روبرو ہے ادیب: محمد احمد رضا انصاری
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری برقی پتہ:[email protected]
محمد احمد رضا انصاری بے باک اورسچے لکھاری کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، آج کے ادب اطفال کے نوجوان لکھاریوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں اورانفرادیت کی حامل کی تحریروں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی خاصیت یہی ہے کہ ہر ایک کے ساتھ حسن سلوک رکھتے ہیں مگر اپنی ایک خاص سوچ رکھنے کے سبب ایک حلقے میں کھٹکٹے بھی ہیں۔ یہ اُن نوجوان لکھاریوں میں سے ہیں جن کو ہم نے پہلی بار پڑھا تو یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ادب اطفال کامستقبل تابناک ہے۔
آج کے مہمان یہی موصوف ہیں، ان کی بے لاگ اورکھری گفتگو یقینی طور پر آپ کو پسند آئے گی۔
سوال:آپ کو کب خیا ل آیا کہ لکھنا چاہیے، اپنے ادبی سفر کی شروع سے آج تک کی داستان سنائیں؟ جواب: گیارہ سال پہلے ہم نے رسائل و ناولز پڑھنے شروع کیے تھے۔۔۔اس سے قبل مجھے معلوم نہیں تھا نصاب سے ہٹ کر کہانیوں کی کتابیں اور رسائل بھی ہوتے ہیں۔۔۔اردو میری شروع سے اچھی تھی۔۔۔ چھوٹی کلاس میں تھا لیکن نویں دسویں، گیارویں بارویں اور" بے اے "کی اردو و اسلامیات کی کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔۔۔ پہلی کتاب ٹارزن والی پڑھی تھی جو چھوٹی سی تھی۔۔۔ مجھے یاد ہے کچھ منٹوں میں وہ کتاب میں نے پڑھ لی تھی اور پھر اسے بستروں کے اندر چھپا دیا تھا۔۔۔ میرے بڑے بھائی اس قسم کی چیزیں گھر میں برداشت نہیں کرتے تھے۔۔۔کتاب پانچ دس روپے کی تھی۔۔۔ اگلی بار اولڈ بک سینٹر گیا تو پہلی بار نونہال دیکھا۔۔۔ اس میں بہت ساری کہانیاں تھیں۔۔اس سے پہلے بس مسلمان بچے سے متعارف تھے ہم۔۔۔ آہستہ آہستہ مطالعہ بڑھا تو بہت کچھ پڑھتے چلے گئے۔۔۔ پھر کچھ کہانیوں کو پڑھا تو لگا کہ ایسا تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔۔۔ کسی بھی رسالے میں پہلی تحریر میرا خط شائع ہوا تھا مسلمان بچے میں ۔۔۔یہ بات ہے آج سے آٹھ سال پہلے کی۔۔۔ اگلے چند سال مختلف رسائل میں چھوٹی موٹی چیزیں اور خطوط شائع ہوتے رہے۔۔۔ 2016 سے کہانیاں لکھنا شروع کر دی۔۔۔ لوگوں کا اچھا رسپانس ملا تو خوشی ہوئی کہ ہم بھی لکھ سکتے ہیں۔۔۔ تو سفر شروع ہوا اور منزل ابھی بہہت دور ہے۔۔۔ہمیں بہت پیار ملا۔۔۔ نام بنا اور حوصلہ افزائی کے تحت چند ایوارڈز بھی ملے۔۔۔ بچوں کا گلستان سے ۲۰۱۹ میں رائٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ میرے لیے بہت بڑی اچیومنٹ تھی۔۔۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک لکھاری لکھنا کیوں چھوڑ دیتا ہے؟ جواب: ایڈیٹرز کا خراب رویہ، عرصے تک کہانی کے قابل یا نا قابل اشاعت ہونے کی خبر نہ ملنا۔۔۔اعزازی کاپی یا معاوضے کا نہ ملنا۔۔۔
سوال: حوصلہ افزائی کی آپ کی نظر میں کتنی اہمیت ہے؟ جواب:بہت زیادہ اہمیت ہے۔۔۔ حوصلہ افزائی لکھاری کے لیے ویسے ہی ضروری ہے جیسے ایک پودے کے لیے کھاد اور ہوا پانی۔۔۔ پودا ان چیزوں کے بروقت ملنے سے تندرست و توانا ہوتا ہے ویسے ہی ایک لکھاری حوصلہ افزائی کے چند جملے سن کر مزید بہتر سے بہترین لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔
سوال:آج کن موضوعات پر ادب اطفال میں لکھنا بے حد ضروری ہو چکا ہے؟ جواب:آج کل سائنس فکشن کہانیاں، جاسوسی، جادوئی موضوعات پر لکھنا چاہیے جو بہت کم لکھا جا رہا ہے۔۔۔ معاشرے پہ ہزاروں لوگ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔۔۔ معاشرتی موضوعات سے ہٹ کر بھی لکھا جا سکتا ہے۔۔۔تو قلم اٹھائیں اور الگ سا لکھیں۔۔۔
سوال: آپ کو کسی بھی مدیر سے سب سے بڑا شکوہ کیا ہے؟ جواب: شکوے شکایت تو اب رکھنی چھوڑ دی ہیں۔۔۔ مدیروں کی مجبوریاں سمجھنے لگا ہوں۔۔۔ویسے سب نئے لکھنے والوں کی ایک شکایت میں مدیروں تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ براہ کرم کہانی جلد پڑھ کر اس کے بارے لکھاری کو آگاہ کر دیا کریں۔۔۔ تاکہ لکھاری اپنی غلطی سدھار کے کہانی کو دوسرے رسالے میں بھیج سکے۔۔۔
سوال:آپ کے خیال میں رسالے کو ہم کن بنیادوں پر اچھا کہہ سکتے ہیں؟ جواب:مواد کے حساب سے اچھا کہہ سکتے ہیں۔۔۔ مجھے تو جس رسالے میں کہانیوں کی تعداد زیادہ ہو وہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ بہت سے رسائل والوں نے مستقل سلسلے اتنے بڑھا دیے ہیں کہ بمشکل تین سے چار کہانیاں لگی نظر آتی ہیں۔۔۔
سوال:اب تک کتنی کتب /تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں؟ جواب:اب تک ہماری ایک کتاب جس کا عنوان "دوسرے کپڑے" ہے منظر عام پہ آ چکی ہے۔۔۔ الحمدللہ۔۔۔ اس میں احادیث پر مبنی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔۔۔ اور کہانیاں تقریبا ۱۵۰ سے زائد شائع ہو چکی ہیں۔۔۔
سوال: ایک اچھے لکھاری /ادیب میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؟ جواب:میرے خیال میں ادیب میں ان اچھائیوں کا ہونا لازم ہے جن کی بارے میں وہ دوسروں کو تلقین کرتا ہے اپنی کہانیوں کے ذریعے۔۔۔ خود اگر ٹھیک نہ ہوں اور دوسروں سے اچھائی کی توقع رکھیں تو یہ ایک احمقانہ بات ہوگی۔۔۔ لفظوں میں تاثیر بھی تبھی پیدا ہوگی جب خود میں وہ خصوصیت موجود ہوں گی جن کے اسباق ہم اپنی تحاریر میں بیان کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ اپنی اصلاح کر سکیں۔۔۔
سوال: آپ کے مستقبل کے کیا ارادے ہیں؟ جواب: ایک اچھا اور مشہور ادیب بننا۔۔۔
سوال: آپ کے خیال میں کس طرح سے بچوں کو رسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟ جواب: گھر میں ماں باپ نصابی کتب کے علاؤہ بھی رسائل و کتابیں بچوں کو پڑھنے سے روکیں۔۔۔ مین کردار تو ماں باپ کا ہی ہے۔۔۔اگر وہ اپنے بچے کی اچھی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو اسے ٹی وی اور کمپیوٹر کی دنیا سے نکال کر کتابوں کی دنیا سے روشناس کروائیں۔۔۔
سوال: آپ کے خیال میں کوئی مخصوص کردار تخلیق کرکے لکھاری کو اپنی الگ پہچان بنوانی چاہیے؟ جواب: بالکل بنانی چاہیے۔۔۔
سوال:آپ کے خیال میں ادب اطفال میں انفرادیت کے حوالے سے نوجوان لکھاریوں کو کام کرنا چاہیے؟ جواب: جیسا کہ اوپر بتا چکا ہوں کہ پرانے راستے چھوڑ کر نئے راستے اپنائے جائیں۔۔۔ ناول بہت کم لکھے جا رہے ہیں۔۔۔ دلچسپ ناول تحریر کیے جائیں۔۔۔ مضمون نما کہانی چھوڑ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہانیاں لکھی جائیں جو بچے شوق سے پڑھیں۔۔۔
سوال: آج کے ادب اطفال میں کن لکھاریوں کے کام کو آپ بے حد پسند کرتے ہیں؟ جواب: مجھے جاوید بسام کا انداز تحریر بہت پسند ہے۔۔۔ اشتیاق احمد صاحب کے بعد وہ میرے پسندیدہ بچوں کے لکھاری ہیں۔۔۔ نذیر انبالوی صاحب کا اپنا ایک اسلوب ہے۔۔۔حسن ذکی کاظمی بھی اچھا لکھتے تھے ان کی سائنسی کہانیاں پسند ہیں مجھے۔۔۔ اور بھی بہت سے لکھاری پسند ہیں۔۔۔ بچوں کے لیے جو بھی لکھتا ہے ان سبھی کا کام مجھے پسند ہے۔۔۔۔
سوال: اچھی کہانی آپ کی نظر میں کونسی ہوتی ہے؟ جواب: جو قاری کو چونکا کے رکھ دے۔۔۔۔
سوال:آج کے موجودہ ادیبوں یا لکھاریوں سے آپ کو کیا بڑی شکایت ہے؟ جواب: وہ پرانے گھسے پٹے موضوعات پہ طبع آزمائی کر رہے ہیں۔۔۔ روایت سے ہٹ کر لکھیں۔۔۔ منفرد اور چونکا دینے والی کہانیاں۔۔۔
سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟ جواب: بس یہ پیغام کہ ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔ دوسروں کو اپنی ذات سے کوئی نقصان پہنچنے مت دیں ۔۔۔ زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ملی ۔۔اسے ہنسی خوشی ویسے ہی گزاریں جیسے ہمارا رب چاہتا ہے۔۔۔کتابوں سے جڑے رہیں۔۔۔ کتاب آپ کی شخصیت سنوارتی ہے اور عام سے خاص بنا دیتی ہے۔۔۔ مجھے پڑھتے رہیں اور اپنی آراء و تجاویز سے نوازتے رہیں تاکہ آپ کی آراء کی روشنی میں مزید اچھا لکھ سکوں۔۔۔شکریہ آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔ ۔ختم شد۔ |