امام رومی ؒ ایک حکایت میں لکھتے
ہیں کہ سحر کے وقت نقارہ بجا کر لوگوں کو جگانے والے ایک شخص نے نصف شب ایک
سرائے کے باہر نقارہ بجانا شروع کر دیا ۔ اس سرائے کے ہمسایہ نے نیند سے
بیدار ہو کر اس نقارہ بجانے والے کو کہا کہ ابھی تو آدھی رات ہے سحری کا
وقت نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ سرائے تو خالی ہے اس میں کسی کا بسیرا نہیں ،
تو بن دیکھے ، بے عقل نقارہ پیٹے جا رہا ہے کسے سنا رہا ہے اور کسے جگا رہا
ہے ۔
نقارہ بجانے والے نے جواب دیا کہ اس وقت اگرچہ تیرے لئے نصف شب ہے میرے لئے
سپیدہ سحری ہے میری نظر میں تمام راتیں دن بن چکی ہے اور یہ جو تو نے کہا
کہ سرائے میں کوئی قیام پذیر نہ ہے تو مجھے بتا بیت اللہ میں جا کر لبیک
لبیک میں حاضر ہوں کس کے سامنے کہتا ہے تو اس کی تکرار کرتا ہے اور بار بار
میں حاضر ہوں حاضر ہوں کہے جاتا ہے ۔ میں حاضر ہوں کہنا بھی اس بات کی دلیل
ہے کہ کوئی سننے والا ہے جس نے تجھے اس کام پر مامور کیا ہے ۔۔۔
قارئین اس وقت یہی صورتحال آزاد کشمیر انتخابات کے اعلان کے بعد پیدا ہو
چکی ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، مسلم کانفرنس ، جماعت اسلامی ،
لبریشن لیگ ، جموں و کشمیر پیپلزپارٹی ، محاذ رائے شماری سے لیکر تمام
سیاسی جماعتیں اس وقت اپنے ووٹرز کے دروازوں پر جا کر نقارے بھی پیٹ رہے
ہیں اور ہر کوئی ”میں حاضر ہوں “ کی صدائیں بلند کر رہا ہے ہر انتخابات کے
موقع پر آزاد کشمیر کے لاکھوں ووٹرز انہی سیاسی قائدین کے دعوﺅں اور وعدوں
کا سامنا کرتے ہیں اور پلندوں کے حساب سے کیے جانے والے وعدے اور دعوے اگلے
انتخابات تک پھر دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور عوامی مسائل کا کوئی حل نہیں
نکلتا ۔ ہر دفعہ ہمارے قائدین یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ عوام کے تمام مسائل
کو آئندہ الیکشن جیت کر حل کر دیں گے ۔ انتخابات جیتنے کی صورت میں لیڈروں
کا مسئلہ تو شائد حل ہو جاتا ہے لیکن عوام گزشتہ 63سالوں سے وہیں کھڑے ہیں
جہاں سے چلے تھے اور بقول شاعر۔
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ۔۔۔
قارئین !خطہ ِ آزاد کشمیر میں ہونے والے الیکشن 2011ءمحض چند سیاسی شخصیات
اور جماعتوں کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرینگے بلکہ اگر وسیع کینوس پر مشتمل
منظر نامے کو غور سے دیکھا جائے تو تنازعہ کشمیر کے حل کےلئے مرتب کیے جانے
والے روڈ میپ میں ان انتخابات کا کلیدی کردار ہو گا ۔ گزشتہ دنوں ورلڈ کپ
کے دوران پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو جن طاقتوں نے ایک میز پر
بیٹھنے پر مجبور کر دیا یہ اس چیز کی غماز ہیں کہ آنے والے ماہ وسال کشمیر
کی تقدیرکا فیصلہ کریں گے اور آ زاد کشمیر کے لاکھوں ووٹرز اپنے ایک ایک
ووٹ کے ذریعے صرف آزاد کشمیر کی حکومت چلانے والے اپنے نمائندوں کا انتخاب
نہیں کریں گے بلکہ برصغیر کی تقدیر بدل کر رکھ دینے والے نتائج کا سنگ ِ
بنیاد رکھیں گے ۔ بقول اقبال
ہزار کام ہیں مردان ِ حر کو دنیا میں
انہی کے ذوقِ عمل سے ہیں امتوں کے نظام
بدن غلام کا سوز ِ عمل سے ہے محروم
کہ ہے مرور غلاموں کے روز شب پہ حرام
طویل سجدہ اگر ہیں تو کیا تعجب ہے
درائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام
قارئین ! اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر میں پھنسے کشمیری بہن بھائیوں
کی تقدیر کا فیصلہ 26جون 2011ءکے انتخابات کی شکل میں ہونے جا رہا ہے غلام
قوموں کو آزادی کے حصول کا جو طریقہ پوری دنیا میں مردان حر نے دیا ہے وہ
یہی ہے کہ جو غلام قومیں شہداءکی قربانیوں کے نتیجہ میں قبرستان آباد کرتی
ہیں انہیں آزادی ہر صورت میں نصیب ہوتی ہے مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین نے
گزشتہ چھ عشروں کے دوران لاکھوں شہداءکی قربانیاں پیش کیں اور کشمیری قوم
کی آزادی کےلئے جلائی جانے والی شمع اپنے خون سے روشن رکھی یہ ہماری بد
قسمتی کہ آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر اور پاکستان جو تحریک آزادی کشمیر
کا سب سے بڑا مددگار ہے وہاں پربدلتی حکومتوں کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کی
وجہ سے کشمیر عالمی منظر نامے سے اس وقت غائب ہونے کے قریب ہے ۔ پاکستان کو
ایک سازش کے تحت امریکہ اور عالمی قوتوں نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں
فرنٹ لائن سٹیٹ ڈکلیئر کر کے ایک دلدل میں دھکیلا اور اب اسامہ بن لادن
آپریشن کے بعد ایمن الظواہری اور ملا عمر کا نام لے لے کر پاکستان کو ڈو
مور پر مجبور کیا جا رہا ہے مسئلہ کشمیر جو پاکستان کے ترجیحات میں صف اول
پر تھا آج خارجہ پالیسی سے لیکر داخلی معاملات تک ”بیک بینچز“ پر بھیج دیا
گیا ہے ۔ افواج پاکستان کو ایک بہت بڑی سازش کے تحت کشمیر سے ملنے والی
سرحدوں کے ساتھ ساتھ افغانستان سے ملنے والی بہت بڑی سرحد پر الجھایا جا
رہا ہے ۔
قارئین ! اس سب صورتحال کا جائز ہ لینا اس لئے ضروری ہے کہ آزاد کشمیر کے
لاکھوں ووٹرز اس بات کو سمجھیں کہ ان کے ایک ایک ووٹ میں کشمیری قوم کی
تقدیر کے فیصلے چھپے ہوئے ہیں اور زندہ قومیں اپنی تقدیروں کے فیصلے برادری
ازم ، قبیلائی تعصب اور دیگر بتان ِ وہم وگماں کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ
اپنا ایک ایک ووٹ حضرت امام حسین ؓ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ڈالتے ہیں ۔
ہماری دعا ہے کہ آنے والے دور کے فیصلے درست ہوں اور کشمیری قوم بھارتی جبر
سے آزادی حاصل کر کے عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوں گے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک صاحب اپنے گھر میں سٹول پر کھڑے برش سے دیوار پر پینٹ کر رہے تھے ان کی
بیگم وہاں آئیں اور کہنے لگیں ۔
”اجی میں نے کہا برش کو مضبوطی سے پکڑ لیں میں سٹول دوسرے کمرے میں لے جا
رہی ہوں “
قارئین ! بدقسمتی سے امریکہ بہادر اور اس کے حواریوں نے پاکستان اور کشمیر
کو بھی برش پکڑا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے اور ساتویں بحری بیڑے کی طرح
امداد کا سٹول کھینچ لیا ہے ۔اب فیصلہ ارباب بست و کشاد پر ہے کہ وہ دیوار
کے ساتھ برش پکڑے چپکے رہنے پر خوش ہیں یا اپنے پیروں کے نیچے زمین یا سٹول
کی واپسی چاہتے ہیں ۔ ۔۔؟ |