ان دنوں آزاد کشمیر میں الیکشن
کی گہماگہمی ہے ۔ آزاد کشمیر بظاہر ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے اور اس
کے انتخابات بھی معمول کی بات ہے لیکن اس مرتبہ کے انتخابات کئی حوالوں سے
انفرادیت کے حامل اور پاکستانی عوام کی دلچسپی کا مرکز ہیں ۔انتخابی مہم کے
دوران یوں محسوس ہو رہاہے جیسے پاکستانی کی سیاست اپنے تمام رنگوں سمیت
آزاد کشمیر میں جلوہ گر ہے۔ایک طویل عرصے تک آزاد کشمیرمیں دوجماعتی نظام
رائج رہا ۔ مسلم کانفرنس اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی حریف رہیں
اورباری بدل بدل کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں لیکن اب آزاد کشمیر کا منظر
بالکل بدل چکا ہے ۔اب آزاد کشمیر میں کثیر الجماعتی نظام نے دوجماعتی سسٹم
کی جگہ لے لی ہے ۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کے کھلاڑی
اور مختلف جگہوں پر اقتدار پربراجمان جماعتیں اور شخصیات آزاد کشمیر کے
انتخابات کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے ہوئے ہیں اور افرادی قوت ،حکومتی
وسائل اور اثر ورسوخ کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھرپور
طریقے سے استعمال کر رہے ہیں ۔ یوں اس دفعہ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو
پاکستان کی وفاقی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے اوروفاقی وزیر برائے امور
کشمیر میاں منظور وٹو ایک عرصے سے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں ۔پاکستان
پیپلز پارٹی میں پہلے ہی قائدین کا ہجوم تھا لیکن کچھ عرصہ قبل سابق وزیر
اعظم آزاد کشمیر بیرسٹرسلطان محمود چودھری اور سردار یعقوب کی شمولیت سے اب
پیپلز پارٹی میں وزارت عظمی ٰ کے امیدواروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا
ہے اور چودھری یسین ،چودھری عبدالمجید اور چودھری لطیف اکبر سمیت کئی لوگ
اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کے ماضی کی دوحریف
اور متحارب جماعتوں کے بارے میں شنید ہے کہ ان کا آپس میں غیر اعلانیہ
اتحاد ہو چکا ہے ۔موجودہ انتخابات میں وفاقی حکومت کی پشت پناہی ،اہم
شخصیات کی موجودگی ،نظریاتی ووٹ بینک،دائیں بازو کی جماعتوں کی شکست وریخت
کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی پوزیشن خاصی مستحکم ہے ۔
مسلم کانفرنس سردار عبدالقیوم کی جماعت ہے اور ان دنوں ان کے بیٹے سردار
عتیق اس جماعت کے صدر ہیں جبکہ پوتے سردار عثمان عتیق بھی میدان سیاست میں
کود پڑے ہیں ۔سردار ایک عرصے سے آزاد کشمیر پر برسراقتدار رہے لیکن حالیہ
برسوں میں ان کی جماعت میں کافی ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور سردار عتیق کے دیرینہ
رفقاءنے ان سے اپنی راہیں الگ کر لیں ۔لیکن اس کے باوجود مسلم کانفرنس کو
آزاد کشمیر کی سیاست سے مائنس نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ سردار سیاسی داؤ
پیچ آزمانے اور حکومتی ایوانوں تک پہنچنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔ اس وقت
سردار عتیق آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم
کانفرنس کووفاقی حکوت میں شامل چودھری برادران کی شفقت بھی میسر ہے ، وہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے غیر اعلانیہ اتحادی ہونے کا بھی فائدہ اٹھا رہے
اوراس کے ساتھ ساتھ وہ بڑی مہارت سے پرواسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر بھی دے رہے
ہیں ۔
ماضی کی ان دوبڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس کے علاوہ
کچھ عرصہ قبل آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کا قیام عمل میں آیا ۔ سابق صدر
ریاست سردار سکندر حیات خان ،سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حید ر اورسابق
سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر مسلم لیگ (ن ) کے سرکردہ رہنماءشمار ہوتے ہیں
۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماءمیاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف اور دیگر مسلم لیگ
(ن ) کی بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ایک نئی جماعت ہونے کی وجہ سے
آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کو کسی حد تک پذیرائی ملی ہے لیکن یہ پذیرائی
جلسے جلوسوں کی حد تک ہی ہے انتخابات کے نتائج میں شاید مسلم لیگ (ن)
توقعات کے مطابق نشستیں حاصل نہ کر پائے ۔البتہ برادری ازم ،مسلم لیگ (ن)کے
قائدین کے طوفانی دوروں ،سابق وزراءاور سیاسی طور پر مستحکم شخصیات کا ذاتی
اثر ورسوخ اور ووٹ بینک بالخصوص مہاجرین کے حلقوں میں سے زیادہ تعداد میں
حلقوں کی پنجاب میں موجودگی کے باعث مسلم لیگ (ن) شاید دوسری بڑی سیاسی
جماعت کے طور پر سامنے آئے گی ۔
سند ھ کی مہاجر نشستوں کی وجہ سے ایم کیو ایم بھی آزاد کشمیر کی سیاست میں
دخیل ہو چکی ہے اور سندھ کی دو نشستیں تقریباً ایم کیوایم کے نام پیشگی بک
ہوتی ہیں تاہم ایم کیوایم آزاد کشمیر کی عمومی سیاست میں اپنے لیے کوئی جگہ
نہیں بنا پائی ۔اسی طرح تحریک انصاف آزاد کشمیر میں بالکل دکھائی نہیں دے
رہی۔
مذہبی جماعتیں آزاد کشمیر کی سیاست میں کلید ی کردار ادا کرسکتی ہیں لیکن
ان جماعتوں نے کبھی کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی
۔جماعت اسلامی نے اس دفعہ مسلم لیگ (ن )کے ساتھ اتحاد کر کے اچھا پتہ کھیلا
ہے اور جماعت کے رہنماعبدالرشید ترابی جس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے
ہیں وہاں دلچسپ صورتحال پید اہو گئی ہے ۔اس حلقے میں پی پی کے سردار قمر
زمان ،جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن)کے عبدالرشید ترابی ،مسلم کانفرنس کے
راجہ یٰسین اورآزاد امیدوار کرنل نسیم پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں
۔عبدالرشید ترابی اس حلقے سے بھرپور محنت کر رہے ہیں اور امکان ہے کہ وہ
سیٹ نکالنے میں کامیاب بھی ہوجائیں گے لیکن دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ کرنل
نسیم مسلم کانفرنس کے سابق رہنماءاور سابق وزیر تھے وہ ٹکٹ کی آس پر مسلم
لیگ (ن) میں شامل ہو ئے تھے لیکن جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے
انہیں ٹکٹ نہ مل سکا تو وہ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں ،دوسری طر
ف راجہ یٰسین بھی مسلم کانفرنس کے امیدوار ہیں اس طرح ان تینوں امیدواروں
میں تقسیم ہونے والا ووٹ پی پی کے سردار قمر زمان کو فائدہ پہنچا سکتا ہے
۔سیاسی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام بھی آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی قوت ہے
۔اس جماعت نے اگرچہ آزاد کشمیر میں اسلام ،اسلامی نظام اور دینی خدمات کے
سلسلے میں گرنقدر خدمات سرانجام دیں اور سوات وغیرہ میں پرتشدد تحریکوں اور
طویل جدوجہد کے بعد بھی جو قضا سسٹم نافذ نہ ہو سکا اس جماعت اور اس کے
قائد مولانا یوسف خان کی کوششوں کے نتیجے میں برسوں سے آزاد کشمیر میں نافذ
ہے اور وہاں ہر جج کے ساتھ ایک عالم اور مفتی بطور قاضی نہ صرف یہ کہ موجود
ہو تا ہے بلکہ کلیدی حیثیت کاحامل بھی ہو تا ہے ۔یہ تو صرف ایک کامیابی کا
تذکرہ ہے ورنہ جمعیت علامءاسلام نے بالعموم اور جمعیت کے قائد مولانا یوسف
ؒ نے کئی حوالوں سے گرانقدر خدمات سرانجام دیں ۔آزاد ی کشمیر کے محاذ پر
مولانا یوسف ؒ کی خدمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔آپ کا قائم کردہ
دارلعلوم پورے خطہ کشمیر میں علوم ومعارف کے خزانے لٹا رہا ہے۔ یہ سب خدمات
اپنی جگہ لیکن آزاد کشمیر کے بعض گھاگ سیاستدانوں نے جمعیت علماءاسلام کو
پارلیمانی سیاسی قوت نہیں بننے دیا لیکن گزشتہ انتخابات میں جمعیت کے بعض
امیدواران نے اپنے اپنے حلقے میں خاصی مقدار میں ووٹ حاصل کیے جبکہ اس
الیکشن میں مولانا یوسف ؒ کے قابل فخر فرزند مولانا سعید یوسف جس شان سے
انتخابی دنگل میں کودے ہیں یہ توقع کی جارہی ہے کہ اب کی بار فتح ان کا
مقدر بنے گی ۔مولانا سعید یوسف مذہبی طبقے اور مسلم کانفرنس کے مشترکہ
امیدوار ہیں اور ان کے مد مقابل ڈاکٹر نجیب نقی مسلم کانفرنس کے منحرف سابق
وزیر ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔ان دونوں
امیدواران کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے لیکن مولانا سعید یوسف کو
کئی اعتبار سے ڈاکٹر نجیب نقی پر برتری حاصل ہے ۔مولانا سعید یوسف اپنے
خاندانی پس منظر ،اپنے عظیم المرتبت والد کی خدمات ،اپنی تعلیمی وتبلیغی
محنت ،برادری اثر ورسوخ ،بے داغ ماضی ،شاندار خطابت ،خوش اخلاق اور ملنسار
شخصیت ہونے کے ناطے اس حلقے میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔انہیں کشمیر
کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر بہت سے مذہبی رہنماؤں
،تبلیغی جماعت اور دیگر کئی اداروں کی حمایت بھی حاصل ہے جبکہ دوسری طرف
ڈاکٹر نجیب نقی کے پارٹی بدلنے کے باعث ان کے قریبی ساتھی بھی ان سے الگ
ہوتے جارہے ہیں سردار الطاف اس کی واضح مثال ہیں ۔الغرض آزاد کشمیر کے
انتخابات کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص مولانا سعید یوسف اور
عبدالرشید ترابی کا حلقہ مذہبی حلقوں کے لیے خصوصی دلچسپی کا مرکز ہے اور
ملک بھر کی مذہبی قوتیں ان کی کامیابی کے سرگرم عمل بھی ہیں اور دعا گو بھی
........دیکھیے 26جون کو کیا ہوتا ہے؟ |