آئی ٹی سکیورٹی ملکی خودمختاری کےلئے ضروری

ترقی کی اس دوڑ میں انفورمیشن ٹیکنولوجی نے زندگی میں خاص اہمیت حاصل کرلی ہے۔ گزشتہ ادوار میں تمام خفیہ معلومات کو کاغذی شکل میں درازوں اور الماریوں میں رکھا جاتا تھا مگر اب دور بدل چکا ہے اور اس دور میں تمام خفیہ دستاویزات اور معلومات کو الیکٹرونک دستاویز بنا کر کمپیوٹر یا پھر ای میلز میں رکھا جاتا ہے۔ان خفیہ معلومات کو حاصل کرنے کے لئے ہیکرز اپنے ہیکنگ آئی ڈی کا استعمال کرتے ہیں، اس لنک کو کھولتے ہی تمام معلومات ہیکر کو مل جاتی ہیں اور بعض اوقات یہ ہیکر ویب سائٹس پر قابض بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے جرائم پیشہ افراد عام یا خاص لوگوں کی خفیہ دستاویزات کے ذریعے ان کی جائیداد اور دولت پر بھی قبضہ کرلیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر جان جرائم کو سائبر کرائمز کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، ان سائبر کرائمز کے باعث روزانہ لاکھوں افراد اپنی قیمتی معلومات سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

سائبر کرائمز میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو دستاویزات کو محفوظ کرنے کے لئے استعمال تو کر رہے ہیں مگر وہ بذات خود اپنی شناخت، اپنے دستاویزات اور کمپیوٹر کی حفاظت سے بے خبر ہوتے ہیں۔ انھیں اپنے کمپیوٹر کی حفاظت کا کوئی خاص شعور نہیں جس سے ان کی رازداری متاثر ہوتی ہے۔

مختلف بنکوں کی جانب سے عوام کی سہولت کے پیش نظر اور خریداری کیلئے جاری کئے جانے والے کریڈٹ کارڈز پر ہیکروں نے انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر فراڈ شروع کررکھا ہے۔ لوگوں کے کریڈٹ کارڈز سے لاکھوں روپے کی خریداری کر لی جاتی ہے اور کریڈٹ کارڈ مالکان کواس کا علم بھی نہیں ہوتا۔

ویب سائٹس پر سائبر حملوں کی خبریں روزانہ سننے میں آتی ہیں۔ ہیکرز باآسانی ویب سائٹس پر صرف ایک لنک کے ذریعے قابض ہو جاتی ہیں اور تمام خفیہ معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ ان سائبر حملوں سے عام ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ سرکاری ویب سائٹس بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں بھارتی سائبر حملوں کے باعث پاکستانی سرکاری و غیر سرکاری ویب سائٹس متاثر ہوئیں، ان میں قومی و صوبائی وزارتوں اور محکموں کی ویب سائٹس خصوصاً نیب، پاک بحریہ، قومی اسمبلی، حکومت سندھ، این آربی، سندھ پولیس، پی سی آر ڈبلیو آر، مردم شماری، وزارت ماحولیات، خارجہ امور، فیب اور متعدد دیگر سائٹس شامل تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر غیر سرکاری ویب سائٹس بھی بھارتی ہیکرزکے حملوں کا نشانہ بنیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی سائبر سکیورٹی کتنی کمزور ہے اور ہمیں اس اہم مسئلے پر کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

پہلے لوگ شرارتاً کمپیوٹر وائرس بھیجتے تھے لیکن اب کمپیوٹر وائرس پیسے کمانے کا ذریعہ بنتے جارہے ہیں۔ انٹرنیٹ سیکیورٹی فرم سائمینٹک کے مطابق انٹرنیٹ سے منسلک جرائم پیسے بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اپنی رپورٹ میں سائمینٹک نے ایسی چیزیں فروخت کرنے والی سائٹس کا حوالہ دیا ہے جہاں بینک اکاؤنٹس کی تفصیل اور کریڈٹ کارڈ تک فروخت کیے جاتے ہیں۔ ویب سائٹس پر حملے کرنے والا وہ سافٹ ویئر بھی فروخت ہوتا ہے جسے جرائم پیشہ افراد اپنے گھناﺅنے کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آج کل سائبر کرائمز سماجی ویب سائٹس کے ذریعے کئے جا رہے ہیں۔ دور حاضر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کو سائبر کرائمز کے لئے سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اسامہ بن لادن کی موت کی خبر کے لنک کے ذریعے ہیکنگ آئی ڈی کا استعمال کیا گیا اور لاکھوں لوگوں کی خفیہ معلومات حاصل کی گئیں۔ اس لنک پر کلک کرنے سے ہیکنک لنک چند ہی سیکنڈ میں اس آئی ڈی کے تمام دوستوںتک پہنچ جاتا ہے۔

حکومت پاکستان نے سائبر سکیورٹی کے اہم مسئلے پر قابو پانے کے لئے کچھ قابلِ تحسین اقدام کئے ہیں جن میں باقاعدہ سائبر کرائم سے متعلق قانون سازی بھی شامل ہے۔ سائبر کرائم سے متعلق پاکستانی ادارہ ایف آئی اے کے ذیلی ادارے این آر تھری سی (نیشنل ریسپونس سنٹر فور سائبر کرائم) کی ویب سائٹ National Response Centre For Cyber Crimes پر نہ صرف مفید معلومت حاصل کی جاسکتی ہیں بلکہ آن لائن شکایات بھی درج کی جاسکتی ہیں۔ این آر تھری سی کے علاوہ چند دیگر غیر سرکاری ادارے بھی سائبر کرائمز کی روک تھام کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔

پاکستانی آئی ٹی ماہرین نے جاپان کی معروف ڈیٹا سکیورٹی کمپنی کے تعاون سے ویب سائٹس پر ہونے والے ہر طرح کے سائبر حملوں کو روکنے کے لیئے دنیا کا بہترین ویب فائر وال سوفٹ وئیر تیارکیا ہے۔ اس سافٹ وئیر کا نام سوئیف یعنی سسٹم بیسڈ ویب اپلیکیشن فائر وال رکھا گیا ہے۔ اس ویب سوفٹ وےئر کی تیاری میں پاکستان کی معروف یونیورسٹی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنولوجی (نسٹ )کے ماہرین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جاپانی کمپنی کے مطابق اس فائر وال کو کسی بھی ویب سائیٹ پر انسٹال کرنے کے بعد مذکورہ ویب سائیٹ کو دنیا میں سب سے زیادہ ہونے والے ویب اٹیک ، کراس سائٹ اسکرپٹ، ایس کیو ایل انجیکشن، ڈاس اٹیک، اور سائیٹ ڈیفیسمنٹ اٹیک جیسے حملوں سے باآسانی محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ویب سائٹس کی حفاظت اور آئی ٹی جرائم کوروکنے کے لئے آئی ٹی سیکورٹی کی سخت ضرورت ہے اور حکومت کو اس مسئلے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔

https://smabid.me.pn/2011/06/20/%D8%A2%D8%A6%DB%8C-%D9%B9%DB%8C-%D8%B3%DA%A9%DB%8C%D9%88%D8%B1%D9%B9%DB%8C-%D9%85%D9%84%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D9%88%D8%AF%D9%85%D8%AE%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92%D9%84%D8%A6%DB%92-%D8%B6%D8%B1/
Syed Muhammad Abid
About the Author: Syed Muhammad Abid Read More Articles by Syed Muhammad Abid: 52 Articles with 71911 views I m From Weekly Technologytimes News Paper.. View More