پانچویں دن بھی واٹر فیسٹیول کی
چھٹیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں ادھر نور محمد کا بھی کچھ
پتہ نہیں تھا جو بانس کے نمونے لینے اپنے گاﺅں گیا ہوا تھا،میری بوریت کو
دیکھتے ہوئے ریاض نے مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے مزار
پرجا کر فاتحہ خوانی کرنے کی خواہش ظاہر کی ،سن رکھا تھا کہ انگریزوں نے جب
ہندوستان پر قبضہ کیا تو اُن کو جلا وطن کر کے رنگون بھیج دیا تھا ، بہادر
شاہ ظفر کا حسرت بھرا کلام سننے والوں کے دل کی گہرائیوں تک اثر انداز ہوتا
ہے اُن کا مزار شہر کے قریب ہی کینٹ ایریا میں ہے ،وہاں پہنچے تو دل میں
ایک احساسِ محرومی اور حسرتُ یاس کی سی کیفیت پیدا ہو گئی،مزار کو شاہی
انداز سے سجانے کے باوجود ہر چیز پر اُداسی چھائی ہوئی تھی مقبرے کے ا ند ر
تین تعویز تھے جن میں ایک اُن کی بیگم اور دوسری طرف اُن کی بیٹی کی قبر
تھی ، بہادر شاہ ظفر کی اصل قبر نیچے تہہ خانے میں بنی ہوئی تھی جس کے آس
پاس دیواروں پر اُ نکے حسرت بھرے کلام اردو زبان میں لکھے ہوئے تھے جن میں
ایک مشہور و معروف غزل جس کا ایک شعر ہے۔ کتنا ہے بدنصیب ظفردفن کے لیے، دو
گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں ۔پڑھ کر دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو
جاتی ہے کہ اللہ کریم دنیا کے ایک شہنشاہ کو بھی اتنا مجبور کر نے پر قادر
ہے اور آزمائش میں ڈال کر مخلوق کے لیے باعث عبرت بنا دیتا ہے ،مزار پر اس
کے متولی جو اپنے آپ کو صاحب مزار کا مرید کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں
صفائی ستھرائی میں مصروف تھے، نیچے تہہ خانے میں اُن مسلم رہنماﺅں کی
تصویریں لکڑی کے بنے بورڈ وںپر چسپاں تھیں جنہوں نے وہاں فاتحہ خوانی کی
اور کچھ تحفے تحائف بھی دیئے جن میں پاکستان اور بنگلہ دیش نمایاںتھے۔
وہاں سے آ کر ریاض نے بتایا کہ انکل میں کل بنکاک جا رہا ہوں انشااللہ دو
دن میں واپسی ہو گی ،آپ اپنا کام جاری رکھیں کچھ لیبر کل کام پر آئے گی اور
نور محمد کی آنے کی ایک دو دن میں اُمید ہے، ظفیر اور فریدہ آپ کا خیال
رکھیں گے کل سے کام شروع ہو جائے گا تو آپ کو بھی بوریت نہیں ہو گی، میں نے
جب پوچھا کہ کیا ویزاختم ہو گیا ہے تو اُس نے بتایا کہ ہاں کچھ ایسی ہی بات
ہے ،بعد میں ظفیر سے معلوم ہوا کہ پیسے ختم ہو گئے تھے جو بنکاک آفس سے
لینے گئے ہیں۔
تیسرے دن جب ریاض واپس آیا تو بہت ہشاش بشاش تھا جیسے کوئی بہت بڑی کامیابی
ملنے پر خوشی ہوتی ہے، نور محمد ابھی تک نہیں آیا تھا ، اسی دن فریدہ نے
رات کے کھانے پر سب کو مدعو کیا جہاں اُس کی چھوٹی بہن سے ملاقات ہوئی جو
اردو بھی بول رہی تھی جب اُس سے اس کی وجہ پوچھی تو اُس کی بجائے اُسکی
پھوپھی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کی شادی ایک پاکستانی ڈاکٹر سے ہوئی ہے
اس لیے یہ اردو سیکھ گئی ہے، اس کا خاوند لاہور جناح ہسپتال میں ڈاکٹر ہے،
میں نے خوش ہو کر اُسے دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ لاہور آئے میرے گھر ضرور
آنا انشااللہ تمہیں ماں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے اُسے اپنے گھر
کا ایڈریس اور فون نمبر دے کر تاکید کی جس پر اُس نے بھی خوشی ظاہر کرتے
ہوئے کہا انکل مجھے آپ کے وہاں ہونے کا بہت حوصلہ ہو گیاہے میں اگلے مہینے
جب وہاں جاﺅں گی تو ضرور اپنے میاں کو لے کر آپ کے گھر آﺅں گی ۔
ادھر مجھے یہ سوچ کر پریشانی ہو رہی تھی کہ جرمانے کے ڈالروں میں خواہ مخوا
ہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا میں اس صبر آزما انتظار سے تنگ آ چکا تھا، آخر میں
نے یہ کہہ کر ریاض کو واپسی کے لیے سیٹ او کے کروانے کو کہا کہ لگتا ہے
مجھے دوبارہ آنا ہی پڑے گا اور اگر آپ کو جیسے میں نے سمجھایا ہے ویسا مال
آ جائے تو آپ لوڈ کروا دیں،ریاض نے بھی میری اُداسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے
میری دوسرے دن کی سیٹ بک کروا کر کہا، انکل آپ بے فکر ہو کر جائیں جیسا آپ
نے بتایا ہے انشااللہ ویسا ہی ہوگا۔
میرے واپس آنے کے دس دن بعد نور محمد کے آنے کی خبر فون پر دیتے ہوئے ریاض
نے بتایا کہ ایک ٹرک مال آیا ہے مگر جو آپ نے نمونہ یہاں رکھا ہے اُس کے
مطابق ففٹی پرسنٹ مال ریجکٹ ہو جائے گا، میں نے کہا اُسے دوبارہ سمجھا کر
بھیجو کہ جو مال خراب ہو گا وہ تمہارے ذمہ ہو گا اگر تمہیں منظور ہو تو
مزید گاڑیاں لے آﺅ اور جب کم سے کم ایک کونٹینر کا مال آ جائے گا تو میں آ
کر سلیکٹ کروں گا ، یہ کہہ کر میں اُس کے جواب نتظار کرنے لگا جو دوسرے دن
ہی مل گیا کہ وہ ہماری شرط پر مال لانے کو تیار ہو کر چلا گیا اور پندرہ دن
میں اور تین چار ٹرک آ جائیں گے۔
بیس روز بعد مجھے اطلاع ملی کہ آپ آ جائیں اور میں دوبارہ ایک ماہ کے ویزے
پر رنگون پہنچ گیا،مال پر نظر پڑتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ نور محمد کی تو
حالت خراب ہو جائے گی جب اُس کے سامنے 75% مال بے کار ہو جائے گا ، بہر حال
میں نے اُس کی کٹائی میں سائز بڑھا دئیے جس سے اُس کو کم سے کم نقصان ہو ،
اب ریاض نے ایک گاڑی بھی خرید لی تھی جس کو ظہیر ڈرائیو کرتا تھا برما میں
چونکہ رائیٹ ہینڈ ٹریفک ہے اس لیے کبھی کبھی اُس کو پریشا نی ہوتی اوپر سے
ریاض کی بے جا ڈانٹ ڈپٹ جو وہ برداشت کرتا یہ اسی کا حوصلہ تھا ، مجھے
گودام آنے جانے میں بڑی سہولت ہو گئی تھی، ایک دن وہ اپنے کولڈ اسٹور میں
بھی لے گیا جہاں اُس کی مچھلی کی پیکنگ وغیرہ ہوتی تھی برما میں بھی بجلی
کی لوڈ شیڈنگ حد سے زیادہ ہوتی ہے رنگون میں جو برما کا کیپٹل ہے سارا سارا
دن بجلی غائب رہتی ہے دوسرے شہروں کا تو اور بھی برا حال ہے مگر کوئی
احتجاج نہیں ، ہر دوکان، ہوٹل اور فیکٹری میں جنریٹرلگے ہوئے ہیں جن کو
سستے داموں ڈیزل مل جاتا ہے اس کے علاوہ گاڑیوں کے کارڈ بنے ہوئے ہیں جن پر
پیٹرول اتنا سستاملتا ہے کہ یہاں اُس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا دو تین
سو چٹ میں ٹنکی فُل، کچھ ہی دنوں میں دو کونٹینر لوڈ کرنے کے بعد میں واپس
آیا تو ریاض کے بھائی سے میری ائر پورٹ پر ملا قات اُس کے موبائل نمبر کے
ذریعے ہوئی جو مجھے اپنے گھر اورنگی ٹاﺅن لے گیا جہاں اُس کے والد سے
ملاقات ہوئی جو بہت ہی ملنسار اور محنتی انسان تھے،گھر کے دروازے کے پاس
انکی سائیکل کھڑی تھی جیسا کہ ریاض نے بتایا تھا اُس پر وہ مرغی کے انڈوں
کا کاروبار کرتے تھے گھر کے سبھی لوگ بہت خوش مزاج تھے،میں نے جب ریاض کے
بھائی جو ڈاکٹر تھے ان کے ساتھ اُن کے کلینک پر جا کر دیکھا جو بہت معمولی
پیسوں کے عوض غریب مریضوں کا علاج کرتے تھے،اُن سے جب بانس کے بارے میں
پوچھا کہ دو کونٹینر مال جب یہاں پہنچے گا تو اُس کو رکھنے کا کیا انتظام
ہے، تو انہوں نے دو تین جگہیں وہیں آس پاس دکھائیں جہاں وقتی طور پر تو مال
رکھا جا سکتا تھا مگر مارکیٹ سے بہت دور تھیں لہذا میں نے انہیں کسی مین
روڈ پر کوئی دوکان لینے کے لیے کہا تو ان کے بڑے بھائی کے ایک سندھی دوست
کی دوکان حیدرآباد ہائی وے روڈ پر خالی تھی جو اتنی بڑی تو نہیں تھی مگر اس
کے پیچھے کافی جگہ بے آباد تھی جہاں گودام بنایا جا سکتا تھا ،یہ جگہ
فائینل کر کے مال کا انتظار ہونے لگا کچھ عرصے میں کسٹم ڈیوٹی وغیرہ ادا کر
کے مال گودام میں پہنچ گیا، اب اس کی سیل کے لیے پارٹیوں سے رجوع کیا جس کا
خاطر خواہ جواب ملا اور مال کی سیل شروع ہو گئی کچھ جو میں نے پرانے تعلقات
کی وجہ سے ایڈوانس سودے کیے ہوئے تھے اُن کو پورٹ ہی سے مال کی ڈیلیوری کر
دی گئی،رمضان کا مہینہ بھی مجھے کراچی میں اسی گودام پر گزارنا پڑا،جس سے
مجھے پیشاب کی تکلیف نے آ گھیرا اور میں لاہور آ گیا ، ڈاکٹروں نے فوسٹریٹ
کا آپریشن کروانے کا مشورہ دیا اور ہسپتال میں داخل کر لیا، شوگر کو کنٹرول
کرنے میں کچھ وقت لگا ،اسی دوران کراچی سے ریاض کا بھائی مجھے دیکھنے
ہسپتال پھولوں کا گلدستہ لے کر آیا اور بانس کی پارٹیوں سے ملنے کی خواہش
ظاہر کی میرے دل میں کوئی ایسی ویسی بات نہیں تھی لہٰذا میں نے اپنے بیٹے
کو کہا کہ اسے سب پارٹیوں سے لے جا کر ملوا دو ، بیٹا کچھ کسمسایا جس کو
میںنے آنکھ کے اشارے سے مطمعین کر دیا، پارٹیوں سے ملنے کے بعد شاید ریاض
کے بھائی کی نیت میں کچھ فتور آ گیا کہ اُس نے فون کرنا بھی بند کر دیا ،
دو مہینے تک میری صحت نہیں سنبھلی آخر کچھ ٹھیک ہو کر میں نے فون کیا تو
جواب ملا کہ ریاض بھائی پاکستان آ رہے ہیں وہ آپ سے ملنے آئیں گے،کچھ دن
بعد فون کیا تو ریاض سے بات ہوئی ، اس نے بتایا کہ میں ذرا مصروف ہوں فارغ
ہو کر آپ سے ملنے ضرور آﺅں گا، اسی دوران میں نے ایک پارٹی سے ایڈوانس لے
کر فیاض کو پوچھا کہ پیسے کہاں بھیجوں تو اس نے اپنے اکاﺅنٹ میں بھیجنے کو
کہا ، میں نے پیسے ٹی ٹی کے ذریعے اس کو بھیج دیئے مگر اُس نے مال نہیں
بھیجا میں نے دو تین دفعہ فون کر کے پوچھا تو جواب ملا، ریاض بھائی نے مال
بھیجنے کو منع کیا ہے، میں نے جب پوچھا کہ وہ کہاں ہیں تو پتہ چلا کہ وہ
برما واپس چلے گئے ہیں،دل کو بہت دکھ ہوا کہ جو شخص میری خوشامد کرتے تھکتا
نہیں تھا وہ مجھ سے ملے بغیر واپس چلا گیا یہ جان کر بھی کہ میرا آپریشن
ہوا ہے اور میں بستر سے اُٹھ نہیں سکتا ، بہر حال میں نے جس پارٹی سے
ایڈوانس لیا تھا معذرت کے ساتھ اپنے پلے سے اُسے واپس کیا اور برما فون کیا
مگر وہاں سے کسی نے فون نہیں اُٹھایا بہت دفعہ ٹرائی کرنے پر بھی جب کوئی
جواب نہ ملا تو فیاض کو پوچھا اُس نے بتایا کہ میں بھی بہت ٹرائی کر رہا
ہوں مگر وہاں کوئی اُٹھا نہیں رہا،آخر ایک دوسرے ذریعے سے پتہ چلا کہ ریاض
صاحب برما کی جیل میں ہیں۔
(جاری ہے) |