وطن عزیز میں خواتین کے مسائل کی سنگینی کا اندازہ آج ہی
شائع ہونے والے ایک عدالتی فیصلے سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ فیصلہ اتفاق سے
اترپردیش میں سامنے آیا جو خواتین پر ہونے والے تشدد کے معاملے میں سرِ
فہرست ہے۔ خواتین کے قومی کمیشن کے اعدادو شمار اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں۔
مذکورہ فیصلہ پرتاپ گڑھ ضلع کے ایڈیشنل سیشن جج( پاکسو ) پنکج کمار شری
واستوا کی عدالت نے اغوا و آبروریزی کے مقدمہ کی سماعت کے بعد سنایا۔ یہ
معاملہ دس سال سے زیادہ پرانا ہے۔ 10/ جنوری 2011 کو ایک فریادی نےپولیس
سپرنٹنڈنٹ سے شکایت کرکے الزام عائد کیا کہ اس کی 15 سالہ بیٹی کو 25/
اکتوبر 2010 کو گورنمنٹ گرلز انٹر کالج پڑھائی کرنے کے لئے گئی مگر شام کو
واپس نہیں آئی۔ والد کو تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ راجو ہرجن نامی بدمعاش اس
کی بیٹی کو لے کر فرار ہو گیا ہے۔بدمعاش راجو کی تلاش میں مجبور باپ اس کے
مالک ستیہ پرکاش گپتا کے پاس پہنچ گیا جو اتفاق سے بی جے پی کا رہنما بھی
تھا ۔
مظلوم باپ کو گپتا کے بارے میں جان کر یقیناً خوشی ہوئی ہوگی اور وہ پر
امید ہوا ہوگا کہ اس کی مدد کی جائے گی لیکن گپتا جی نے سفاکی سے جواب دیا
کہ دو روز میں اس کی بیٹی آ جائے گی۔ کاش کہ نام نہاد لوجہاد کے خلاف گلا
پھاڑ پھاڑ چلانے والا زعفرانی جانتا کہ ایک جوان بیٹی کے دو دن اغواء
ہوجانے کا صدمہ کیا ہوتا ہے؟ ویسے وہ دو دن کی مدت پھیل کر تقریباً چھ ماہ
ہوگئی اور بالآخر مظلوم بیٹی روڈویز بس اڈے کے نزدیک پائی گئی۔پولیس شکایت
کی بنیاد پر اغوا و آبروریزی کا کیس درج کرکے فرد جرم عدالت میں پیش کی گئی۔
اس کے باوجود عدالت کو فیصلہ سنانے میں دس سال سے زیادہ کی مدت لگ گئی۔ عام
طور پرلوگ اتنے طویل عرصہ تک پیروی نہیں کرپاتے اور مختلف مجبوریوں کی
بنیاد پر خاموش بیٹھ جاتے ہیں یا ڈرا دھمکا کر چپ کردیئے جاتے ہیں ۔ یہ
خوشی کی بات ہے کہ اس معاملہ میں ایسا نہیں ہوا اور مایوس ہونے کے بجائے
مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے وہ لوگ جدوجہد کرتے رہے ۔
اس مقدمہ کی سماعت کے بعد شواہد کی بنیاد پر خاطی ثابت ہونے والے ملزم راجو
ہرجن کے ساتھ ساتھ اس کو پناہ دینے والے بی جے پی لیڈر ستیہ پرکاش گپتا و
کو بھی بیس سال کی سزا سنائی گئی ۔ ان دونوں کو بیس ؍ بیس سال کی قید
بامشقت کے ساتھ ڈھائی لاکھ روپیہ جرمانہ بھی عائد کیا گیا ۔ عدالت نے اس
جرمانہ کی نصف رقم مظلومہ کو دینے کی ہدایت بھی دی ۔ اس سانحہ سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین پر ہونے والے ظلم کو کس طرح سیاسی رہنماوں کی
سرپرستی حاصل ہوتی ہے لیکن جب انتخاب کا موقع آتا ہے یہی لوگ عورتوں کے
مسیحا کا چولہ اوڑھ کر عوام کو بیوقوف بناتے اور انہیں گمراہ کرتے ہیں ۔ اس
دوران اپنے کالے کارناموں کو چھپانے اورعوام کے جذباتی استحصال کی خاطر
انہیں لو جہاد جیسی گمراہیوں میں الجھا دیاجاتاہے۔ فی الحال بی جے پی کی
مختلف ریاستوں میں لوجہاد پر قانون بنانے کی ہوڈ لگی ہوئی ہے ۔ اس فہرست
میں آخری اضافہ گجرات کا ہے۔
اس قانون سازی کے ذریعہ گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی نے اپنا کم از کم
ایک وعدہ تو نبھا ہی دیا لیکن یہ احتیاط بھی برتا کہ مذموم اصطلاح کا
استعمال نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امیت شاہ کی وزارت داخلہ ایوان
پارلیمان کے اندر اس طرح کی کسی شئے کے وجود کا انکار کر چکی ہے۔ قومی
تفتیشی ایجنسی ( این آئی اے) کےپاس ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز موجود ہی نہ ہو اس کی روک تھام کیوں کی جا رہی ہے؟
اس کے کئی جوابات ہیں ۔ پہلا جواب تو یہ ہے کہ جب اس کی غیر موجودگی کے
باوجود وعدہ کردیا گیا اور لوگوں نے اسے مان لیا تو اس کو نبھایا کیوںنہ
جائے؟ ایک سوال یہ ہے کہ اس کے علاوہ عوام کی فلاح و بہبود کے بے شمار وعدے
کیے گئے تھے ۔ ان کو کیوں نہیں نبھایا گیا؟ اس سوال کےکئی جوابات ہیں مثلاً
دوسرے وعدے ہاتھی کےدکھانے والے دانت تھے ۔ ان کو پورا کرنے کی نیت ہی نہیں
تھی نیز فلاح وبہبود کے کام بغیر مہارت اور وسائل کے نہیں ہوتے لیکن قانون
مفت میں بن جاتا ہے۔ اس سے شہرت بھی بہت ملتی ہےکیونکہ ذرائع ابلاغ میں خبر
بنتی ہے۔ مخالفت ہوتو اور بھلا ہوجاتا ہے۔
اس طرح کے قانون کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایساہواّ کھڑا کرنے سے خواتین
کے سنگین مسائل کی پردہ پوشی ہوجاتی ہے۔ اس ملک میں جذباتی مسائل اچھال کر
سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور انتخاب میں انہیں خوب بھنایا جاتا
ہے۔ فی الحال جن چار صوبوں اور ایک یونین ٹیریٹری میں الیکشن ہورہا اس میں
سے صرف کیرالہ ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی کا اقتدار میں آنا
ناممکن ہے اور وہیں یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔ باقی سارے مقامات پر اس کو نظر
انداز کردیا گیا ہے۔کیرالہ کے اندر سب سے پہلے 2009 میں ’ہندوجاگرتی‘ نامی
ویب سائیٹ نے لوجہاد کا ہنگامہ کھڑا کیا تھا مگر صوبائی پولیسنے اسے بے
بنیاد پایا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہ لکھ کر اس کی ہوا
نکال دی کہ ’ہمارے سماج میں بین المذہبی شادیکوئی جرم نہیںایک معمولی بات
ہے۔‘ تاہم مرکز کے تحت کام کرنے والی قومی تفتیشی ایجنسی نے 2018 میںاپنے
آقاوں کی خوشنودی کے لیے ہادیہ کے والد کی ایما پر اسے زبردستی مسلمان
بنانےکا الزام لگایا دیا۔ سپریم کورٹ میں اسے منہ کی کھانی پڑی ۔اس نے اپنے
فیصلہ میں کہہ دیا کہ عقیدہ اورایمان کے مسئلے میں آزادی آئینکا بنیادی
ستون ہے اور سرکار یا سماج کا پدری نظام اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتے۔
قومی خواتین کمیشن کی سربراہ ریکھا شرما نے مہاراشٹر کے گورنر سے ملاقات
میں لو جہاد کے بڑھتے معاملات کا ذکر تو کیا لیکن جب کمیشن سے تفصیل طلب کی
گئی تو اعدادو شمار کے معاملے میں معذوری پیش کی گئی۔ اس کے باوجود گجرات
کے وزیر مملکت برائے داخلہ پردیپ سنگھ جڈیجہ نے مذکورہ ترمیم کو پیش کرتے
ہوئے لو جہاد کی حمایت میں کہا اس طرح کا قانون بہت سی ریاستوں اور ممالک
جیسے 'میانمار، نیپال، سری لنکا اور پاکستان میں موجود ہے۔ اس مطلب ہوا کہ
اب ہندوستان کل تک جن ممالک کو پسماندہ کہتا تھا مودی یگ میں ان کی پیروی
کرنے لگا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ نام بدل کر ہندو لڑکیوں کو پریم جال اور
شادی میں پھنسا کر مذہب تبدیل کرنے والے جہادی عناصر سے سختی سے نمٹنے کے
لیے ریاستی حکومت نے یہ قانون بنایا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا کہ مذہب کی
تبدیلی کے بعد ، ایسی خواتین کو دہشت گردی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ان
کی اس بکواس کے خلاف جمال پور، احمد آباد کے ایم ایل اے کھیڑوالا نے بل کے
مسودے کو پھاڑ دیا کیونکہ ان کے خیال میں اس تقریر کے اندر اسلام کو نشانہ
بنا یا گیا تھا ۔
کانگریس کے رکن اسمبلی غیاث الدین شیخ نے بل کی مخالفت میں کہا کہ بی جے پی
نے اس بل میں جان بوجھ کر لو جہاد کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے، وہ اپنی
ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہر 6 ماہ بعد اس طرح کا نیا شگوفہ چھوڑتی ہے۔
یہی بات سچ ہے کیونکہ جڈیجہ کی جذباتی بیان بازی ’ہندو سماج میں بیٹیوں کو
کلیجے کا ایک ٹکڑا سمجھا جاتا ہے، اس لئے انہیں جہادیوں کے ہاتھوں میں نہیں
جانے دیا جاسکتا‘ سن کر ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں ہندو خواتین کا واحد
مسئلہ یہی لوجہاد ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ موصوف اپنی تقریر کے دوران خود
ان کے ذریعہ پچھلے سال پیش کردہ خواتین پر ہونے والے جرائم کی تفصیلات بھول
گئے ۔ جڈیجہ نے بتایا تھا کہ جنوری 2018 کے بعد دو سالوں میں کل 2723عصمت
دری کے واقعات درج ہوئے یعنی آدرش گجرات میں ہرروز 4 خواتین کی آبرو ریزی
ہوتی ہے۔ اس دوران 41واقعات اجتماعی عصمت دری کے تھے ۔
وزیر موصوف کی پیش کردہ رپورٹ سے حالات کی سنگینی کا اندازہ بہ آسانی
لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا ان واقعات میں سے 35کے اندر5 سال سے
کم عمر بچی کو حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس معاملے میں بی جے پی کا
گڑھ مانے جانے والے شہر سورت ، احمدآباد ،راجکوٹ اور بھروچ سرِ فہرست ہیں
جہاں ہر دوسالوں میں 3 کم سن بچیوں کی عصمت دری کے واقعات سامنے آئے ۔
انہیں شہروں میں لوجہاد کا نعرہ لگا کر بی جے پی نے بلدیہ کا انتخاب پھر سے
جیت لیا۔ جملہ واقعات میں سے تقریباً 65 فیصد یعنی 1763 سانحات میں متاثرہ
کی عمر 6 سے 18سال کے درمیان تھی ۔ یہ معاملات بھی دیہاتوں کے بجائے بڑے
شہروں کا خاصہ تھے ۔
ان واقعات کی سب سے زیادہ تعداد 441عصمت دری احمد آباد میں ہوئی ان میں سے
3پانچ سال سے کم اور 302کی عمر 6 سے 18سال تھی ۔ اس کے بعد سورت جہاں جملہ
واقعات 393ان میں سے 13 متاثرین کی عمر ۵5سال سے کم اور 297 کی عمر 6 سے 18
کے بیچ تھی۔ اس کے بعد بالترتیب بناس کانٹھا ، کچھ ، احمدآباد دیہات اور
راجکوٹ شہر کا نمبر آتا ہے۔ دریا پور کے رکن اسمبلی غیاث الدین کے ذریعہ
پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جڈیجہ نے بتایا تھا کہ احمد
آباد شہر میں پچھلے دو سالوں کے دوران اوسطاً ۹ عورتیں ہر دن میں غائب
ہوجاتی ہیں اور ان میں سے ایک 14سے 18سال کے درمیان کی ہوتی ہے۔ اس طرح
دوسالوں میں کل 3421خواتین غائب ہوگئیں ۔ ان میں 2971 کو دوبارہ ڈھونڈ
نکالا گیا۔ ایک سال قبل ان میں سے کسی کا تعلق لو جہاد سے نہیں تھا مگر اب
ہوجائے گا کیونکہ اگلے سال انتخاب ہے۔
دسمبر 2019 گجرات کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولس (شعبہ خواتین) انل
پرتھم نے انکشاف کیا تھا کہ خواتین کو مدد کرنے والے سرکاری نمبر پر پچھلے
تین سالوں میں 4 لاکھ80 ہزار فون موصول ہوئے ۔ یہ ملک میں سب سے بڑی تعداد
ہے اور اس سے حالات کی سنگینی کاپتہ چلتا ہے۔ ان میں 26فیصد گھریلو تشدد، 6
فیصد شراب نوشی کے سبب ہونے والے جھگڑے تھے جبکہ گجرات میں شراب بندی ہے۔ 4
فیصد پڑوسیوں کی شکایت اور 2 فیصد جنسی حملے کی شکایت کو لے کر تھے ۔
پریتھم نے سرکاری اقدامات کی تفصیل پیش کرنے کے بعد گجرات پولس پر تنقید
کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پر ہونے والے جرائم کی روک تھام ان کی پہلی ترجیح
ہونی چاہیے ۔ انہوں نے اعتراف کیا اس پر سرکاری رقومات کو انصاف پسندی کے
ساتھ خرچ نہیں کیا جاتا ۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق گجرات میں
ہر روز تین خواتین کی جانب سے چھیڑ چھاڑ کا شکار ہونے کی شکایت آتی ہے۔
اس معاملے جون 2019 کے اندر بی جے پی کے رکن اسمبلی بلرام تھاوانی کے ذریعہ
این سی پی کی حامی نیتو تیجوانی کو زدوکوب کرنے کی ویڈیو بھی ذرائع ابلاغ
میں آچکی ہے۔ یہ واقعہ احمد آباد کے نروڈا میں پیش آیا تھا ۔ نیتو اپنے
علاقہ میں پانی کا مسئلہ لے کر رکن اسمبلی کے پاس گئیں تو اس نے کچھ کہے
سنے بغیر مارپیٹ شروع کردی۔ ان کا شوہر بیچ بچاو کے لیے آیا تو بلرام کے
حامیوں نے اس کو اور وہاں موجود دیگر مظاہرین کی بھی پٹائی کی ۔ بلرام نے
آگے چل کر کہا کہ وہ غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا اس لیے اسے معاف کردیا
جائے ؟ سوال یہ ہے کہ لوجہاد کی آڑ میں خواتین کو جگر کا ٹکڑا بتانے والی
بی جے پی نے اس سفاکی کےبدلے اپنے رکن اسمبلی کو کیا سزا دی؟ کیا اسے
برخواست کرکے جیل بھیجا گیا ؟ یہ تو بی جے پی کی چال، چرتر اور چہرہ ہے۔ اس
لیے اس پر خواتین کے لیے مگر مچھ کے آنسوشوبھا نہیں دیتے۔
|