مسئلہ کشمیرکا حل اور ایڈوانی کی دھمکی

مسئلہ کشمیرکا حل اور ایڈوانی کی دھمکی.....پر بھارتی حکمران بے بس کیوں ہیں؟؟
کیامسئلہ کشمیرکے حل میں بڑی رکاوٹ انتہاپسنداور جنونی ہندو ہیں....؟تو بھارت اِنہیںختم کرے
آخر بھارت کی جانب سے مذاکرات کب تک بے نتیجہ ثابت ہوتے رہیں گے.....؟؟

دنیانے ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی دیکھ لیاکہ گزشتہ دنوں پاکستان کے کیپیٹل اسلام آباد میں دوروزہ ہونے والے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سیکرٹری خارجہ کی سطح کے مذاکرات میں کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہ آسکی اور یہ مذاکراتی عمل 21جولائی کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے مذاکرات سے قبل خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان نئی دہلی میں ہونے والے مذاکرات تک بے مقصداور لاحاصل مذاکرات کی صورت میں چائے پانی اور دیگر لوازمات کے کھانے پینے کے بعد ایک بارپھردونوں جانب سے مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کا پُرامن حل تلاش کرنے اور اِدھراُدھر بات جیت کے عمل کو جاری رکھنے پر اتفاق کرنے اور ایک بارہ نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے بعد اپنے اختتام کوپہنچے۔

جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق اِن مذاکرات میں کوئی مثبت اور تعمیری پیش رفت یوں بھی نہ ہوسکی کہ جہاں بھارت نے دیدہ ودانستہ طور اِس مذاکراتی عمل میں دیگر معاملات کے حوالوں سے بات چیت کی تو وہیں حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت نے اِس بار بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحد ہ کی قرار داد وں کے مطابق کشمیر یوں کو استصواب رائے کے حق کے استعمال جیسے اہم نکتے کو اِس سارے مذاکراتی عمل سے خارج کئے رکھا نیز سیاچن کے غاصبانہ قبضے پر بھی بے اعتنائی کا اظہار کیا۔

ہاں البتہ! یہاںسب سے زیادہ تعجب خیز امریہ رہاکہ جس مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاک بھارت مذاکرات کا عمل پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے اِس سے بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے استصواب رائے کے استعمال کا اہم نکتہ نکال دینا یہ عمل نہ صرف بھارتی حکمرانوں کا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے بلکہ دنیاکے سامنے بھی ایساہی جیسے بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر پر کئے جانے والے پاک بھارت مذاکرات کا ڈرامہ رچاکردنیا کی آنکھ میں دھول جھونک رہے ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ کئی دیہایوں سے بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنی آدم خور اور خونخوار فوجیوں کے ہاتھوں معصوم کشمیریوں پر محض اِس بناپر ظلم و ستم ڈھارہاہے کہ یہ کشمیری پاکستان سے اپناالحاق چاہتے ہیں اور اپنی اِس روش پر قائم رہ کر بھارت اب تک لاکھوں کشمیریوں کو موت کی نیندسُلاچکاہے جبکہ بھارتی افواج کے دیگر انسانیت سوز مظالم اِس کے علاوہ ہیں آج جن کا تذکرہ سُن کر، پڑھ کر اور دیکھ کر اِنسانیت لرزاٹھتی ہے اوریوں اِن بھارتی افواج کے ہاتھوں رقم کی جانے والی ظلم وستم کی داستانوں پر آج ساری دنیاکے انسان سراپا احتجاج ہیں مگر اِس کے باوجود بھی نہ تو بھارتی حکمرانوں کے کانوں پر کوئی جوں رینگتی ہے اور نہ بھارتی افواج کے ہاتھ معصوم کشمیریوں پر ظلم وستم کرنے سے رکتے ہیں۔

اگرچہ بھارت کا ہمیشہ یہ نعرہ جو کہ غلط اور بھارت کی ہٹ دھرمی کے مترادف ہے رہاہے کہ”کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے“ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی افواج کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں پر کئے جانے والے مظالم سے تواَب دنیاکو ایسالگتاہے کہ جیسے ”کشمیرکو اٹوٹ انگ“کہنے والے بھارت کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے کیاکوئی ملک اپنی افواج کے ہاتھوں نصف صدی سے بھی زائد عرصے تک اپنے عوام پر ظلم و ستم کرانے کا متحمل ہوسکتاہے....؟ جیسے بھارت اپنی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر کرارہاہے۔

جبکہ قرار واقع امریہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کاحل ایک بڑاتنازع بناہواہے جس کے حل کے لئے پاکستان نے شروع سے ہی اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں مگر بھارت ہے کہ وہ اِس مسئلے کے حل کے لئے دنیاکے ہر فورم پر طرح طرح کے مذاکرات کا ڈرامہ رچاکر اِس مسئلے کو حل کرنے میں اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہاہے حالانکہ اگر بھارت چاہے تویہ مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل ہوسکتاہے مگر بھارت نہیں چاہتاہے کہ یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے۔

جبکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے کشمیر کو اپنی شہہ رگ قرار دیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اُسی طرح حل کرناچاہاجس طرح بھارت نے اپنی مرضی کے مطابق اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقوام متحدہ سے خود رجوع کیا اور خود ہی ہر قسم کے اقدامات کئے مگر جب پاکستان اِن سے متفق ہواتو بھارت کشمیریوں کے حق خودارادیت اور استصواب رائے کے استعمال سے منکر ہوگیا۔اور اِسے ایسالگنے لگاکہ جیسے اگربھارت نے وہ ہی کچھ کرڈالا جیساکرنے کا اِس نے سوچ رکھاتھاتو شائد اِس کے پوشیدہ نتائج جو ابھی بھارت کو نظرنہیں آرہے ہیں وہ پاکستان کے حق میں بہتر ہوں اور جن سے بھارت کوبعد میں سُبکی کا سامنہ کرناپڑے یوں بھارت اپنے کئے پر آج خود پچھتارہاہے کہ اِس نے مسئلہ کشمیرکے حل کے حوالے سے اقوام متحدہ سے کیوں رجوع کیااور اِسے کشمیریوں کے استصواب کے لئے کیوں تیار کرکے ایک ایسی اقرارداد منظورکروائی جس کا فائدہ کشمیریوں کا پاکستان سے الحاق کرنے اور پاکستان کو کشمیرکو اپنے حصے میں شامل کرنے سے ہوگا۔

اِس موقع پر ہم اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے چلیں کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہمیشہ اپنی آواز دنیا کے ہر فورم میں بلند کی ہے جس کی مثال ہماری تاریخ کے یہ اوراق ہیں جن میں سُنہرے حرف میں درج ہے کہ ”شہیدملت لیاقت علی خان نے 23جنوری1949میں فیصل آباد(سابقہ لائل پور) میں ایک جلسہ عام سے اپنے خطاب کے دوران برملاکہاتھاکہ ”کشمیر میں لڑائی بند کرنے اور استصوابِ رائے کی تجاویز منظورکرنے کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ کشمیر میں ہماری دلچسپی کم ہوگئی ۔حکومتِ پاکستان اِس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گی جب تک کشمیریوں کو کسی قسم کے دباؤ کے بغیر اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔پاکستان کبھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ تیس لاکھ کشمیری مسلمانوں کو جبراََ کسی باہرکے ملک کی غلامی میں دے دیاجائے ۔قومی کارکنوں کو حصول طاقت و اقتدار اور دولت کی جدوجہد میں الجھ کر اپنی طاقتوں کو ضائع نہیں کرناچاہئے میں لیڈروں اور عوام سے اپیل کرتاہوں کہ وہ طاقت اور وقت کے حصول کی جدوجہد میں اپنی قوت کو ضائع نہ کریں۔کیونکہ اگر یہ کشمکش بندنہ ہوئی تو ملک کو زبردست نقصان پہنچے گا ۔ “ اور اِسی طرح ایک دوسرے موقع پر اُنہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے9ستمبر1949میں کراچی میں خطاب کرتے ہوئے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہاکہ”اگر ساری دنیا سلامت رہے اور پاکستان ہی موجود نہ ہوتو پھردنیاکی ایسی سلامتی سے پاکستان کوکیادلچسپی ہوگی...؟کشمیر کا مسئلہ اگر پُرامن طریقے سے حل نہ ہواتو پھر پاکستان کی بقاءکے لئے اِسے تلوار سے حاصل کیاجائے گا۔اِس کے سوااور کوئی چارہ کار نہیں“اور نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں 5مئی 1950میں اپنے خطاب میں لیاقت علی خان نے بھارتی حکمرانوں پر واضح کرتے ہوئے کہاتھاکہ” پاکستان اپنی آزادی اور یکجہتی کو برقراررکھنے کا خواہاں ہے اور اقتصادی ترقی حاصل کرناچاہتاہے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سب سے اہم تنازعہ کشمیرکا ہے ۔خوش قسمتی سے دونوں حکومتیں اِس بین الاقوامی معاہدہ کو تسلیم کرچکی ہیں کہ ہندوستان یا پاکستان سے ریاست کشمیر کے الحاق کا مسئلہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری سے طے ہو“نیویارک میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کی انجمن سے 9مئی1959میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ”پاکستان کشمیر میں رائے شماری میں تاخیر سے خوش نہیں ہے۔ہم دوبرسے رائے شماری کا انتظارکررہے ہیں مگر ابھی تک اِس کا کہیںپتہ نہیں“اور 15مئی1950میں سان فرانسسکو میں پریس سے خطاب کرتے ہوئے لیاقت علی خان میں کہاکہ” کشمیر کا مسئلہ جس قدر جلد طے ہوجائے اتنا ہی نہ صرف یہ کہ بھارت اور پاکستان کے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے بھی مفیدہے ۔کراچی میں میری اور پنڈت نہرو کی جو ملاقاتیںہوئیں ۔اِن میں ہم اِس امرپر رضامندہوگئے ہیں کہ کشمیر کے تنازعہ کا حل صرف آزاد اور غیر جانبدارانہ اِستصوابِ رائے عامہ ہے۔پاکستان غیر ملکی سرمایہ کا خیرمقدم کرے گا۔ہم اِن سب ملکوں کا خیرمقدم کریں گے جو آزادی، جمہوریت اور انفرادی کوششوں پر یقین رکھتے ہیں اگرفریقین تنازع ایمانداری و خلوص کے ساتھ اور دل میں چور رکھے بغیر سلامتی کونسل کے ریرولیوشن متعلقہ کشمیر کو عملی جامہ پہنائیں تو امیرالبحر مسٹر نمٹز کے کشمیرپہنچتے ہی اِستصواب ہوجاناچاہئے“اور اِسی طرح شہیدملت لیاقت علی خان کا یہ تاریخ ساز خطاب مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل قرار پاتاہے جو اُنہوں نے 22مئی 1950میں ہوسٹن میں پریس کانفرنس سے کیاتھا اُنہوں نے اِس دوران کہاتھاکہ” مسئلہ کشمیرکا واحد حل آزاد اور غیرجانبدارانہ اِستصواب ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ اِستصواب جلدازجلدکرایاجائے“اور اَب ہم لندن میں جریدہ ڈیلی کے نمائندے سے بات چیت کے دوران شہید ملت لیاقت علی خان کے کہئے ہوئے اُن الفاظ ذکر کریں گے جن کے ذریعے اُنہوں نے دنیاکو خبردارکرتے ہوئے کہاتھاکہ”جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ہندوستان اور پاکستان ایشیامیں امن اور سلامتی کے قیام کے لئے کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتے“

اِس کے بعد اَب بھارت کو بھی یہ سوچناچاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے اور اپنی طرح طرح کی مکاریاں کرنے سے قطعاََاجتناب برتے اور وہی کچھ کرے جیساکرنے پر پنڈت نہرو متفق تھے اور جس کا وعدہ وہ اقوام متحدہ میں ساری دنیا کے سامنے کرکے آئے تھے اور اپنے یہاں پلنے والے اپنے سابق نائب وز یراعظم اور بھارتیہ جنتاپارٹی کے سینئر لیڈر ایل کے ایڈوانی جیسے انتہاپسندوں اور جنونیوں کا خاتمہ پہلے کرے جن کا ایک ریلی میں اپنے خطاب کے دوران یہ کہناہے کہ اگر کسی دباؤ میں مسئلہ کشمیرپر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سمجھوتہ ہوچکاہے اور بھارتی حکومت نے اگر بین الاقوامی دباؤ میں آکرجموں کشمیر میں 1953ءکی پوزیشن بحال کرنے کی کوشش کی تو احتجاج تحریک چلائیں گے اُنہوں نے بھارتی حکمرانوں کو باورکراتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر مکمل طور پر بھارت کا حصہ ہے اور اِس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔

اِس کے بعد ہم یہاں یہ کہناچاہیں گے کہ بھارتی حکمرانوں اور ایڈوانی جیسے انتہاپسندہندو سیاسی رہنماؤں نے اپنے مکروفریب اور دھوکہ دینے والے قول و فعل سے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ ڈالی ہے اور ایل کے ایڈوانی کے اِس بیان کے بعد سے تو ایسالگتاہے کہ جیسے نئی دہلی میں 21جولائی کو ہونے والے پاک بھارت مذاکرات بھی لاحاصل اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے جیسے حسب ورایت ہوتے رہے ہیں۔

تاہم ہمیں اپنے اللہ سے اُمید ضرور ہے کہ وہ کشمیر کے لوگوں کو بھارتی حکمرانوں اور افواج کے ظلم وستم سے نجات دلائے گا اور بھارتیوں کو اِن کے گھناؤنے عزائم کے ساتھ کشمیر سے نیست ونابودکرے گااور کشمیر کاپاکستان میں الحاق کرکے کشمیریوں کو رہتی دنیا تک سُرخروکردے گا۔
خاک بے مایہ سے خورشید ومہہ وانجم تراش
فیصلہ تجھ کو بدلناہے اگر تقدیرکا
اپنا پاکستان سے الحاق ہونا چاہئے
کہہ رہاہے ذرّہ ذرّہ وادی کشمیر کا
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.