روبرو ہے ادیب: عائشہ جمشید
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریروملاقات: ذوالفقار علی بخاری برقی پتہ:[email protected]
پاکستان میں بہت کم خواتین ایسی ہیں جو اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے بہت کچھ برداشت کرتے ہوئے منزل تک پہنچتی ہیں۔ہمارے ہاں خواتین کو آگے بڑھنے اور کچھ کردکھانے کے مواقع کم ہی ملتے ہیں ۔دوسری طرف ایسی خواتین بھی ہیں جو کہ حالات کے رخ کو موڑتے ہوئے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتی ہیں۔
انہی خواتین میں سے ایک مستقبل میں علمی وادبی دنیا میں اپنا نام اور ایک مقام بنانے کی خواہاں محترمہ عائشہ جمشید صاحبہ بھی ہیں جو کہ صاحب کتاب ہیں اوراب تک ان کی چار کتب منظر عام پرآچکی ہیں۔گیارہویں اوربارہویں جماعت کے نصاب کی معروضی سوالات پر مبنی دو کتاب بھی سامنے لا چکی ہیں، اس کے علاوہ مختلف تنظمیوں سے وابستہ ہو کر بے شمارعلمی، ادبی اورسماجی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔عائشہ جمشید صاحبہ کو ان کی خدمات پرمختلف ایوارڈز بھی حاصل ہو چکے ہیں۔
ہم نے ان سے ایک ملاقات رکھی جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔
سوال: اپنے بارے میں بتائیں کب اور کہاں پیدائش ہوئی؟ جواب: لاہور میں
سوال: آپ کے بچپن کی کوئی خا ص یاد، جو قارئین کو بتا نا چاہیں؟ جواب: بچپن میں ذہین تھی لیکن پڑھنا بلکل پسند نہیں تھا۔
سوال:آپ کو کب خیا ل آیا کہ لکھنا چاہیے؟ جواب: گیارہویں جماعت میں اردو لٹریچر کی ٹیچر نے میرے نوٹس اور پیپر دیکھ کر کہا کہ آپکو لکھنا چاہیے۔آپ اچھا لکھ سکتی ہیں۔
سوال: اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا تھا؟ جواب: پہلا آرٹیکل ریڈیو کے ارتقاء پر الشرق اخبار میں شائع ہوا تھا۔اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتنی بڑی بات ہے۔
سوال:آپ کے پسندیدہ مشاغل کیا ہیں؟ جواب: کتابیں پڑھنا ۔ ساری سپورٹس دیکھنا پسند ہے کرکٹ اور ٹینس زیادہ شوق سے دیکھتی ہوں۔
سوال: آپ کے خیال میں ایک اچھے لکھاری کے مشاغل کون سے ہونے چاہیں؟ جواب: لکھنے کے لئے پڑھنا بہت ضروری ہے۔۔تو ہر لکھاری کو لکھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے کے لیے بھی وقت نکالنا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ بہت سنجیدہ اور بھاری کتابیں ہی پڑھیں جو آپکو پسند ہے وہ پڑھیں۔
سوال:آپ کی زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ کون سا ہے؟ جواب: بہت سارے ہیں۔ الحمدللہ
سوال:کیا زندگی کے خوشگوار لمحات لکھاری کو مزاح لکھنے کی جانب راغب کر سکتے ہیں؟ جواب: مزاح لکھنا آسان کام نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بہت ذیادہ خوش انسان مزاح لکھ سکتا ہے کیونکہ مذاق اور مزاح دونوں بہت الگ ہیں۔
سوال:آپ کے خیال میں ادب،ادیب اورمعاشرے کا آپس میں کتنا گہراتعلق ہے؟ جواب: بہت گہرا تعلق ہوتا ہے معاشرے کا مشاہدہ ہی لکھاری کو لکھاری بناتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی جگہ کے ادب میں اس کی روایات کا عکس نظر آتا ہے۔
سوال:آپ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو تحریروں میں بیان کرنا پسند کرتے ہیں؟ جواب: بلکل، میری چوتھی کتاب مودبانہ گزارش میں انہیں حقائق کا ذکر ہے۔
سوال:آپ کا اپنے والدین سے کیسا تعلق رہا ہے؟ جواب: الحمدللہ بہت اچھا ہے۔
سوال: آپ کی زندگی کا اہم ترین سبق کیا ہے؟ جواب: محنت کبھی بھی رائگاں نہیں جاتی ، اگر آپ کوئی خواب دیکھتے ہیں تو جب تک اس کی پوری قیمت ادا نہیں کرتے یعنی اس کی تعبیر کے شایان شان محنت نہیں کرتے تب تک وہ خواب پورا نہیں ہوتا۔
سوال: آپ نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے؟ جواب: ایم اے پولیٹیکل سائنس جاری ہے۔
سوال:آپ کے خیال میں تعلیم اور معاشی طور پر استحکام ایک لکھاری کے لئے کتنا ضروری ہے؟ جواب: آج کل کے اس ترقی یافتہ دور میں اس تیزی سے ترقی ہو رہی ہے کہ انسان رات کو پڑھا لکھا سوتا ہے اور صبح جاہل ہوتا ہے۔ تعلیم بنیادی ضرورت ہے لیکن اس سے مراد ڈگریاں نہیں ہیں۔ معاشی استحکام کے بغیر مکمل توجہ دینا ممکن نہیں ہے۔
سوال:آپ کو ناقابل اشاعت تحریر پر کیا محسوس ہوتا ہے؟ جواب: الحمدللہ کوئی تحریر ایسی نہیں ہے۔ لیٹ ہو جائے تو بھی شائع ہو جاتی ہے۔
سوال:کیا تعلیم اورلکھنے کا ایک دوسرے سے تعلق ہے؟ جواب: نصابی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے مگر ساتھ ساتھ غیر نصابی ادب پڑھنا ذیادہ ضروری ہے۔
سوال:کس کہانی کو لکھ بے حد خوشی ہوئی ہے؟ جواب: میں کہانی نہیں لکھتی مضامین لکھتی ہوں۔اس لیے جب بھی کہانی لکھوں تب ہی خوشی ہوتی ہے۔
سوال: آ پ کے لکھنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ جواب: سنجیدہ، جس میں مقدار سے زیادہ معیار پر توجہ دی جائے۔
سوال:اپنی آپ بیتی لکھنا چاہیں گی؟ جواب: ان شا اللہ بہت جلد ۔
سوال: قارئین کی پذیرائی کیا لکھاری کو سنوارتی ہے؟ جواب: جیسے گاڑی کو چلنے کے لیے پٹرول چاہیے ہوتا ہے اسی طرح پذیرائی لکھاری کا پٹرول ہوتا ہے ۔
سوال: کیا مثبت سوچ کسی کی زندگی کو بدل سکتی ہے؟ جواب: مثبت سوچ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے استعمال سے کوئی بھی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔منفی سوچ والا انسان خود بھی پریشان ہوتا ہے اور ماحول کو بھی خراب کرتا ہے۔
سوال: ایک اچھے لکھاری میں آپ کن خصوصیات کا ہونا ضروری سمجھتی ہیں؟ جواب: جس عمر کے افراد کے لیے تحریر لکھے ان کے ذہن کے مطابق الفاظ اور زبان استعمال کی جائے . اس کے ساتھ ساتھ کاپی رائٹ کا خیال رکھیں۔ اپنی تحریر کو کم از کم ایک مرتبہ قاری کی حیثیت سے پڑھیں۔
سوال: آپ کس ادب اطفال لکھاری سے بے حد متاثر ہیں؟ جواب: نذیر امبالوی صاحب۔ ما شا اللہ وہ بہت عرصہ سے بچوں کا ادب تخلیق کر رہے ہیں مگر آج تک ان کی کوئی کہانی اس میعار سے کم نہیں ہوتی جو ان کا خاصہ ہے۔
سوال: بچوں کے لئے لکھتے وقت لکھاریوں کو کیا بات سوچنی چاہیے؟ جواب:تحریر بچوں کی اخلاقی تربیت کرے اور دلچسپ بھی ہو تاکہ بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔
سوال: بچوں کو لکھنے،پڑھنے کی جانب مائل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جواب: گھروں میں کتابیں پڑھنے کا ماحول ہو تب ہی بچے اس شوق کو اپناتے ہیں۔
سوال: مثبت سوچ اور برائیوں سے کس طرح سے ہم نوجوانوں کو دور رکھ سکتے ہیں؟ جواب: تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی اہتمام کر کے ۔
سوال: کیا ہر لکھنے والے کے لئے صاحب کتاب ہونا ضروری ہے؟ جواب: صاحب کتاب ہونا ایک اعزاز ہے۔ لیکن کتاب مرتب کرنا یا نا کرنا یہ لکھاری کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔
سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟ جواب: لکھاری بہت محنت سے ادب تخلیق کرتا ہے اس کی پذیرائی کی جائے اور غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے معاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔ ۔ختم شد۔ |