اقوام متحدہ کے
منشور کے مطابق پوری دنیا کے انسانوں کو مذہبی آزادی کا حق حاصل ہے،جس
کاواضح مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام کواس بات کاحق ہے کہ وہ اپنے لیے کس قسم
کے نظام حکومت کوپسندکرتا ہے،لیکن معروضی حقائق اس کے خلاف ہیں اورعالمی
کفریہ طاقتوں نے نہ صرف اسلامی ممالک میں سے اکثرممالک پرمغربی نظام
جمہوریت مسلط کررکھاہے ،بلکہ اس کی بقاکے لیے بھی ہرانتہاسے آگے چلے جا نے
کے لیے ہمیشہ آمادہ وتیارہے اورجہاں اسے جمہوریت کاسکہ چلتانظرنہیں
آتا،وہاں فوجی آمریت کی صورت میں اپنے زرخریدغلاموں کواپنے مذموم مفادات کی
نگہداشت وتکمیل کے لیے لابٹھاتاہے،مگراسلامی نظام خلافت کی تنفیدکی کسی
صورت میں اجازت نہیں دیتا۔حالاں کہ مسلم ممالک اوران کے باسیوں کے لیے یہ
نظام اس قدراہمیت کاحامل ہے کہ جب کسی خلیفہ کاانتقال ہوجاتاتھاتوخلیفہ کو
اس وقت تک دفن نہیں کیا جاتا تھا جب تک دوسرے خلیفہ کے ہاتھ پر لوگ بیعت نہ
کرلیتے۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضور ۖکے انتقال کے فورا ً بعد صحابہ کرام
نے سب سے اہم فریضہ خلیفہ کے تقرر کو سمجھا، جب خلیفہ کا انتخاب ہوگیا اور
صحابہ کرام نے بیعت کر لی پھر حضور ۖ کے جسم مبارک کو دفن کیا گیا ۔یہ
طریقہ خلفاء اربعہ کے دور (١١ھ سے ٤١ھ )سے لیکر آخری عثمانی خلیفہ تک جاری
رہا ۔
خلافت راشدہ کے بعد بعدبنو امیہ کا دور خلافت شروع ہوا جو ٤١ھ سے ١٤٢ھ تک
رہا ۔اس کے بعد خلافت حضور ۖکے چچا حضرت عباس کے خاندان میں منتقل ہو گئی
جو ١٣٢ھ سے ٦٥٢ھ تک قائم رہی ۔ ٦٥٦ھ میں ہلاکو خان نے بغداد کے عباسی خلیفہ
المعتصم باللہ کو شہید کردیا ،لیکن اس قتل ِ عام سے عباسی شہزادہ ابوالعباس
احمد بن علی بچ نکلا اور حلب میں روپوشی کی زندگی گزار نے لگا ۔جب سلطان
بیبرس ۔۔۔۔۔ جو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خاندان سے تھا ،جس کے ماتحت مصر
شام وغیرہ تھے ۔۔۔۔۔کو اس بات کا پتہ چلا تووہ شہزادے کو بڑے اعزازواکرام
سے مصر لایا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔اسکی نسل سے ٢٩١سال (٦٦٠ھ سے
٣٢٩ھ تک) مصر میں خلافت قائم رہی۔ بغداد کی تباہی کو ابھی سو سال ہی ہوئے
کہ ہلاکو خان کا پوتا ایک جنگل میں اپنی شکار گاہ میں مست سویا ہوا تھا ،اس
کے خیمہ کے قریب ایک ایرانی صوفی بزرگ ٹھہرے ہوئے تھے ،کسے پتہ تھا کہ آج
صنم خانے میں سے کعبہ کو نگہبان ملنے والا ہے ۔اس بزرگ نے صبح کی اذان دینی
شروع کی جس کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی، اس نے فوراً حکم دیا کہ جس نے
میری نیند خراب کی ہے اسے فوراً پکڑ لاؤ۔حکم کی تعمیل کی گئی اور خیمے
میںبزرگ کو حاضر کیا گیا۔شہزادے نے پوچھا :
''تم کون ہو ؟
انھوں نے جواب دیا :''ایرانی''
شہزادے نے نخوت اور تکبر سے کہا : ''ایرانی تو کتے سے بھی بد تر ہوتے ہیں
۔''
انہوں نے جواب دیا :''اگر میرا خاتمہ ایمان پر نہ ہوا تو آپکی بات درست ہے
اور اگر میرا خاتمہ ایمان پر ہوا تو میں کتے سے بہتر ہونگا۔
اس نے ایمان کے بارے میں پوچھا توبزرگ نے اسلام وایمان کی ایسی حقانیت بیان
فرمائی کہ ہلاکو خان کا پوتا اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا اور کہا :
ہم بھائیوں میں جنگ چل رہی ہے ،آپ دعا کریں کہ میں جیت جاؤں۔اگر میں جیت
گیا تو آپکا مذہب قبول کر لوں گا ۔
اس ملاقات کے بعد وہ بزرگ واپس چلے گئے ،یہاں تک کہ بزرگ کو اس کی فتح کی
خبر ملی ۔انکو اس بات کی اطلاع اس وقت ملی جب وہ قریب المرگ تھے ۔اپنے بڑے
بیٹے کو وصیت فرمائی کہ شہزادے سے ملاقات کرکے اس کا وعدہ یاد دلانا ،اگر
شہزادے تک رسائی نہ ہوتو اس کی قیام گاہ کے قریب اذان دے دینا ۔صاحبزادے نے
ایسا ہی کیا ،شہزادے نے اذان سن کر ان کو بلایا ۔تعارف کے بعد شہزادے نے
اپناوعدہ وفا کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا ۔اس نیک بخت شہزادے کا نام عثمان
رکھا گیا ۔یہ بہت بہادر تھا ،اس کی بہادری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے
کہ اس نے اپنا پایہ تخت یورپ اور ایشیا کے سنگم پر بنایا ۔یہ سمجھ گیا تھا
کہ ہمیشہ مسلمانوں پر حملے یورپ سے ہو رہے ہیں ،اس لئے انکے سر پر جا بیٹھا
۔
اس کی اولاد نے یورپ اور ایشیا دو طرف سلطنت کو پھیلانا شروع کردیا ۔یہانتک
کہ ٩٢٣ھ بمطابق ١٥١٧ھ میں سلطان سلیم خان اول نے مصر اور شام پر قبضہ کیا
تو یہاں کے آخری عباسی خلیفہ المتوکل نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔اور تمام
حقوق خلافت سے دستبرداری کا اعلان کردیااور ساتھ ہی ساتھ امتیازات خلافت
بھی اس کے حوالے کر دیے ۔ ان میں سب سے بڑی چیزیں حرمین شریفین کی کنجیاں
،حضور ۖ کی تلور ،جھنڈا اور چادر تھی ۔یہ سب چیزیں بطور سندِ خلافت ١٩٢٤ء
سے لے کر آج تک استنبول میں موجود ہیں ۔متوکل کے بیعت کرتے ہی اسلطان سلیم
خان اول کی حکومت کو خلافت اور ان کو میرالمومنین کے لقب سے پکارا جانے لگا
۔جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں ان کاذکر ہونے لگا ۔خادم حرمین شریفین کا لقب
بھی شامل ہوگیا۔جب مغلیہ حکومت آئی تو اس وقت خلیفہ متوکل عباسی سلطان سلیم
کے ہاتھ پر بیعت کرچکا تھا ۔اور خلافت ِاکبرترکوں کے پاس تھی ۔یہ سلطنت اس
قدر مضبوط تھی کہ گویا رحماء بینھم واشداء علی الکفارکی عملی تصویر تھی ۔جس
کی وجہ سے صدیوں تک ان کا سینہ اسلام کی راہ میں زخمی ہوا ،صرف انہی کی
لاشیں خاک وخون میں تڑپیں۔یعنی تمام کرہ ارض کے مسلمانوں نے اسلام و بلاد
اسلام کی حفاظت کا ذمہ ان کو سونپ دیا ۔اسی وجہ سے سلطان کا نائب ہی خطبہ
پڑھتااور سلطان کانام اور دعا خطبہ میں پڑھی جاتیں۔اسی وجہ سے تمام کرہ ارض
کے مسلمانوں کی عزت وزندگی کے بچاؤ کے لئے پانچ صدیاں تلوار کے سائے تلے
زندگی کاٹتے رہے ۔اور چاروںطرف سے دشمن کی زد میں بھی رہے ۔ایک چوتھائی صدی
بھی ایسی نہ گزری کہ دشمنوں کی تلواروں نے انہیں مہلت دی ہو،انکا جرم صرف
یہ تھا کہ جب اسلام کا محافظ دنیا میں کوئی نہ رہا ،ساری تلواریں ٹوٹ گئیں
،سارے بازو شل ہوگئے تو پانچ صدیاں انہوں نے اسلام کوکیوں بچایا ؟انہوں نے
مسلمان لڑکیوں کواہل یورپ کی لونڈیاں کیوں نہ بننے دیا ؟انہوں نے اسلام کا
خزانہ یورپ اور امریکا کے خزانے میں کیوں نہ جانے دیا ؟انہوں نے قحط سالی
کے شکار آئر لینڈ کے عیسائیوں کے لئے خوراک سے لدے جہاز کیوں بھجوائے ؟یہی
وجوہات تھیں کہ انہوں نے ۔۔۔۔صدیاں اپنے ایجنٹوں اور خود محنت کرکے خلافت
کو کمزور کیا اور اس کے اندر شریف مکہ اور آلِ سعود جیسے غدارانِ قوم کو
پیدا کیا ۔
ترک جب یورپ کی طرف بڑھے تو اس کے قلب استنبول کو مسخر کرکے اسکو
دارالخلافہ بنا لیا اوروہاں سے آگے بڑھتے گئے ،حتی کہ ایک عرصے تک ویٹی کن
سٹی جیسے مقدس مقام سے جزیہ وصول کرتے رہے ۔ترکوں کے دیگر جرائم کی طرح یہ
جرم تو یورپ کبھی معاف نہیں کرسکتا ۔ان کے نزدیک مسلمانوں کا ہر فاتح
حکمران اچھا تھا جو یورپ کی طرف متوجہ نہ ہو،اس لئے اس خلافت کو شریف ِمکہ
اور آلِ سعود جیسے عصبیت اور حسد سے بھرے ہوئے لوگوں کے ذریعے ضربیں لگائیں
۔یہ درخت جسکی عمر پانچ سو سال ہو چکی تھی کب تک اپنی جڑوں میں ضربیں
برداشت کرتا ،بالآخر ٨٩سال پہلے ٢٨ رجب بمطابق١٩٢٤ء کو گرگیا ۔
اس کے گرتے ہی دیکھ لیجئے آج عربوں کے تیل اور دیگر معدنیات کااصل مالک کون
ہے ؟کیاتمام اسلامی ممالک امریکی و یورپی کالونی نہیں بن چکے ؟ہماری خارجہ
اور داخلہ پالیسیاں کہا ں بن رہی ہیں ؟کیا اس ہمیں قرضوں کا سود اداکرنے کے
لئے ١٣ارب ڈالر فدیہ قرضہ نہیں لینا پڑا ۔یعنی کل تک خلافت قائم تھی تو ہم
مالِ غنیمت اور جزیہ وصول کررہے تھے۔آج وہ وصول کررہے ہیں ۔خلافت کے بعد ہی
عراق اور افغانستان میں وہ کچھ ہورہا ہے جسے دیکھ کر انسانیت بھی شرمندہ ہے
۔اسرائیل خلافت کے زوال کے بعد ہی وجود میں آیا ۔غزہ کے لئے دیواراسرائیل
اور مصرکب بناتے حالانکہ خلافت تو عیسائی ممالک کوقحط زدہ خیال کرتی ہے ،یہ
تجزیہ بتاتا ہے کہ آج ہرچیزسے سے زیادہ خلافت کو قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ''معاملہ یہ ہے کہ ترکی تباہ
ہوچکا ہے اور اب یہ کبھی کھڑا نہیں ہوسکے گا ،کیونکہ ہم نے اس کی روحانی
طاقت تباہ کر دی ہے ،یعنی خلافت اور اسلام۔''یہ اقتباس لارڈ کرزن کی تقریر
کا ہے جو انہوں نے خلافت عثمانیہ کے زوال کے فورا بعد کی ۔اس سے اندازہ
ہوتاہے کہ اسلام کے نظام خلافت کے سقوط پراسلا م دشمن قوتوں ،بلکہ تھنک
ٹینکس کوکس قدرخوشی تھی!جس خلافت کووہ ہماری روحانی قوت سمجھ رہے تھے
،ہماری بے حسی کہ ہم نے نہ صرف اس کاجنازہ خوداپنے ہی ہاتھوں سے
اٹھایا،بلکہ اس کی جگہ ''جمہوریت ''نامی آسیب کابھی استقبال کیااورآج المیہ
یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کوبالخصوص اوردوسرے کارپردازان قوم کوبالعموم اس
''جمہوریت ''نامی بت کی بقاہرشے سے بڑھ کرعزیزہے،شایداس لیے…کہ ان کی
خرمستیوں کاتحفظ اسی شیطانی نظام سے ہوسکتاہے،نہ کہ اس اسلامی شورائی نظام
خلافت سے ،جس میں خلیفہ وقت بھی قاضی کے سامنے ایک عام شہری کی طرح جواب دہ
ہوتاہے،جس میں خلیفہ خودکوسرکاری اموال کاصرف اسی قدرحقدارسمجھتاہے جس سے
اس کے عیال کابمشکل گزارہ ہوسکے،وہ خودکویتیم کے مال کامالک نہیں بلکہ فقط
محافظ ونگران سمجھتاہے،جس میں بیرونی وفودخلیفہ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں
تووہ انہیں ایک جنگل میں اینٹ سے تکیہ لگائے محواستراحت نظرآتاہے ۔بھلایہ
نفس وشیطان کے بندے ،نفسانی خواہشات اورکے اسیراورحب جاہ ومال کے مریض اس
نظام کی کیونکرحمایت کرسکتے ہیں ۔آج عالم اسلام میں برپابغاوت کی تحریکوں
کوحسنی مبارک،قذافی اوربشارالاسدجیسے حکمران طاقت کے بل بوتے پردبانے کی
سرتوڑکوشش کررہے ہیں ،تویہ ان کی مجبوری ہے۔مغربی جمہوریت ہویاشخصی
آمریت…یہ طے شدہ امرہے کہ اسلامیان عالم کے دردکادرماں اوردکھوں کے
مداواکاان کے پاس کوئی سامان اورپلان نہیں ۔یہ حقیقت بھی اب اظہرمن الشمس
ہے کہ اسلامی نظام خلافت بطرزخلافت راشدہ مغرب کے دیے ہوئے ووٹ کے متعفن
جمہوری طریقے سے نہیں ،بلکہ جہادفی سبیل اللہ کے ذریعے آسکتاہے۔ماضی میں
طالبان کی اسلامی حکومت اس کی واضح وبین دلیل ہے۔
دشمن ماضی کی طرح اب بھی نہیں چاہتاکہ مسلمان اپنے نظام خلافت کی طرف پیش
رفت کریں ۔اس مقام پر برطانوی جنرل رچرڈڈینٹ کی آخری تقریر کا اقتباس
ملاحظہ کیجیے ،جو ١٤/مئی ٢٠١٠ میں ریٹائرڈ ہوا۔اس نے اپنی آخری تقریرمیں
واضح الفاظ میں کہا: ''اگر ہم اسلامی ایجنڈے کی مخالفت نہ کریں اور جنوبی
افغانستان یا افغانستان یا جنوبی ایشیا میں اس کا سامنا نہ کریں تو بے شک
اسکا اثر بڑھے گا ،یہ اثر کافی زیادہ بڑھ سکتا ہے اور یہ ایک اہم نقطہ ہے ،
ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ جنوبی ایشیا سے بڑھتا ہوا مشرق وسطی ،شمالی افریقہ
تک اورچودھویں یاپندرھویں صدی کی اسلامی خلافت کے عروج سے جاملے گا ''۔
یہی ہے وہ خطرہ،جس کی بناپرآج عالم کفراوراس کے گماشتے اس ایک نکتے پراپنے
تمام تراختلافات کے باوجودمتحدہیں کہ مسلمانوں میں اسلامی نظام بطرزخلافت
راشدہ کے لیے کی جانے والی ہرکوشش وجہادی کاوش کاآخردم تک مقابلہ کرو
۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اسلامی مذہبی جماعتیں بھی اس ایک ایجنڈے
پرمتحدہوجائیں کہ ہمیں عالم اسلام میں خلافت کی بہاروں کودوبارہ تازہ کرنا
ہے۔ |