ کوہسپتال لے جانابھی گوارہ نہیں کیا۔
بقول استاد قمر جلالوی اس سے پوچھو جس کا گھر جلتا ہو اور پانی نہ ہو۔

اگرکچھ دیرکیلئے فرض کرلیا جائے کہ سرفرازشاہ ملزم تھا توپھر بھی رینجرزاہلکاروں کوسڑک پرعدالت لگانے اورگولی سے فوری انصاف کرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا تھا۔ رینجرزنے اس نوجوان پرطاقت استعمال کی جوان کے رحم وکرم پرتھا جبکہ وہ اسے جان سے مارنے کی بجائے زخمی کرکے یا زندہ سلامت گرفتارکرسکتے تھے۔محافظوں کے ہاتھوں ایک بیگناہ شہری کاقتل بلاشبہ قومی سانحہ ہے۔رینجرز اہلکاروں کی گولیوں سے صرف سرفرازشاہ کانہیں بلکہ اس کی ماں کاسینہ بھی چھلنی ہواہے۔ سرفرازشاہ کے جنازے کوتولوگوں کاکندھامل گیا لیکن اب اس کی بہنوں کی ڈولی کوکندھاکون دے گا۔ اگرقوم کے محافظ سڑکوں پربیگناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلیں گے توشرپسندوں کے ہاتھ کون توڑے گا۔رینجرزاہلکارہوں یاپولیس فورس والے انہیں ماورائے عدالت قتل عام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔رینجرز اہلکاروں کا انداز دیکھ کر یہ لگ رہا تھا کہ وہ سرفرازشاہ کوایک خودکش حملہ آورسمجھ رہے تھے ،ان کی بدحواسی اوربوکھلاہٹ نے سرفرازشاہ کی جان لے لی ۔ وردی پوش اہلکاروں کا اس طرح ڈرناان کے شایان شان نہیں،اس طرح وہ جوانمردی کے ساتھ ملک دشمن عناصر کامقابلہ نہیں کرسکتے ۔سکیورٹی فورسز کوجدیداسلحہ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعصاب پرقابورکھنے کی تربیت بھی دی جا ئے۔ عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان دوریاں اورتلخیاں ملک وقوم کے مفادمیں نہیں۔اگرعوام اورسکیورٹی فورسز کے درمیان اتحاد قائم نہ رہا توشدت پسندوں کاصفایاکرنادشوارہوجائے گا۔

ہم بہادر قوم ہونے کے زعم میں مبتلا ہیں لیکن درحقیقت من حیث القوم ہم بے حس اورمردہ ہوچکے ہیں۔ ایک ایسی قوم جس کی بے حسی عذاب کے دروازے پردستک دے رہی ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ اگر دہشت گردی کے نتیجہ میں کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو ہم کبوتر کی مانند آنکھیں موند کربیٹھ جاتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ دہشت گرد بلی ہم پر حملہ نہیں کرے گی ،یہ محض ہماری خوش فہمی ہے۔ کسی وقت بھی ہماری باری آسکتی ہے۔ فوجی آمرپرویزمشرف کے دورمیںجس طرح ایک فون پرپاکستان کوپرائی دشمنی کی آگ میں جھونک دیا گیا تھااس کی دوسری کوئی مثال نہیں ملتی۔ جولوگ امریکہ کے دشمن تھے انہیں ارباب اقتدارنے پاکستان کادشمن بنادیا ۔ہمارے سیاستدان اپنے ملک اورعوام کے ساتھ سیاست کررہے ہیں۔پاکستان میں رہنما بہت ہیں مگران میں سے کوئی بھی قوم کی رہنمائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔اس وقت پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ (ن)،مسلم لیگ (ق)،تحریک انصاف ،جماعت اسلامی ،متحدہ قومی موومنٹ اوراے این پی والے ایک دوسرے کے اینٹی سیاست کررہے ہیں۔جس طرح مسلم لیگ (ن)والے پیپلزپارٹی کاوجودبرداشت نہیں کرسکتے اس طرح پیپلزپارٹی والے بھی مسلم لیگ (ن) کوملک وقوم کیلئے ایک بوجھ سمجھتے ہیں۔مسلم لیگ (ق)کابس چلے تووہ مسلم لیگ (ن)کوزندہ زمین میں گاڑدے اورمسلم لیگ (ن) کازورچلے تووہ مسلم لیگ (ق) کاشیرازہ بکھیر دے ۔اس وقت ایسی کوئی سیاسی جماعت نہیں جو ''پروپاکستان''سیاست میں مصروف ہو ۔سبھی سیاستدانوں کے گھر اورکاروبارملک سے باہر ہیں ان کا سرمایہ باہر ہے ۔ ان کے اپنے بچے غیر ملکی اورمہنگی یونیور سٹیوں میں علم کی پیاس بجھاتے ہیں جبکہ عوام کودانش سکولوں کے قیام سے ملک میں تعلیمی انقلاب برپاکرنے کامژدہ سنایاجارہا ہے۔ ان سیاستدانوں کو ریاست ،جمہوریت اورمعیشت نہیں صرف اپنی حکومت بنانے،بچانے یاپھردوسرے کی حکومت گرانے میں دلچسپی ہوتی ہے ۔ ملک سے فرار ہونے کیلئے ان کے طیارے ہر وقت تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ ِادھر کوئی آفت آئی اور اُدھر یہ برطانیہ ،سعودیہ، دوبئی یاا مریکہ کیلئے روانہ ہوجا تے ہیں۔

یہ لوگ کبھی قوم کو متحداورایک قومی ایجنڈے پرمتفق نہیں ہونے دیں گے کیونکہ قوم کا اتحاد ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ لوگ قوم کیلئے کچھ نہیں کریں گے قوم کو جو بھی کرنا ہے خود کرنا ہوگا۔ قوم کو چاہئے کہ ان آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے شکنجے سے جان چھڑائے اور اپنی صفوں میں سے باکردار قیادت تلاش کرے۔ سرورکونین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ ہم کس قسم کے نادان لوگ ہیں کہ بار بار انہی سیاستدانوں،ان کے بچوں اوران کے عزیزواقارب کو منتخب کر تے چلے آرہے ہیں۔آزمائے ہوئے کوبار بارآزماناحماقت ہے۔ بیانات سبھی دیتے ہیں لیکن مسائل کا حل کوئی پیش نہیں کرتا۔قیادت سے محروم پاکستان میں منتشرعوام کی کوئی شنوائی نہیں کیونکہ نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔اگرعوام متحد ہوجائیں توان کی تقدیرسنوراورپاکستان کی کایاپلٹ جائے گی۔ اگر قوم کے آنسو خشک ہو گئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ ہم ایسے جذباتی لوگ ہیں جو ہر روز ایک میت پر ماتم کرنے کے عادی ہیں۔ ہم کل کا المیہ ایک معمولی واقعہ سمجھ کر فراموش کردیتے ہیں اور ہمیں رونے کیلئے ایک نیاسانحہ مل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی زنجیر عدل والا معاملہ ہے یعنی جو زنجیر ہلانے میں کامیاب ہوجائے اس کو انصاف ملنے کی امید پیداہوجاتی ہے ۔عہدحاضر میں زنجیر عدل کاکام میڈیا انجام دے رہاہے، ورنہ ہردن کئی سرفراز شاہ تاریک راہوں میں مارے جاتے۔ میرے نزدیک پاکستان میں عدلیہ نہیں صرف عدالت عظمیٰ آزادہوئی ہے ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس خوفناک سانحہ کا از خود نوٹس لیاجاناخوش آئندہے ۔ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیاگیاہے اورسرفرازشاہ کے قتل میں ملوث رینجرز اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے اس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں ۔ سرفراز شاہ تواب ہمارے درمیان واپس نہیں آ سکتا لیکن اس کے ورثا کوانصاف کی فوری فراہمی سے آئندہ کئی ماﺅں کے جگرگوشے بچائے جاسکتے ہیں۔ جس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو تی ہے وہاں ماورائے عدالت قتل نہیں ہوتے۔وردی پوش اہلکاروں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ پاکستان کا قانون اس قدربے بس نہیں ہے ۔تاہم اگر ہر سانحہ اورواقعہ سپریم کو رٹ کے رحم وکرم پر ہے توپھر ماتحت عدالتیں کس مرض کی دوا ہیں۔ججوں کی بحالی کومدت ہوگئی لیکن عوام کاعدلیہ پراعتماد بحال کرناابھی باقی ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.