پاکستان گزشتہ کئی سال سے توانائی کے بحران
میں مبتلا ہے، ہر شخص اسی سوچ میں گم ہے کہ توانائی کے بحران کو کیسے ختم
کیا جائے۔ کہیں سولر پینل کا استعمال کیا جا رہا ہے تو کہیں بائیو گیس سے
بجلی بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ مگر حکومت ہے جو کہیں بھی سنجیدگی
اختیار کرتی نظر ہی نہیں آرہی ہے۔ بجلی کے بحران کو ختم کرنے اور لوڈ شیڈنگ
پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے نئے پروجیکٹس تو شروع کئے گئے ہیں مگر
ان کی مدت بہت لمبی ہے، فوری طور پر لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لئے کوئی خاص
انتظامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔
دنیا میں متعدد ممالک کوڑے کے ذریعے بجلی اور گیس حاصل کر رہے ہیں، ان میں
جاپان، چین، امریکہ، برطانیہ، اسپین، ترکی، نیروبی، سویڈن، یونان اور بھارت
کے علاوہ دیگر ممالک شامل ہیں۔ جاپان، بھارت اور چین نے کوڑے سے توانائی
حاسل کرنے کے متعدد منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک
کوڑے کی اہمیت سے واقف ہیں اور اس سے توانائی حاصل کر رہے ہیں پھر ہم کیوں
اس اہم چیز پر توجہ نہیں دیتے؟ ہم ملک میں روزآنہ اکھٹا ہونے والے ہزاروں
ٹن کوڑے سے بجلی پیدا کر سکتے ہیں ، یوں بجلی کی کافی ضروریات بھی پوری ہو
جائیں گی اور ماحول بھی صاف ستھرا ہو جائے گا۔
ہمارے ملک میں فی گھرآنہ روزآنہ اوسطً تین کلو جبکہ ملک میں کل تقریبا پچپن
ہزار ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے جس سے ایک لاکھ میگاواٹ سے زائدبجلی اور پنتالیس
لاکھ کے قریب ایتھنول فیول کی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک ٹن کوڑے سے
دو میگاواٹ بجلی اورتراسی لیٹر ایتھنول فیول پیدا ہوتا ہے۔ کوڑے سے بجلی
اور ایندھن حاصل کرنے کی بدولت پاکستان نو لاکھ ڈالر کی بچت کر سکتا ہے جو
وہ خام تیل کی درآمد پر خرچ کرتاہے۔ ہمارا پڑوسی ممالک بھارت کوڑے سے سترہ
عشاریہ چھ میگاواٹ بجلی حاصل کر رہا ہے۔
پلانٹ میں کوڑے کو جلاکر اس کے درجہ حرارت سے ٹربائن چلائی جاتی ہے جس سے
بجلی کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کو کمبائنڈ سائیکل کہا جاتا
ہے۔کمبائنڈ سائیکل پلانٹس کے ذریعے ساٹھ فیصد تک تھرمل صلاحیت حاصل کی
جاسکتی ہے۔ لیکن پاکستان میں نجی پاور پلانٹ، جو عموماً سنگل سائیکل ہیں،
صرف تینتیں فیصد تھرمل صلاحیت حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان کے چوبیس نجی پاور
پلانٹس میں سے صرف سات پاور پلانٹس کمبائنڈ سائیکل ٹیکنولوجی کے تحت کام
کررہے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے پاور پلانٹس میں سے ایک تہائی سے بھی
کم مقدار میں کمبائنڈ سائیکل ٹیکنولوجی کو بہترین صلاحیت کے ساتھ استعمال
کررہے ہیں۔
پاکستان میں توانائی کی کل پیداوار کا ستر فیصد گیس یا تیل کی دہری مقدار
سے پیدا کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بجلی روز بروز مہنگی ہوتی جا
رہی ہے۔ بجلی کے حصول کے لئے تیل اور گیس کا متبادل استعمال کرنے کی بدولت
بجلی کے نرخوں اور رسد دونوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ملک میں کل بجلی کی
پیداوار انیس ہزار چار سو پچاس میگاواٹ حاصل ہو رہی ہے جس میں سے تینتیس
فیصد ہائیڈرو، پینسٹھ فیصد تھرمل اور دو فیصد نیوکلیئر ہے۔
حال ہی میں پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ توانائی کی قلت کو پورا کرنے کے
لئے سیمنٹ انڈسٹری میں کوڑے کو بطور ایندھن استعمال کیا جائے۔ اس طرح سیمنٹ
فیکٹریوں کے منافع میں بھی اضافہ ہوگا اور توانائی کی قلت میں بھی کمی ہو
گی۔ اس سلسلے میں لاہور ویسٹ کمپنی نے سیمنٹ کمپنیوں سے رابطے شروع کر دئے
ہیں اگر معاہدہ ہو گیا تو چالیس فیصد کوڑا ان کمپنیوں کو فروخت کر دیا جائے
گا۔ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اور بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے یہ اہم
اقدام ہے۔ یہی اقدام اگر حکومتی سطح پر کیا جائے تو بجلی کی قلت ختم کی جا
سکتی ہے۔
اگر پاکستان کے ہر علاقے میں کوڑے سے توانائی حاصل کرنے کا پلانٹ لگا دیا
جائے توہر علاقے کے بجلی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کراچی میں سات ہزار پانچ
سو ٹن کوڑا روزانہ پیدا ہوتا ہے جو کہ کراچی کی بجلی کی ضروریات کو پورا
کرنے میں کافی مدد کر سکتا ہے۔ کوریا پاکستان میں فارما سوٹیکل انڈسٹری ،
فوڈ پروسیسنگ اور کوڑے سے توانائی کے حصول کے شعبوں میں دلچسپی رکھتا ہے
اور اس حوالے سے جلد ہی کام شروع کرنا چاہتا ہے۔ ایسی متعدد کمپنیاں
پاکستان میں کوڑے سے توانائی کے حصول کے لئے سرمایہ کاری کی خواہش رکھتی
ہیں مگر یہ ہماری حکومت پرہے کہ وہ کب اس معاملے میں سنجیدگی اختیار کرتی
ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی ( کے ای ایس سی) بجلی کی کمی کے پیش نظر دنیا
کا سب سے بڑا بائیوگیس پلانٹ لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پلانٹ کو بھینس
کالونی لانڈھی کے قریب لگایا جائے گا اور کالونی سے نکلنے والے بھینسوں کے
تین ہزار ٹن گوبر سے پچیس سے تیس میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی، منصوبے پر
لاگت کا تخمینہ ساٹھ سے ستر ہزار ملین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔
پاکستان میں کوڑے سے بجلی کے حصول کے لئے ادارہ پیکریٹ(پاکستان کونسل فور
رینیوایبل انرجی ٹیکنولوجیز) اور آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ (اے ای ڈی
بی)کام کر رہا ہے۔ پیکریٹ شمسی پینل ، بائیو گیس پلانٹ اور ہائیڈرو پلانٹس
لگانے کا کام کر رہا ہے، پیکریٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میںچھ کروڑ جانور
ہیں جن کے گوبر سے ایک کروڑ بائیو گیس پلانت لگائے جا سکتے ہیں جو کہ ہماری
بجلی کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں ۔ |