میاں محمد نواز شریف برطانیہ سے
اپنے دل کی بیماری کے کامیاب علاج کے بعد صحت یاب ہو کر پاکستان لوٹے تھے
تو ہر پاکستانی خوش تھا کہ ایک بڑی پارٹی کا قائد ملک میں واپس آکر اپنے
سیاسی فرائض سے عہدہ برا ہو گا اور عوام کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام
دےگا۔ سیاسی میدان میں میاں صاحب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور سیاست میں
اختلافِ رائے ہی تو وہ قیمتی پونجی ہو تی ہے جس سے بہتر رائے کی تلاش کا
سفر جاری رکھا جا تا ہے لیکن بہر حال یہ ایک نعمت سے کم نہیں ہے کہ ایک بڑی
سیاسی جماعت کا راہنما عوام کی راہنمائی کےلئے ہمارے درمیان موجود ہے ۔
میاں صاحب نے پاکستان آنے کے فورا بعد سیا ست میں ہلچل مچا دی ہے۔میاں صاحب
آصف علی زرداری کو اپنی تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور انھیں جمہو ریت
کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فوج پر وہ جس طرح سے گرجے اور
برسے ہیں اس نے بہت سے حلقوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی ہے۔میاں صاحب کو
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے شکائت ہے کہ پاکستان میں قصرِ صدارت میں
بیٹھا ہو ا شخص جمہوریت کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے تو اس کا جواب دینے کےلئے
پی پی پی کی قیادت اور جیالے موجود ہیں جو ان کے اعتراضات کا بہتر انداز
میں جواب دے سکتے ہیں لیکن جب میاں صاحب فوج پر اعتراضات کرتے ہیں تو فوج
اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی وجہ سے صفائی پیش کرنے سے قاصر ہو تی ہے لہٰذا
فوج پر ہمیں تنقید سے اجتناب کرناچائیے کیونکہ فوج ہی تو واحد ادارہ ہے جو
ہماری سلامتی اور حفاظت کافریضہ سر انجام د یتا ہے اور جسکی طرف ہم مشکل
وقت میں دیکھتے ہیں۔ جب ہم ائر کنڈیشنڈ کمروں میں خوابِ خرگوش کے مزے لے
رہے ہوتے ہیں تو یہی فوجی ہوتے ہیں جو ہماری سلامتی کو یقینی بنا نے کےلئے
صحراﺅ ں کی خاک چھان رہے ہوتے ہیں اورخا ک و خون کے معرکے میں وطن کی
سالمیت اور ہماری آزادی کی خاطر دشمن کے خلاف سینہ سپر ہو کر جان کی بازی
لگاتے ہیں تاکہ دھرتی کے مکین امن و سکون سے راہِ حیات پر اپنا سفرِ زندگی
جاری او ساری رکھ سکیں ۔۔
جہاں تک قصرِ صدارت میں بیٹھے ہو ئے شخص کی بات ہے تو میاں صاحب کا اشارہ
صدرِ پاکستان آصف علی زردار ی کی طرف ہے جسے میاں صاحب نے اپنے دورِ حکومت
میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا اوراس نے گیارہ سال
تک جیلوں کی صعوبتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا تھا لیکن میاں صاحب سے
اپنی رہائی کےلئے سودے بازی نہیں کی تھی۔ پاکستان کی کون سی جیل تھی جہاں
پر اس کے خلاف مقدمات کی سنوائی نہیں ہو ئی تھی ۔ ایک مقدمہ کراچی میں ہو
تا تھا تو دوسرا مقدمہ لاہور میں لگتا تھا کبھی راولپنڈی کے جج کے روبرو
پیش ہونا پڑتا تھا تو کبھی اٹک کے قلعے میں عدالت لگتی تھی۔ میاں صاحب نے
تو ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے آصف علی زرداری کے حوصلوں کو پست کیا
جاسکے لیکن مردِ حر نے میاں صاحب کے سارے ریاستی جبر کو اپنی بسالتوں سے
ہوا میں اڑا دیا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ میاں صاحب اپنے دورِ حکومت میں آصف
علی زرداری پر کوئی بھی الزام ثابت نہ کر سکے لیکن پھر بھی اسے جیل میں
قیدی بنائے رکھنے کا عمل جاری رکھا کہ شائد آصف علی زرداری زندانوں کی
صعوبتوں سے گھبرا کر سرِ تسلیم خم کر دے لیکن ا نتہا ئی کوششوں کے باوجود
ایسا ہو نہ سکا۔ بی ایم ڈبلیو کار کیس میں جان بوجھ کر تار یخ نہیں دی جا
تی تھی اور یہ وہ واحد مقدمہ تھا جس کی بنا پر آصف علی زرداری کی رہائی
ممکن نہیں ہو رہی تھی وگرنہ باقی سارے مقدمات میں تو ان کی ضمانت ہو چکی
تھی۔ اس مقدمے میں شنوائی کئی سالوں کے التوا کے بعد ۴۰۰۲ میں مشرف دور میں
ہو ئی اور پہلی ہی پیشی پر آصف علی زردار ی کی ضمانت منظور کر لی گئی اور
یوں انھیں نو سالوں کی مسلسل اذیتوں کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا جسے میاں
صاحب نے پسند نہیں کیا تھا اور اس پر بڑا واویلا بھی کیا تھا۔آصف علی
زرداری سے محبت کرنے والے اور ا نھیں تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی کو ئی
کمی نہیں ہے اور جب تک انسان اس کرہِ ارض پر موجود ہے انسانوں کے بارے میں
محبت اور نفرت کے جذبات ہمیشہ موجود رہیں گے لیکن وہ چیز جو آصف علی زرداری
کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ہے اس کی جرات و بسالت اور جی داری
اور آصف علی زرداری کی اس خوبی سے اس کے کٹر دشمن بھی انکار نہیں کرسکتے۔۔۔
قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں ۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ کو جنرل پرویز مشرف نے میاں
صاحب کی سول آمریت کا تختہ الٹ کر ایک شب خون کے ذریعے حکومت پر قبضہ کر
لیا اور میاںصاحب کو اسی جیل کی ہوا کھانی پڑی جس میں وہ اپنے مخالفین کو
قیدِ تنہائی میں رکھا کرتے تھے ۔اسٹیبلشمنٹ سے میاں صاحب کے تعلقات مثالی
تھے بلکہ میاں صاحب تو اسٹیبلشمنٹ کی پیدا وار تھے لہذا میاں صاحب کے وہم
وگمان میں بھی نہ تھا کہ انکی اپنی اسٹیبلشمنٹ ان سے بے وفائی بھی کر سکتی
ہے اور جیل کی سلاخیں بھی کبھی انکا مقدر بن سکتی ہیں لیکن کبھی کبھی
انہونی بھی ہو جاتی ہے جیسے میاں صاحب کے ساتھ ہو ئی تھی ۔ وزارتِ عظمی سے
سیدھے لانڈھی جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بے یارو مدد گاراور جیل بھی
ایسے فوجی جرنیل کی جس نے میاں صاحب کا اقتدار چھینا تھا۔ اسوقت میاں صاحب
کے دل میں غصے اور انتقام کے طوفان موجزن تھے اور دوسری جانب مشرف کے دل
میں میاں صاحب کو مٹانے کا عزم تھا۔ میاں صاحب انگاروں پر لوٹ رہے تھے
کیونکہ انکا آئینی اقتدار ایک غاصب نے چھینا تھا ۔ میاں صاحب کا غصے میں
آنا جائز تھا کیونکہ جنرل پرویز مشرف کو اسکا قطعا کوئی حق حاصل نہیں تھا
کہ وہ منتخب وزیرِ اعظم کو یوں اقتدار سے بے دخل کرتا لیکن آدمی وہی کاٹتا
ہے جو وہ بوتا ہے۔گندم بو ئیں گے تو گندم کا ٹیں گے نیکی بوئیں گے تو نیکی
پا ئیں گے اور اگر ظلم روا ر کھیں گے تو پھر وہ سب کچھ ہو جائےگا جو آدمی
چاہتا ہے کہ اسکے ساتھ نہ ہو۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ میاں صاحب جنرل پرویز
مشرف کے غیر آئینی اقدام کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں نکلتے اور جرات کے
ساتھ اپنا مقدمہ لڑتے لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ جیل کی سختیاں برداشت کرنے
کےلئے دل گردے کی ضرورت ہو تی ہے اور ہر شخص آصف علی زرداری نہیں ہوا کرتا
جو گیارہ سال تک جمہوریت کی جنگ لڑتا رہے ۔ یقین کیجئے پاکستان میں جمہوریت
آصف علی زرداری جیسے لوگوں کی جراتوں کی بدولت ہی ممکن ہو ئی ہے ۔اگر وہ
جیل کی کوٹھری سے جمہوریت کی جنگ نہ لڑ تا تو شائد میاں برادران آج بھی ملک
بدر ہوتے۔
زندانوں کی جتنی سختیاں ذولفقار علی بھٹو نے برداشت کیں شائدپاکستان کے کسی
سیاست دان نے برداشت کی ہوں ۔ جنرل ضیا الحق کی سفاکیت کو جس جرات سے
ذولفقار علی بھٹو نے جھیلا یہ صرف اسی کا جگرہ تھا وگرنہ کو ئی اور
سیاستدان ہوتا تو ٹوٹ کر بکھر جاتا لیکن ذولفقار علی بھٹو نہ جھکا نہ ٹوٹا
نہ بکھرا بلکہ شہید ہوا اور اسکی شہادت نے اسے ہمیشہ کےلئے امر کر دیا۔
انسان بھی عجیب و غریب شہ ہے ڈٹ جائے تو کوہ ہمالیہ کو اپنے سر پر اٹھا لے
اور پسپائی اختیار کرنے پہ آئے تو اپنے ہی سائے سے خوف کھانے لگے۔دل کی
دھڑکنوں میں خوف کا غلبہ ہو جائے تو جان کی امان مانگے اور اگر دل کی
دھڑکنیں جرات کی آماجگاہ بن جائیں تو پھانسی کے پھندے کو چوم کر خود اپنے
ہاتھوں سے اپنی گردن میں حمائل کر لے جیسے ناصر بلوچ، ایاز سموں اور بھگت
سنگھ نے کیا تھالیکن شرط یہ ہے کہ اسے اپنے موقف کی سچائی پر یقینِ کامل
ہو۔ یقین خود بخود جرات کو جنم دیتا ہے اور جرات بے خوفی کا سبب بنتی ہے
اور یہی بے خوفی ہوتی ہے جو جان کی قربانی کا فیصلہ کرتی ہے اور جس پر بعد
میں آنے والے انسان فخر و ناز کرتے ہیں۔ جسے انسانیت اپنے ماتھے کا جھومر
بناتی ہے جیسے ذولفقار علی بھٹو کی قربانی کو بنا یا گیا ہے ۔ جیسے منصور
حلاج کی قربانی کو بنا یا گیا ہے جیسے سقراط کے زہر پیالہ پی جانے کی ادا
کو کو بنایا گیا ہے ۔حیات کے رازدان اقبال نے اس کیفیت کو جس خوبصورت انداز
میں بیان کیا ہے جی نہیں چاہتا کہ اس سے آپ کو محروم کیا جائے لہذا سنئے
اور وجد میں آجائیے کہ یہ ارفع و اعلیٰ مقام انسان کا مقدر کیسے بنتا ہے
۔۔۔
ہو صداقت کےلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ۔۔پہلے اپنے پیکر خا کی میں جاں پیدا
کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار ۔۔اور خاکسترسے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
زندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکار۔۔۔ تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے
۲۱ اکتوبر ۹۹۹۱ کو جب جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی آئینی حکومت کا ٹختہ
الٹ دیا تھا تو میاں صاحب کو بھی ایک موقع دیا گیا تھا کہ وہ بھی اسی صف
میں کھڑے ہو جائیں جہاں پر یہ زندہ و پائیندہ ہستیاں کھڑی ہیں لیکن انھوں
نے اس گھڑی زندگی کا سودا موت سے کر لیاتھا ۔ سودا بھی کیا تو انتہائی
گھاٹے کا، خسارے کا شرمندگی اور ندامت کا۔ آ ب و گِل کے اس بت کو بچانے کا
سودا کیا جسے آخر فنا ہو جا نا ہے ۔ جب فنا ہی اس کا مقدر ہے تو پھر کیوں
نہ اسے سچائی کی خاطر فنا کریں تاکہ انسانیت ایسی شاندار موت پر عظمتوں کے
گن گائے۔ جب سقراط کا ذکر ہو گامنصور حلاج کا ذکر ہو گا تو ذولفقار علی
بھٹو کا ذکر بھی ہوگا میاں صاحب کو بھی اس فہرست میںشامل ہونے کا موقع دیا
گیا تھا لیکن وہ عین وقت پر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ انھیں زندگی عزیز تھی
لیکن ان وفا شعاروں کو موت عزیز تھی تبھی تو انھوں نے موت کو للکارا تھا
اور یہی وجہ ہے کہ موت آج تک ان کی دہلیز پر سجدہ ریز ہے۔ آس لگائے بیٹھی
ہوئی ہے کہ ایک دن اس نے ان غیر فانی انسانوں پر وار کرنا ہے اور ان کی موت
سے اپنی آغوش کو ثمر بار کرنا ہے لیکن موت کو ہر بار ناکام لوٹنا پڑتا ہے
کہ روشنی کبھی مرا نہیں کرتی، عاشق کبھی فنا نہیں ہوتے اور نور کبھی مٹھی
میں بند نہیں ہوا کرتا ۔ جنھیں موت نے مارنا ہوتا ہے وہ تو انھیں ایک جھٹکے
میں مار کر چل دیا کرتی ہے۔ لیکن جو موت کو ہی مار دیں ان کے سامنے موت کیا
سوانگ رچائے۔اقبال نے سچ کہا تھا کہ انسانی خودی جب موانعات پر غلبہ حاصل
کر کے پختہ تر ہو جاتی ہے تو پھر موت کا جھٹکا بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ
سکتا ۔
زندانوں کی اعصاب شکن اور آزمائش انگیز گھڑیوں میں میاں صاحب سے جیل کی
زنجیریں اٹھا ئی نہ گئی تھیں کیوکہ انھیں یہ زنجیریں بہت بھاری لگی
تھیںلیکن یہ زنجیریں تو ذولفقار علی بھٹو کو بھی پیش کی گئی تھیں۔ اس نے تو
انھیں جمہوریت کی بقا کی خاطر بخوشی اٹھا لیا تھا۔میاں صاحب کیا آپ بھٹو سے
زیادہ نازو نعم میں پلے تھے کیا آپ کی شہرت اس سے زیادہ تھی کیا آپ کا
خاندانی پسِ منظر اس سے بڑا تھا کیا آپ اندازِ خطابت اور جوشِ خطابت میں اس
سے فا ئق تھے۔ کیا آپ کے پاس جرات و بسالت اس سے زیادہ تھی کیا آپ کے پاس
علم و حکمت کی شمع اس سے زیادہ فزوں تر تھی ۔کیا آپ کے پاس مردانہ وجاہت اس
سے زیادہ تھی کیا آپ کے پاس مقبولیت اس سے زیادہ تھی کیا آپ کے پاس دانش کا
خزانہ اس سے زیادا تھا ۔ کیا آپ کی شخصیت اس سے زیادہ سحر انگیز تھی۔ کیا
آپ کا کرشمہ اس سے زیادہ با اثر تھا۔ کوئی تو چیز ہو گی جو آپ کو یہ
زنجیریں اٹھانے میں مانع ہو ئی ہو گی۔ میرا ایمان ہے کہ آپ کے پاس ذولفقار
علی بھٹو سے کچھ بھی بر تر نہیں تھا وہ ہر شہ میں آپ سے اعلیٰ و ارفع مقام
پر کھڑا تھا لیکن اس نے پھر بھی زنجیروں کا بوجھ با آسانی اٹھا لیا تھا جب
کہ آپ ان زنجیر وں کو اٹھانے سے معذور ہو گئے تھے جس کاآپ کو آج تک دکھ ہے۔
میرا ایمان ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس ایسا آئینہ ہو جو دل کے داغ دکھانے کی
قدرت رکھتا ہو تو مجھے یقینِ کامل ہے کہ میاں صاحب کے دلِ ناتواں پر جیل کی
ز نجیریں نہ اٹھانے کی ندامت کے انگنت نشانات موجود ہو ں گے۔ ہر انسان اپنے
دل پر بے شمار ایسے داغ رکھتا ہے جو وہ کسی کو دکھا نہیں سکتا لیکن وہ داغ
اس کے دل پر موجود ہوتے ہیں۔ میدانِ کارزار میں سچائی کا سامنا نہ کرنے
والوں کے دل پر فقط داغ ہی داغ رہ جاتے ہیں جب کہ سچائی کی خا طر مر مٹنے
والوں کے دل نور کی آماجگاہ ہوتے ہیں اور دنیا ان سے روشنی اور راہنمائی
حاصل کرتی رہتی ہے اور ان کی عظمتوں کے گیت گاتی رہتی ہے۔ عظمتوں کے ان سدا
بہار گیتوں کی آبیاری لہو کی سرخی سے کی جاتی ہے جو ہر شخص کے بس کی بات
نہیں ہوتی۔چنگاری ِ جاں کو فروغِ جاوداں میں بد لنے والے ایسے سورمے روز
روز جنم نہیں لیا کرتے ۔ آنکھیں ترس جائیں تو پھر کہیں جا کر ربِ کائنات ا
یسے دیدہ وروں کے کے نزول کا فیصلہ کیا کرتا ہے جن پر انسانیت سدا ناز کرتی
ہے۔
ِِ |