جدیدیت سے مکالمے کے لیے اسلام کا اصول

تحریر:محمدنسیم،گلستان جوہر،کراچی
اس وقت مغرب میں مساوات ،آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بڑی حساسیت پائی جاتی ہے بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں یہ غلط تاثر پھیل گیاہے کہ اسلام میں بنیادی انسانی حقوق اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ، ہمیں اہل مغرب پر واضح کرنا ہوگا کہ اسلام تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرتاہے اور اس کے عطا کردہ حقوق ہی فطری بنیادوں پر مبنی ہیں۔ مثلاًجب اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتاہے تو کیا یہ حرمتِ انسان کا بہترین قانون قرار نہیں پائے گا؟ اسی طرح اسلام کی بیان کردہ دوسری تمام سزائیں بھی ’’انسانی حق‘‘ کے اثبات ہی کے لیے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق میں بھی ان کے فطری دائرہ کار اور نفسیات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔

ایک داعی کی حیثیت جو بات ہماری خصوصی توجہ کی مستحق ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ انسانی حقوق کے عالمی منشور (Universal Declaration of Human Rights) جو بجا طور پر آج کا عالمی قانون ہے، کی تمام شقوں کو قبول کرناہمارے لیے ممکن نہیں ہے تاہم ہمیں اس بحث میں زیادہ مثبت اور تعمیری انداز میں حصہ لینا چاہیے اور اگر باہمی مکالمہ میں کسی جگہ لچک کی گنجائش موجود ہو تو اس کا لحاظ کیا جانا چاہیے۔اس حوالے سے سیرت طیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ کئی مواقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے بھی بین الاقوامی قانون ،عرف اور قبائلی رسم ورواج کا احترام کیا۔مثلاً :
جب حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا مسیلمہ کذّاب کے سفیروں سے مکالمہ ہوا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم مجھے اﷲ کا رسول تسلیم کرتے ہو ؟ انھوں نے اقرار کیا، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سوال کیا کہ کیاتم مسیلمہ کو بھی نبی مانتے ہو تو انھوں نے کہا :ہاں ،اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سفیروں کا قتل جائز ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔ دیکھئے اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان پر یہ حد جاری نہیں کی بلکہ فرمایا کہ چونکہ عالمی قانون یہ ہے کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا اس لئے میں تمہیں چھوڑ رہا ہوں ورنہ میں تمہیں قتل کروادیتا۔

اسی طرح جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شاہانِ عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ کرنے کا پروگرام بنایا تو واقفانِ حال نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! حکمرانوں میں یہ اصول ہے کہ وہ ان خطوط پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جن پر کوئی مہراور سیل(Seal) وغیرہ نہ ہو،چنانچہ اسی وقت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خطوط کو مہر بند کرنے کے لیے مْہر بنانے کا حکم دیا۔ان مثالوں سے واضح ہوتاہے کہ ایک داعی کے لیے نہ صرف عالمی قانون، رسم ورواج اور عرف سے واقفیت ضروری ہے بلکہ اگر دعوت اور مکالمہ کے مثبت نتائج کی توقع ہو تو دیگر اقوام کے قوانین اور رسم ورواج کا ممکن حد تک لحاظ اور احترام بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اگر کسی اسلامی حکم کا نفاذوقتی مصلحت کے خلاف ہو تو اس کے نفاذ میں توقف بھی کیا جاسکتا ہے۔عصرِ حاضر میں مسلمان قانون دانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا سیرتِ طیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی روشنی میں مطالعہ کریں اور ان پہلوؤں کا جائزہ لیں جہاں باہمی گفتگو اور مکالمہ میں لچک کے پہلو کو مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔
 

Imran Afridi
About the Author: Imran Afridi Read More Articles by Imran Afridi: 13 Articles with 10889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.