ستائیس مارچ کو سابق چئیرمین پریس کلب سمبڑیال ذیشان اشرف
شہید کی تیسری برسی تھی، علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ کے ایک گاوں بیگوالہ
کا یہ خوبصورت نوجوان تین سال پہلے سابق حکمران جماعت کے یوسی چئیرمین
عمران عرف عمرانی کے ہاتھوں دن دیہاڑے سچ لکھنے کے جرم میں یونین کونسل کے
برآمدے میں قتل ہوگیا تھا۔
تین سال پلک جھپکتے میں گزر گئے ، ان تین سالوں میں ملکی و بین الاقومی
صحافتی تنظیموں اور قریبا" دنیا بھر کے اخبارات و چینلز نے ذیشان کے ناحق
قتل پہ احتجاجی پروگرامز کئے اور رپورٹس شائع کیں تاہم ان کے قاتل پھر بھی
کیفر کردار تک نہیں پہنچ سکے وہ آج بھی پاکستان کے نظام اور انصاف کا منہ
چڑاتے کہیں زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہونگےجبکہ دوسری طرف شہید صحافی کے
اہل خانہ ناصرف انصاف حاصل کرنے کے لئے دھکے کھا رہے ہیں بلکہ ان کی زندگی
بھی خطرات سے دوچار ہے ۔
پاکستان میں چاپلوسی ، خوشامد اور بے اصولی کی صحافت کرنے والےمزے سے رہتے
ہیں یہ پریس کارڈز کی کرامات سے بھی مستفید ہوتے ہیں اور سیاستدانوں اور
افسران کو راضی رکھنے کے فن میں یدطولاء ہونے کی وجہ سے ان کی جیبیں بھی
گرم رہتی ہیں جبکہ سچ لکھنے والوں کو آئے روز جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا
پڑتا ہے انہیں گالیاں اور دھمکیاں بھی ملتی ہیں اور کسی روز کسی سڑک پہ
گھات لگا کر انہیں زندگی سے بھی محروم کردیا جاتا ہے ۔
آپ ہمارے ملک کا نظام انصاف دیکھیں مقتول پریس کلب کا چئیرمین اور ایک بڑے
اردو قومی اخبار کا نمائیندہ تھا پچھلے تین سال سے یہ قتل پاکستان کے
اخبارات اور چینلز پہ سب سے ذیادہ ڈسکس کیا جانے والا کیس ہے ، سیالکوٹ میں
نئے آنے والے ہر ڈی پی او صاحب کا یہ دعوی ہوتا تھا کہ جلد قاتل کیفر کردار
تک پہنچا دئیے جائیں گےمگر کیفرکردارتک پہنچانا تو دور کی بات ہے آج تک
مرکزی ملزم ہی گرفتار نہیں کیا جاسکا اور اگر کوئی گرفتاری ہوتی بھی ہے تو
پولیس کی تفتیش اتنی ناقص ہوتی ہے کہ وہ ملزمان بھی جلد ضمانت پہ رہائی
حاصل کرلیتے ہیں ۔
صحافی تنظیموں کے کچھ لیڈروں نے ذیشان کا نام لے لے کر اپنا خوب نام بنایا
ہے ، یقینی بات ہے شہرت تو ملتی ہے ساتھ بیرونی امدادیں بھی ڈکاری ہونگی
لیکن عملا" کوئی کچھ نہیں کرسکا ذیشان کے بھائی کل بھی تنہا جوتیاں رگڑ رہے
تھے اور آج بھی انصاف کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں مگر انصاف
ہے کہ کسی ٹرک کی بتی کی طرح ہاتھ آنے کو نہیں ، بقول شاعر
"دربدر ہے کیوں انصاف تیرے شہر میں" ۔
تزکرہ ذیشان کا ہورہا ہے تو سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر صاحب سے میری ایک بار
پھر گزارش ہے اور یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ بھی ہے کہ مقتول کی وسیع تر
صحافتی خدمات اور قربانیوں کے صلے میں سمبڑیال ائرپورٹ چوک یا سمبڑیال موڑ
کا نام بدل کر " ذیشان شہید چوک " رکھ دیا جائے، میری سیاسی و سماجی اور
صحافی کارکنان سے بھی درخواست ہے سب مل کر انتظامیہ سے یہ درخواست کریں
تاکہ سمبڑیال کی آنے والی نسلیں جان سکیں کہ سچ کے لئے جان نثار کرنے والے
صحافی بھی ہوتے ہیں ۔
27 مارچ کا دن اب اس حوالے سے بھی میری زندگی میں اہمیت کا حامل رہے گا کہ
اس سال اس دن میرے بہت پیارے دوست ڈاکٹر اشفاق حیسن ہارٹ اٹیک کے باعث
ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے وہ ایک خوش اطوار اور ہر لحظہ خدمت خلق کے
لئے کمربستہ رہنے والے ہمدرد انسان تھے میں نے ان سے کافی کچھ سیکھا وہ دل
کی شدید تکلیف کے باوجود آدھی آدھی رات کو بھی کسی کی بھی مدد کے لئے نکل
پڑتے تھے وہ بے لوث اور کھرےانسان تھے اللہ کریم ان پہ اپنی رحمتیں نازل
کرے آمین ۔
کہنے لکھنے کو بہت کچھ ہے کئی داستانیں کئی قصے ہیں لیکن اخبار کا ایک کالم
کتنا کچھ متحمل ہوسکتا ہے؟ یہی حال ہماری زندگی کا ہے ہماری پلاننگز بہت
لمبی آرزوئیں طویل مگر موت کا فرشتہ مسلسل ہماری گھات میں ہوتا ہے اور جب
وقت آخر آچکا ہوتا ہے تب پتہ چلتا ہے ہم تو سراب کے پیچھے بھاگے آرہے تھے
جبکہ اصل زندگی تو کچھ اور تھی ۔
ریاست مدینہ بنانے کے دعویدار حکمران بھی اپنے پرانے حریفوں کے رستے پہ
تیزی سے گامزن ہیں ان کے لئے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا ایک
واقعہ شائد اس سے کوئی سبق حاصل کرسکیں
حضرت عمر کو جب پتہ چلا کہ امیرالمومنین سلیمان بن عبدالملک کی آخری وصیت
کےمطابق مسلمانوں نے انہیں اپنا امیر چن لیاہے تو بدن پر رعشہ طاری ہوگیا
ٹانگیں وزن اٹھانے سےقاصر ہوگئیں ،دھڑام سے زمین پہ گرگئے، پھر یہی عمر بن
عبدالعزیز رحمہ اللہ مرض الموت میں مبتلاء ہیں ان کے برادر نسبتی ان کی
عیادت کو آئے تو دیکھاکہ وہ شہزادہ جو خوشبووں میں رچا بسا قیمتی لباس زیب
تن کئے رکھتا تھا آج اس کاکرتاپھٹاہواہے۔
بہن سے کہا "امیرالمومنین کا لباس بدل دیجئے ، لوگ ان کی مزاج پرسی کے لئیے
جمع ہورہے ہیں" ۔
بہن( جن کے والدعبدالملک بن مروان اور دوبھائی ولید بن عبدالملک اور سلیمان
بن عبدالملک خلیفہ وقت رہ چکے تھے) نے سرجھکالیا ،کچھ دیر اسی کیفیت میں
رہیں پھر بولیں " بھائی ! امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز کے پاس بس یہی ایک
کرتا ہے "۔
وہ عمر جو انتہائی مہنگے اور اعلی لباس زیب تن کیاکرتے تھے ۔جہاں سے گزرتے
خوشبوؤں کی لپٹیں گزرنے والوں کو عمر کے گزرنے کاپتہ دیتیں ۔جب
امیرالمومنین بنے تو سادگی کو اپنااڑھنابچھونا بنالیا ، اکثر اللہ کے حضور
جوابدہی کے خوف سے رویا گڑگڑایا کرتے ۔
اقتدار کےحریصوں کو یاد رکھنا چاہئیے یہ عہدے یہ ذمہ داریاں بہت بڑی آزمائش
ہیں کل اللہ تعالی کے حضور انہیں جوابدہ ہوناپڑے گا ۔اور وہاں سو فیصدی
انصاف سے کم کوئی معیار نہیں ہے ۔
|