عین النور ،فیصل آباد
روزے کا مقصد اﷲ پاک کا حکم بجا لانا، اس کی رضا حاصل کرنا ، اﷲ رب العزت
کا قرب حاصل کرنا ۔ روزے کا مقصد اﷲ تعالیٰ سے قریبی تعلق استوار کرنا
ہے۔اﷲ کا حکم پورا کرنا،اﷲ کو راضی کرنا،اﷲ سے تعلق بنانا،روزے کا مقصد نفس
کی خواہشات کو روکنا ہے ۔ روزے سے کھانے پینے کی خواہشات سے رک کر شیطان کی
آمد و رفت کے راستوں کو تنگ کیا جاتا ہے، روزے کے ذریعے سے انسان کے اندر
پاکیزہ زندگی کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، روزے کے فوائد و اثرات
روح اور جسم دونوں پر مرکب ہوتے ہیں،روزہ تمام اعضاکو وہ قوتیں واپس لوٹاتا
ہے جو صرف ہو جاتی ہیں،روزہ جسم کے فاسق مادوں کو دور کرتا ہے اور تقویٰ کے
اصول کا اہم ذریعہ ہے۔اب بات کرتے ہیں روزے کی کیا حقیقت ہے؟ روزہ ایک راز
ہے جو رب اور بندے کے درمیان ہوتا ہے،اپنے خالق کی محبت میں محبوب چیزوں کو
چھوڑ دینا ایک ایسا عمل ہے جس سے کوئی واقف نہیں ہو سکتا ،یہی روزے کی
حقیقت ہے ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ابنِ آدم کا ہر عمل اس کا ہے ماسوائے روزے کے،کہ یہ میرا ہے اور میں خود
اس کا بدلہ دوں گا ۔‘‘
روزے کی فضیلت :
پہلی فضیلت، روزے دار کے منہ کی خوشبو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے
بھی افضل ہے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 5927)
دوسری فضیلت،روزے دار کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔(بخاری شریف حدیث
نمبر1001،مسلم کی حدیث نمبر75)
تیسری فضیلت،روزے کا ثواب اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ (بخاری شریف حدیث نمبر
1094،مسلم شریف حدیث نمبر 1192)
چوتھی فضیلت، روزے کے برابر کوئی چیز نہیں۔(صحیح الترغیب 986 نمبر روایت
ہے)
پانچویں فضیلت،روزے دار کے لئے جنت کا وعدہ ہے۔ (بخاری شریف حدیث
نمبر1397)،اور(مسلم شریف حدیث نمبر 14)
چھٹی فضیلت،روزہ دار شہداء کے ساتھ ہوں گے ۔(صحیح الترغیب 1014)
ساتویں فضیلت، روزہ دار کا ہرعمل 700 گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔(مسلم شریف حدیث
نمبر 1151،ابن ماجہ 1680)
آٹھویں فضیلت،جنت کا دروازہ ریان روزے داروں کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔
(مسلم شریف حدیث نمبر 1192)
نویں فضیلت،ایک دن کاروزہ جہنم کی آگ سے 70سال دور کر دے گا ۔ان شاء اﷲ۔
(مسلم شریف حدیث نمبر 1153اور بخاری شریف حدیث نمبر 2840)
دسویں فضیلت، روزے قیامت کے دن سفارش کریں گے۔ صحیح (الترغیب کی 984),
اور(مسند احمد شریف 281) صفحے پر ہے،
گیارہویں فضیلت، روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے۔(ترمذی 20616،
صحیح الترغیب کی 983)
بارہویں فضیلت، روزے دار کی منہ کی بو کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہو گی۔
(بخاری شریف 193)
تیرہویں فضیلت، روزہ دار کو افطاری کے وقت جہنم سے آزادی دے دی جاتی ہے ۔
(صحیح ابن ماجہ 1332 اور ابن ماجہ 1645)، چودہویں فضیلت، روزے دار اور جہنم
کے درمیان زمین اور آسمان کے برابر آڑ کر دی جاتی ہے۔ (تبرانی کی روایت ہے
اور صحیح الترغیب میں 977)نمبر پر ہے۔
روزے کی پہلی حکمت :
روزے کا فائدہ تقویٰ حاصل کرنا ہے ۔(سورۃالبقرہ آیات نمبر 183)
روزے کا حکم دینے کا سبب کیا ہے، (تاکہ تم متقی یعنی اﷲ سے ڈرنے والے بن
جاؤ)۔
دوسری حکمت:
روزے سے انسان کو صبر نصیب ہوتا ہے، تیسری بات روزے کی مسلمانوں کے درمیان
ہمدردی محبت ،رحمت کے جذبات کی وجہ سے اتحاد پیدا ہوتا ہے۔(مسلم شریف 6586)
چوتھی حکمت:
روزے سے انسان کی اخلاقی تربیت ہوتی ہے۔ روزہ دل لگی سے، گالیاں گلوچ سے
بچنے کا ذریعہ ہے۔
پانچویں حکمت یہ ہے کہ روزہ سے انسان کے اندر شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے
ہیں۔
،روزے کی کیا شرائط ہیں؟
(1) مسلمان ہونا،کافر پر روزہ واجب نہیں ہے۔(2) پاگل مجنوں ذہنی مریض اور
بیمار پر روزہ واجب نہیں۔ (3) بلوغت سے پہلے روزہ واجب نہیں، عادت ڈال لینا
اچھی بات ہے۔(4) عورت کے لیے حیض و نفاس سے پاک ہونا لازم ہے ۔ناپاکی کی
حالت میں روزہ نہیں رکھ سکتی۔ (بخاری شریف 1191)
روزے کے کیا ارکان ہیں؟
(1) نیت یعنی طلوع ِفجر سے پہلے رات کو فرض روزے کی نیت ضروری ہے۔ نیت دل
کا عمل ہے (بخاری شریف حدیث نمبر 1)(ابو داؤد حدیث نمبر 2454)
کھانے پینے سے روکے رکھنا،طلوع ِفجر سے غروب آفتاب تک (البقرہ آیات نمبر
87)
روزے کی سنتیں کیا ہیں؟
(1) سحری کرنا یعنی رات کے آخری حصے میں روزے کی نیت سے کھانا (مسلم شریف
2550
(2) سحری میں تاخیر کرنا صبح صادق کے نمایاں ہو جانے تک (بخاری شریف 1916)
(3)افطار میں جلدی کرنا سورج غروب ہونے کے فوراً بعد بخاری شریف (1997)
مسلم شریف (2554)
(4) کھجور یا پانی سے روزہ افطار کرنا (ابو داؤد 2356)
(5) سنت افطار کرتے ہوئے دعا مانگنا
(6) افطار کر لینا ہے۔
روزے کی حالت میں کون سے کام جائز ہیں؟
(1) حالتِ جنابت میں روزہ رکھنا اور بعد میں غسل کرنا (بخاری شریف 1926)
(1931)
(2) کلی کرنا ناک میں پانی چڑھانا (ابو داؤد حدیث نمبر 367) اور (142)
(3) مسواک کرنا (بخاری شریف 1934)
(4) ٹیکا لگوانا۔ایسا ٹیکا جس کا مقصد جسم کو خوارک یا توانائی دینا مقصود
نا کو دوائی کے طور پر مجبوری کی حالت میں لگوا سکتے ہیں
(5) چیز تیل لگانا اور کنگھی کرنا (بخاری شریف حدیث نمبر 1913)
چھٹی چیز گرمی کی وجہ سے غسل کرنا (ابو داؤد حدیث نمبر 2365)
ساتویں بات ناک میں دوا ڈالنا (بخاری شریف حدیث نمبر 1935)
آٹھویں چیز ہندیا کا ذائقہ چکھنا (بخاری شریف 1930) شرط یہ ہے کہ حلق میں
نہ جائے ۔
(9) نکسیر آنا۔یعنی ناک سے خون آنا کیونکہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں
(10) ٹیسٹ کے لئے خون دینا یا پچھے لگوانا (بخاری شریف 1938اور39) گیارہویں
چیز سرمہ لگانا (ابنِ ماجہ اور اسی طرح کان یا آنکھ میں دوائی ڈالنا۔
دانتوں میں دوائی ملنا مگر خلق تک نہ جائے۔میک اپ کرنا چہرہ کو خوبصورت
بنانے والے فیس واش یا کریم لوشن سے روزے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ٹھنڈے
پانی میں نہانے نہر یا دریا میں، بچوں کو کھانا چبا کر دیا اگر بچوں کو
کوئی اور طریقے سے کھانے کی عادت نہیں چبا کر بچے کے منہ میں ڈال کر خود
کلی کرلینا ۔خوشبو لگانا(ابن تیمیہ فتویٰ 241)، تھوک نگلنا (بخاری شریف
130) ، منہ میں بلا اختیار مکھی مچھر کا منہ سے اندر چلے جانا (بخاری شریف
قبلاً حدیث 1933) ،دانتوں سے خون نکلنا (فتویٰ ویلم 10.267) ،بچوں کو دودھ
پلانا، اگر دودھ پلانے والی ماں روزہ چھوڑنا چاہے تو بعد میں قضا رکھنی ہو
گی۔
روزے میں مکروہ اعمال:
(1) روزے کی حالت میں بار بارکلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا ۔
(2) بوسہ دینا۔
(3) پچھنے لگوانا۔
(4) بیوی کو شہوت سے دیکھتے رہنا۔
(5) بیوی کے جسم کے ساتھ اپنا جسم لگانا۔
(6) کوئی چیز منہ میں ڈال کر چبانا ۔
(7)ہنڈیا سے سالن کا ذائقہ چکھنا ۔
یہ سب مکروہ اعمال ہیں۔مگر مجبوری کی حالت میں کیے جا سکتے ہیں۔
بھول کر کھانے پینے والے کے لیے:
بھول کر کچھ کھا پی لیا تو روزہ پورا کرنا ہے۔ (بخاری شریف 1933) اور (مسلم
20716) جان بوجھ کر کچھ کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ بھول کر کھانے
پینے سے روزہ پورا کرنا ہے اس میں روزے میں کوئی فرق نہیں آئے گا بیشک اﷲ
پاک نیت کو بہتر جانے والا ہے، جان بوجھ کر حلق میں انگلی ڈال کر قے کرنے
سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔جبکہ خودبخود قے کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹا ۔(ابو داؤد
حدیث نمبر 2380) جان بوجھ کر مباشرت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ (1980) اور
(مسلم شریف579) حیض و نفاس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے (بخاری شریف کی 1936) اور
(مسلم کی 2578) نمبر پر ہے۔ ڈرپ لگوانے سے یا خون لگوانے سے روزہ افطار
کرنے کے مترادف ہے ۔
روزہ کی رخصت کن کو ہے ؟
(1) مجنوں، نابالغ پر فرض نہیں،مگر عادت ڈالنا ضروری ہے ۔عقل سے
عاری،مسافر،دودھ پلانے والے ماؤں کو،حاملہ عورت اگر بچے کو نقصان پہنچنے کا
اندیشہ ہو،اور بیماری کی حالت میں، وہ بعد میں قضا روزے رکھے گا ۔(ابو داؤد
حدیث نمبر2048) حیض و نفاس والی عورتوں کو روزہ چھوڑنا ضروری ہے بعد میں
قضا رکھنا ضروری ہے ۔(بخاری1951) جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو دائمی
مریض،یا بہت بوڑھا ہے جس کی طاقت ختم ہو جائے وہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا
کھلائے ۔یہ فدیہ روزے کے قائم مقام ہے ،اس پر قضا نہیں ہے۔ (حاکم کی رویت
ویلیم 2 پیج 4) مسافر روزہ چھوڑ سکتا ہے لیکن قضا ضروری ہے (بخاری شریف
1943) ہمیشہ سفر کرنے والے ڈرائیور یا ملازم روزے چھوڑ سکتے ہیں مگر قضا
ضروری ہے۔ (بخاری شریف 1942) اور اگرکسی ڈوبتے شخص کو بچانا پڑے یا کوئی
ایسا کام جس میں جان کا بچانا مشکل ہو تو ایسے حالت میں روزہ توڑنا جائز ہے
لیکن بعد میں قضا ضروری ہے ۔
قضاکے احکامات:
یہ کہ قضا ضروری ہے۔ (البقرہ آیات نمبر 189) جو شخص زندگی میں قوت سے محروم
ہو جائے ، یعنی عمر کے اس حصے میں چلا گیا جہاں چلنا پھرنا مشکل ہے یا
بیماری نے اس قدر لاچار کر دیا ۔پہلی بات یہ کہ اس کے روزے کی قضا ضروری
نہیں۔ دوسری بات اس کی زندگی میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔تیسری بات جو
شخص قوت سے محروم ہو اور فوت ہو جائے۔پہلی بات ولی روزے رکھ سکتا ہے دوسری
بات روزے کے بدلے کا اتنے ہی دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے یعنی فوت
شدگان کے قضاروزے اس کا ولی بھی رکھ سکتا ہے یا ایک مسکین کو اتنے دن کھانا
کھلا دیا جائے۔۔فوت شدگان کے نظر کے روزے یعنی کسی کام کے لیے منت مانگی ہو
کہ فلاں کام ہو جائے تو روزے رکھوں گا۔مراد پوری ہونے کے بعد وہ شخص فوت ہو
گیا تو یہ لازمی رکھنے ہوں گے،چاہے وہ ولی پورے کرے یا اس کا فدیہ نہیں دیا
جائے گا ، نا مسکین کو کھانا کھلا کر دیا جائے گا، وہ ورثا پر لازم ہیں
۔(بخاری شریف 1952)
عارضی بیماری،سفر،حیض و نفاس کے روزوں کا کیا حکم ہے؟
رمضان کے بعد بغیر کسی تاخیر کے جلد رکھنے چاہے (مسلم شریف 355۔ بخاری شریف
321)
دوسری بات کہ ان میں تواتر ضروری نہیں ہے ،وقفے وقفے سے رکھے جا سکتے ہیں۔
(بخاری شریف 1950)
اور چھٹی بات رمضان کی قضا تاخیر سے بھی درست ہے۔(بخاری شریف 1950)
روزے کے مستحب:
شوال کے چھ روزے (مسلم شریف 2798) ذوالحجہ کے نو دن کے روزے (ابو داؤد حدیث
نمبر 4372) سوموار اور جمعرات کا روزہ (ابو داؤد 2437،مسلم کی 2450) ترمزی
کی745) نویں ذوالحجہ کا روزہ (صحیح الترغیب 999) محرم الحرام کے روزے (مسلم
شریف 2755) عاشورہ کا روزہ (مسلم کی 2747) یہ یاد رکھیں کہ عاشورہ کا روزہ
اسلام سے پہلے یہودی رکھا کرتے تھے ۔جب یہودیوں سے آپ ﷺ نے پوچھا کہ آپ
عاشوہ کا روزہ کیوں رکھتے ہیں تو یہودیوں نے بتایا کہ اس دن فرعون ڈوبا تھا
اور ہم شکرانے کے طور پر رکھتے ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام رکھتے
تھے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ
معافت کرنے کا حق ہمارا زیادہ ہے۔ ہمیں یہ روزہ رکھنے کا حق ہے ہم نے یہ
روزہ رکھنا ہے تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملا کر رکھا
جائے یعنی نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جا سکتا ہے۔
ساتویں مستحب قسم ہے ۔
شعبان کے روزے(بخاری شریف 1962, اور مسلم کی 1156)
آٹھواں ہفتہ اور اتوار کا روزہ نواں ہے ۔ایام ِبیض یعنی چاند کی
(13.14.15.) کے روزے(ابو داؤد کے 2449)
دسواں جہاد کے درمیان روزے رکھنا (بخاری شریف 2840)
گیارہ ہے ایک دن روزہ رکھنا ایک دن چھوڑنا ،یہ حضرت داؤد علیہ السلام کے
روزے کہلاتے ہیں ،یہ روزے رکھنا افضل ہے ۔(بخاری شریف 1989,مسلم شریف 1159)
مکروہ روزے کون سے ہیں ؟
پہلی بات میدان ِعرفات میں حجاج کے لیے روزہ مکروہ ہے کیونکہ وہ مشقت والا
دن ہوتا ہے۔ اس دن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آسانی ہے۔ (ابو داؤد 244 دوسرا صرف
جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا جمعہ مسلمان کی عید ہے اور عید کا روزہ نہیں
رکھتے شعبان المعظم کے آخری دنوں کے روزے جب شعبان نصف ہو جائے (ابو داؤد
2337) ہفتے ہے دن بس روزہ رکھنا ترمذی میں روایت ہے۔
کن دنوں روزے رکھنا حرام ہے ؟
عید الفطر اور عید الاضحی کے دن (بخاری شریف 1991،،1993،،اور مسلم کی
1138)ایام ِتشریق کے روزے(ابو داؤد 2011) اور(مسلم کی 1141) بغیر عادت کے
نصف شعبان کے روزے اور کی آخری تاریخوں کے روزے استقبال رمضان کے لیے
رکھنا۔
(بخاری شریف 1914) پانچواں ہمیشہ روزے رکھنا۔ (ابن ماجہ کی 1705) چھٹا جمعہ
کا الگ روزہ رکھنا ۔بخاری شریف 1975,مسلم شریف 1401) ساتواں اکیلا ہفتے کا
روزہ رکھنا ۔(ترمذی 744) آٹھواں مشکوک دن کا روزہ رکھنا ۔ابو داؤد حدیث
نمبر 1137)نواں ہے روزے میں بثار کرنا ۔دسواں ہے شوہر کی اجازت کے بغیر
بیوی کا نفلی روزے رکھنا۔(بخاری شریف 5195) یہ روزوں کے احکامات ہیں جو
مختصراً تحریر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔اﷲ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
|