آج دنیا کے سامنے ثابت ہوگیا سچے مُسلمان
کی دوستی سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں....
قوم کی معصوم بیٹی لیلیٰ کو ابّواور ابّو کو نئی زندگی مبارک ہو
پنامامیں رجسٹرڈ تجارتی بحری جہاز ایم وی سوئزجو دس ماہ سے زائدعرصے تک
صومالی قزاقوں کی قید میں رہا اِس پر تعینات 22افراد پر مشتمل عملہ جس میں
چارپاکستانی اِن میں کپتان سیدوصی حسن، رحمن علی، مزمل محمداور سیدعالم کے
علاوہ اِس جہاز پر چھ بھارتی شہری چوہان، پرشانت، جے ایچ لال، این کے شرما،
سچن، رویندرسنگھ اور ستنام سنگھ،گیارہ مصری شہری عبدالرحیم، عدیل احمدفواد،
السیدامین، ہینی عبدالعال، ابراہم ، کمال احمد،محمدغریب، سادان رشدی،
سیداحمدگبر، شیخ ابراہیم اور محمدصالح اور ایک سری لنکن شہری جے روزوجوبھی
شامل تھے اِن تمام غیرملکی باشندوں کو لے کر الحمداللہ جب پاک بحریہ کا
جنگی جہاز پی این ایس ذوالفقار بخیروعافیت جمعرات کی شام کراچی پہنچاتو
یہاں رقت آمیز اور جذباتی مناظر سے ہر خاص و عام کی آنکھ پرنم نظر آئی اِس
میں کوئی شک نہیں کہ مغویوں کا کراچی پورٹ پہنچنے پرجو والہانہ استقبال
کیاگیا اِن کے پرتپاک استقبال اور اِن کی رہائی نے دنیا کو یہ بتادیاکہ
پاکستانی بلاتفریق انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔
اگرچہ اِس جہاز پر پاکستان کے صرف چار افراد ہی سوار تھے مگر اِن سے زیادہ
تعداد بھارتیوں کی تھی اِس کے باجود بھی بھارتی حکمرانوں نے اپنے باشندوں
کی رہائی کے لئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایاہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ جس
انسانیت کے جذبے کے تحت حکومت پاکستان نے اپنے چار مغویوں کو آزاد کروایاہے
وہیں اِس نے اُن تمام دوسرے مغویوں کو بھی جو صومالی قزاقوں کی قید میں تھے
اِنہیں بھی اغواکاروں سے آزادی دلوانے میں اپنافعل کرداراداکیا ہے ۔
اگر یہی کام بھارتی حکمران کرتے تو یہ بھارتی مغویوں سمیت اور دوسرے ممالک
کے مغویوں کو تو آزاد کروالیتے مگر دیدہ اور دانستہ طور پر جہاز کے مغوی
پاکستانی کپتن سمیت دیگر تین پاکستانی شہریوں کی رہائی کے لئے ہیل حجت اور
ہیچر میچر سے کام لیتے اور چار پاکستانیوں کو صومالی قزاقوں کے رحم وکرم پر
چھوڑ آتے اور آج دنیا بھر کے میڈیا کے سامنے اپنی کامیابی اور فتح کے جھنڈے
گاڑتے نظر آتے مگر یہ پاکستانی حکمرانوں اور ایک محب وطن سچے اور پکے
پاکستانی سپوت سماجی رہنمااورانصاربرنی ٹرسٹ کے سربراہ اور سابق وفاقی
وزیرانصاربرنی کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے 21لاکھ ڈالر کے عوض 22افراد کو آدم
خور صومالی قزاقوں سے رہائی نصیب ہوئی ہے ۔
جبکہ یہ حقیقت بھی دنیاکے سامنے آج عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان سمیت بھارت،
مصراور سری لنکن افراد پرمشتمل22مغویوں کی رہائی دلوانے میں انصار برنی،
گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العبادخان، وزیراعلیٰ سندھ سیدقائم علی شاہ،
صدرپاکستان سیدآصف علی زرداری، وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی ، متحدہ قومی
موومنٹ کے قائد محترم المقام الطاف حسین اور جہاز کے مغوی کپتین وصی کی وہ
بیٹی لیلیٰ جس نے قزاقی کے واقعے کو دنیا کے سامنے اجاگرکرنے میں ایک اہم
کردار اداکیا ہے اُس سمیت ساری پاکستانی قوم بھی مبارکبادکی مستحق ہے جس نے
ہر لمحہ اپنے پاکستانی بھائیوں سمیت مغوی معصوم انسانوں کی رہائی کے لئے
اللہ رب العزت سے اِس کے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے دعائیں کیں،
جبکہ دوسری جانب ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب حکومت پاکستان نے بھارت سے
رابطہ کرکے صومالی قزاقوں سے جہاز کے تمام مغویوں کی رہائی کے لئے تعاون کی
درخواست کی تو بھارتی حکومت نے اپنی غیرسنجیدگی کامظاہر ہ کرتے ہوئے اِس
معاملے میں ہر قسم کے اپنے تعاون سے قطعاََ انکارکردیا اور وقت پر اپنے
وعدے کے مطابق مطلوبہ رقم فراہم کرنے سے انکار کرکے حکومت پاکستان کے ساتھ
دھوکہ کیا ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں جہازکے مغویوں کی رہائی کے حوالے سے
بھارتی حکومت کے جانب سے دیئے جانے والے دھوکے پربھارتی حکومت نے یہ
سوچاہوگاکہ ہمارے یہاں پہلے ہی اتنی آبادی بڑھ چکی ہے ہم سوچ رہے ہیں کہ یہ
کسی طرح کم ہو چلواچھاہی ہوگاکہ اِس بہانے چھ بھارتی تو کم ہوں گے اور ہمیں
کیاضرورت پڑی کے ہم اِن کی رہائی دلوائیں اور فضول میں بھارتی خزانے سے رقم
خرچ کریں اچھاہے کہ یہ چھ کے چھ بھارتی باشندے صومالی قزاقوں کے ہاتھوں
قیدمیں رہیں اور وہیں مرکھپ جائیں اور اِس کے ساتھ ہی بھارتی حکمرانوں نے
یہ بھی سوچاہوگاکہ اگر اِنہوں نے اپنے چھ بھارتی باشندوں کو رہائی دلوائی
تو اِنہیں چار پاکستانیوں کو بھی رہائی دلوانی ہوگی ۔
اِس خیال کے آتے ہی بھارتی حکمرانوں نے حکومت پاکستان کو جہاز کے مغویوں کی
رہائی کے لئے رقم مہیانہ کرکے جو دھوکہ دیاہے اِن کے اِس روئے سے پاکستانی
حکمران پہلے ہی سے یقینا واقف ہوں گے کہ بھارت کا رویہ اِس بابت کچھ دال
میں کالاہے اور بھارت ہمیں عین وقت پر دھوکہ دے دیگا مگرہم مایوس نہیں ہوں
گے اور اپنی جدوجہد خالصتاََانسانی جذبوں کے تحت جاری رکھیں گے جس میں اللہ
ہماری ہر قدم پر مددکرے گا اور آج عالم انسانیت نے خود دیکھ لیاکہ حکومت
پاکستان نے ثابت قدم رہ کر رہتی دنیا تک وہ کارنامہ انجام دے دیاہے جس کی
مثال تاریخ کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا نے یہ بھی دیکھ لیاہے کہ امریکا کے
ساتھ چمٹے رہنے والے بھارت کا رویہ اپنے ہی مغویوں بھارتی شہریوں کے ساتھ
کیسا بے حس رہاکہ اِس نے اپنے بھارتیوں کی رہائی کے لئے بھی حکومت پاکستان
کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیااور دوٹوک الفاظ میں رقم مہیانہ کرنے کا کہہ کر
سارامعاملہ حکومت پاکستان پر چھوڑدیا ۔
بھارتی حکمرانوں کی اِس بے حسی پر آج دنیا بھر میں بہت سے سوالات جنم لے
رہے ہیں جن کا تسلی بخش جواب بھارتی حکمرانوں کے لئے بھاری پڑرہاہے اور جس
کی وجہ سے اِنہیں کئی طرح کی مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار بھی
ہوناپڑرہاہے کیوں کہ جب دنیا اِن سے یہ سوال کرتی ہے کہ تم اپنے چھ
بھارتیوں کو بھی نہ چھڑاسکے جبکہ پاکستانیوں نے اپنی کوششوں سے نہ صرف اپنے
چار پاکستانی شہریوں کو صومالی خونخوار قزاقوںسے رہائی دلوائی بلکہ اُنہوں
نے خالصتاََانسانیت کے جذبوں سے لبریزہوکر جہاز پر سوار بھارت، مصری اور
سری لنکن اٹھارہ شہریوں کو بھی رہاکروایاہے یہ بیشک پاکستانیوں کا ایک عظیم
کارنامہ ہے جیسے دنیاہمیشہ اچھے الفاظ میں یادرکھے گی تو بھارتی حکمران
بغلیں جھانکتے اور اُوٹ پٹانگ بگنے لگتے ہیں یا پھر اُس سوال کاجواب گول
کرجاتے ہیں جس میں کوئی پاکستان کے لئے تعریفی کلمات کہتاہے یہ وہ کینہ
پروی ہے جو بھارتی حکمران کبھی بھی اپنے اندر سے دوورکرنے کوتیار نہیں ہیں
ہم یہاں یہ ضرور کہیں گے کہ بھارتی حکمران اپنی بغض اور کینہ پروی کی بناپر
پاکستان کی کبھی بھی تعریف نہیں کریں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ جہاز کے اُن چھ
بھارتی مغویوں کی رہائی کے بعد بھارتی عوام سمیت آج دنیابھر میں جس طر ح
پاکستان کا وقار بلندہورہاہے اِس کو توشایدخود بھارتی حکمران بھی نہ
جھٹلاسکیں کہ پاکستانی قوم نے انسانیت کو زندہ رکھنے کا عملی ثبوت دے
دیاہے۔اور مزید کہ کہ جس طرح جہازایم وی سوئر کے عملے میں شامل بھارت شہری
این کے شرمانے کہاکہ وہ بیشک بھارت میں پیداہوئے اور وہیں پلے بڑھے لیکن آج
اِنہیں ایسالگ رہاہے کہ پاکستان میں اِن کا دوسراجنم ہواہے ،رہائی پانے
والے ایک اور بھارتی شہری رویندرسنگھ کی اہلیہ آرپاسمپانے کہاکہ من موہن جی
بتائیں اِن کی بیٹی کے ساتھ ایساہوتاتووہ کیاکرتے...؟آرپاسمپانے اپنے
داداکے حوالے سے کہاکہ اِن کے داداکا یہ قول آج سچ ثابت ہوگیاہے کہ سچے
مسلمان کی دوستی سے بڑھ کرکوئی تحفہ نہیں اور آج ہمارے پڑوسی ملک پاکستان
کے مسلمان دوستوں نے بلاتفریق اپنے بھائیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ ہم
بھارتیوں، مصریوں اور سری لنکن کی رہائی دلواکر دنیاکویہ بتادیاہے کہ
پاکستانی مسلمان ایک سچے اور انسانیت کا درداپنے دل میں محسوس کرنے والے
لوگ ہیں اور اِسی طرح ایک اور بھارتی شہری سجن نے اپنے جذبات کا اظہارکچھ
یوں کہ وہ پوری پاکستانی قوم کے شکرگزارہیں ہم پاکستان سے بہت محبت کرتے
ہیںپاکستان کی جانب سے بھارتی شہریوں کی رہائی کے لئے کی جانے والی
بلاامتیاز کوششوں اور حسن سلوک کی وجہ سے آج پورے بھارت میں پاکستان کے
بارے میں یقیناایک مثبت پیغام گیاہے قبل ازیں سمپاآریانے کہاکہ بڑے بنگلوں
میں رہنے والے کبھی رہنمانہیں ہوتے اُنہوں نے بھارتی حکمرانوں کو متنبہ
کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ اَب بھارتی سرکاراِس واقعے پر سیاست نہ کرے جس کا
نقصان بھارتی شہریوں کا ہوتاہے۔ہم یہاں اپنی اِن سطور کے ذریعے دس ماہ سے
زائد عرصے تک خونخوار صومالی قزاقوں کے قیدمیں رہنے کے بعد رہائی پانے والے
اُن بائیس افراد کے بلند حوصلوں پر داد دیں گے جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں
اپنے صبر اور استقلال کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑااور اِس اُمیدپر قائم
رہے کہ اللہ رب العزت اِنہیں اِس قید سے ضروررہائی دلوائے گا اور ساتھ ہی
ہم جہاز کے پاکستانی کپتن سیدوصی حیدر کی اُس معصوم اور پیاری سی بیٹی لیلیٰ
کو بھی مبارک باد پیش کرتے ہیں جس نے جہاز کے واقعے کو اجاگر کے نہ صرف
اپنے ابّو کی رہائی دلوائی بلکہ اِس معصوم لیلی کی بھی جدوجہداور محنت اتنی
ہی اہم ہے جتنی حکومت پاکستان اور دوسروں کی ہے اِس موقع پر ہم ایک بار پھر
یہ کہیں گے کہقوم کی معصوم بیٹی لیلیٰ کو ابّواور ابّو کو نئی زندگی مبارک
ہو۔
حضرت شیخ سعدی ؒ کا قول ہے کہ ”اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہے
تو،تُو اِس قابل نہیں کہ تجھے انسان کہاجائے “ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت
شیخ سعدی ؒ کے اِس قول میں اتناکچھ پوشیدہ ہے کہ اگر آج دنیا کا ایک ایک
فرد اِس پر غوروخوص کرکے اِسے اپنی زندگی کا حصہ بنالے تو یقینایہ دنیا امن
و آشتی کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر گل وگلزار بن سکتی ہے جس کا تصور آج اِس
پرآشوب دور میں ہر ایک شخص اپنے دل ودماغ میں لئے پھررہاہے جبکہ اِسی کے
ساتھ ہی اِس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسان ایک ہی باواآدم علیہ السلام کی
اولاد ہیں یہ اور بات ہے کہ خالق کائنات نے نسلِ انسانی کو پھیلانے کے خاطر
اِنہیں قبیلوں اور برادریوں میں بانٹ دیاہے مگر اِسی بناپر بٹے ہوئے لوگوں
کو یہ ضرور سوچناچاہیے کہ جب سب ہیں تو ایک ہی نسلِ انسانی سے ہیں توپھر ہم
میں آپسمیں یہ تفرقہ بازی اور ایک دوسرے میں تعصب اور لسانیت کا عنصر کیوں
غالب آچکاہے جبکہ یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھادی گئی ہے کہ نہ تو تم اپنے
حقوق کے حصول سے تجاوز کرنے کی ہوس میں مبتلاہوکر وحشی بنونہ دیوتابلکہ
انسان بنو...اور صرف اور صرف ایک ایساانسان جو ہر معاملے پر توکل کرتاہے تو
پھر.. کیوں ہم ....؟؟دنیاوی حرص وہوس میں پڑکر اُس راہ پر چل پڑے ہیں جہاں
ہمارے ہاتھ صرف اور صرف اپنی تباہی اور بربادی کے اور کچھ نہیں آئے گا۔
جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کسی بھی معاشرے اور تہذہب میں انسانیت کو
نظراندازکردیاجاتاہے تو پھر اُس معاشرے اور تہذیب میں دکھ، بھوک وافلاس،
کرپشن، اقرباءپروری، لوٹ مار، قتل وغارت گری اور ظلم وستم اور جبر کا ایک
ایسادور شروع ہوجاتاہے جس کی وجہ سے معاشرہ اور تہذیب ختم ہوکررہ جاتی ہے
یہاں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ آج دنیامیں یہی کچھ ہورہاہے جس کا ہم ابھی ابھی
تذکرہ کرچکے ہیں یعنی دنیاکو سُدھارنے کے دعویداروں(امریکا اور اِس کے
حواریوں ) نے اپنے سے کم طاقت کے حامل ممالک میں تاریخ انسانی کی ایک ایسی
ظلم کی داستان رقم کررکھی ہے جس کی مثال گزشتہ اور مستقبل کی صدیوں میں بھی
ملنی مشکل ہے۔الغرض یہ کہ بالخصوص سُپرطاقت امریکا اور اس کے ساتھیوں نے
اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں مبتلارہ کرآج انسانیت کے اُس سارے احترام
کو بالائے طاق رکھ دیاہے جس پر ازل سے انسانیت کی بنیاد قائم تھی ۔ جبکہ
دنیابھر میں انسانیت کے احترام کا علمبردار بننے والی قوتیں آج انسانیت کی
خدمت سے بے نیاز رہنااور ہر قسم کے بندھنوں سے آزادہ ہونااپنی بقاءاور
استحکام کا کلیہ بناچکی ہیں۔
آخر میں ہم سمپاآریاکے کہے ہوئے اُن الفاظ پر اپناکالم ایک سوال کے ساتھ
ختم کرناچاہیں گے کہ ”کیا اَب بھارتی سرکاراِس واقعے یااور کسی واقع کو
جواز بناکر پاکستان سے متعلق اپنامنفی اور بے بنیاد پروپیگنڈ ہ جاری رکھ کر
اپنے یہاں سیاست کے متحمل ہوسکتے ہیں اور اپنی کسی ایسی غلیظ سیاست سے اپنے
عوام میں پاکستان سے متعلق نفرت کا زہرگھول کر کوئی جنگی محاذ کھول سکتے
ہیں جبکہ بھارتی عوام کے پاکستان سے متعلق نیک جذبات ہیں وہ پاکستان سے اِس
واقع سے پہلے بھی محبت کرتے تھے اور آج ہم اپنے پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں
کہ واقع کے بعد بھارتی عوام کے دلوں میں پاکستان سے متعلق مزیداچھے اور نیک
جذبات پیداہوگئے ہوں گے ہاں ماسوائے بھارتی انتہاپسندہندوؤں اور بھارتی
انتہاپسنداور جنونی حکمرانوں کے ....باقی سارے بھارتی یہ کبھی نہیں چاہتے
کہ بھارت اور پاکستان کے بیچ کبھی جنگ ہو بھارتی عوام ہمیشہ سے پاکستان اور
بھارت کے درمیان امن اور شانتی کے خواہشمند رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں
گے۔جبکہ بھارتی حکمرانوں کی سوچیں ہمیشہ سے اپنی عوام کے یکدم برعکس رہی
ہیں جو اِس واقع کے بعد بھی اپنی اُس ہی ضدپر قائم رہیں گے۔ |