کتاب دوست مجید احمد جائی

خطہ ملتان اس لحاظ سے خاصا خوش قسمت اور زرخیز ثابت ہوا ہے کہ یہاں لکھنے والوں کی ایک بڑی کھیپ ہمیشہ سے دستیاب رہی ہے جنہوں نے اپنے قلم سے پورا پورا انصاف کرتے ہوۓ پڑھنے والوں کو بہتر سے بہترین پیش کیا اور اپنا اور اپنے علاقے کا نام روشن کیا بطور مثال جناب مظہر کلیم ایم اے عاطر شاہین علی عمران ممتاز سجاد جہانیہ اظہر سلیم مجوکہ کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں آج میں خطہ ملتان سے تعلق رکھنے والے جس نوجوان کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں اس ہونہار اور کتاب دوست نوجوان مجید احمد جائی سے کون واقف نہیں ہے اپنے بل بوتے اور اپنے دم پہ نامساعد حالات میں بھی ہمت اور کوشش سے اپنا نام اور مقام بنانے والے مجید احمد جائی ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اور کتاب دوست کے نام سے جانے جاتے ہیں۔شریف النفس اور معصوم صورت مجید احمد جائی دل کے بھی بڑے معصوم ہیں ہر ایک سے پیار محبت اور اخلاق سے بات کرتے ہیں۔ادبی حلقے اور دوست احباب میں خاصے مقبول ہیں ادبی اور غیر ادبی دوستوں کا وسیع حلقہ احباب رکھتے ہیں اپنے علاقے میں تو مشہور و معروف ہیں ہی اس کے علاوہ سوشل میڈیا الیکٹرونک میڈیا نیوز پیپیر یو ٹیوب اوربچوں بڑوں کے مختلف رسائل میں بھی نمایاں اور متحرک نظر آتے ہیں۔آئیے ان کے بارے میں مزید جانتے ہیں
تاریخ پیدائش کے متعلق پوچھے جانے پہ ان کا معصومانہ سا جواب یہ تھا مجھے نہیں معلوم میں کب پیدا ہوا میں کیا دُنیا میں ہر آنے والا انسان نہیں جانتا کہ وہ کب پیدا ہوا اماں جی بتاتی ہیں کہ سوموار کا دن ،صبح سحری کے وقت پیدا ہوا اور رمضان المبارک کے آخری عشرے کا طاق دن تھا سرکار مجھے 20اگست1984ءکا لیبل لگاتی ہے ۔

آپ ملتان کے خوبصورت نواحی گاﺅں ”چاہ جائی والا“میں پیدا ہوۓ اس خطہ کی مٹی بڑی زرخیز ہے جو یہاں آتا ہے یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو آپ ماں کی گود سے لے کر گور تک تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے ہیں حاضر وقت میں ایم فل اردو جاری ہے اور ان شاءاللہ پی ایچ ڈی کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کا مضبوط ارادہ رکھتے ہیں اس کے علاوہ کمپیوٹر شارٹ کورس ،آئی ٹی ،کورل ڈرا،ان پیج اور لائبریر ی سائنس کا ڈپلومہ حال ہی میں حاصل کیا ہے

آج کل لکھنے لکھانے کی بجاۓ پڑھنے پہ زیادہ زور ہے کام کاج کے بعد کتابوں کی دنیا میں گم رہنا پسند کرتے ہیں کتاب دوست جو ہوۓ۔

آپ نے 2003ء میں لکھنا شروع کیا پہلی تحریر ”روزنامہ نیا دورملتان “میں شائع ہوئی یہ ایک انتخابی غزل تھی اخبار میں اپنا نام دیکھ دل بلیوں اچھلا تھا بہت زیادہ خوشی محسوس ہو رہی تھی لیکن جب ان کے بابا جانی نے وہ اخبار دیکھا اور غزل پڑھی تو جانے کیوں رودئیے تھے غالباً نہیں یقیناً خوشی سے روۓ ہوں گے۔

دو ہزار چودہ یا پندرہ میں بچوں کے لیے پہلی تحریر لکھی اور چونکہ اپنے پاس ریکارڈ نہیں رکھتےاس لیے اب بھول چکے ہیں کہ پہلی تحریر کون سی تھی
ہاں اتنا یاد ہے کہ کرن کرن روشنی اور ادبی کرنیں میں لگی تھی

جبکہ بڑوں کے لیے پہلی تحریر”خوشی کی تلاش“2005ءکو ماہنامہ جواب عرض میں شائع ہوئی تھی بچوں و بڑوں کے لیے کتنا لکھا کس کس میں لکھا اس سب کا سوفٹ اور ہارڈ کاپی میں ریکارڈ موجود ہے بس دھڑا دھڑ لکھتے رہے ہیں داد سمیٹتے رہے ہیں اب تک ملک کے بیشتر مشہور معروف رسائل جرائد اور اخبارات میں دو سو کے قریب تحاریر لکھ چکے ہیں جن میں سے چند ایک قابل ذکر رسائل کے نام یہ ہیں ماہنامہ جواب عرض لاہور،سچی کہانی لاہور،ریشم لاہور،آداب عرض لاہور،نئے اُفق کراچی ،سرگزشت کراچی ،سچی کہانیاں کراچی،کرن کرن روشنی ،بزم قرآن لاہور،پیغام ،پھول ،بچوں کا گلستان ،جگنو،بچوں کا پرستان ،بزم قرآن ملتان روزنامہ خبریں ،اوصاف،جناح ،پاکستان ،نوائےوقت،
آفتاب،آزادی ،صحافت،سحر ،سر زمین ،بادشمال ،کے ،ٹو،آغاز سفر ماہنامہ آڈیو ٹائم اردو ڈائجسٹ حقیقت اور افلاک وغیرہ روزنامہ خبریں میں بچوں کے لیے کہانیاں شائع ہوئیں ،روزنامہ آفتا ب کے بچوں کے ایڈیشن کا انچارج بھی رہے۔اب تک ان کی کتابیں جو شائع ہو چکی ہیں ان میں اخلاق کا انعام (بچوں کے لئے)غریب کی چائے (افسانے)قفس میں رقص،میں پانی ہوں ،تڑپ اک خواب کی (افسانوی انتخاب مجموعے )(ہر پل تیرے ساتھ رہوں گی )زیر طبع شامل ہےاس کے علاوہ اب تک مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے کالمز کتابی شکل میں آنے کے لیے تیارپڑے ہیں ،کتب تبصرے ،آنے والے خطوط (یادوں کے جگنو)یادیں ،اور چار کتب کے مسودے جو کے افسانوں پر مشتمل ہیں کسی اچھے وقت کے انتظار میں ہیں ۔کتابوں کے دلدادہ ہیں تو ان کی ذاتی پسند بھی ہو گی یقیناً تو اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
ادبی کتب،تنقیدی کتب کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں ان کا جنون کی حد تک رسیا ہوں اس کے علاوہ ہر موضوع اور ہر قسم کی کتابیں بھی زیر مطالعہ رہتی ہیں اور پڑھتا رہتا ہوں ۔ہر کتاب کچھ نہ کچھ دے ہی جاتی ہے یوں۔اس طرح سیکھنے سیکھانے کا عمل جاری رہتا ہے ادب سے متعلق سوال کیا جاۓ تو فرماتے ہیں کہ میں تو بہت بے ادب ہوں ہاں یہ ضرور ہے کہ ادب کے لیے زندگی وقف کیے بیٹھا ہوں ۔

گاؤں میں ایک لائبریری بھی بنا رکھی ہے اور اس کے حوالے سے کافی پرجوش اور متحرک رہتے ہیں
20 اگست 2016ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اس کے لیے پلان بہت پہلے سے تھااس کے قیام کی وجہ تسمیہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ مجھے مطالعہ کا بہت شوق تھا اور کتب تک رسائی ممکن نہیں ہوتی تھی ملتان شہر کی لائبریوں تک پہنچتے پہنچتے ان کا وقت ختم ہو جاتا اور قفل لگ جاتے وقت بھی ضائع ہوتا اور پریشانی الگ سے اٹھانا پڑتی بس یہی سوچ کے خیال آیا کہ میری طرح اور بھی لوگ ہوں گے جن کو میرے جیسے مسائل کا سامنا ہوگا ۔بس اسی خیال نے اثر کیا اور لائبریری کے لیے کام کرنے لگا وقت کے ساتھ ساتھ جدوجہد جاری رہی اور لائبریری کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔20اگست2017 کوباقاعدہ طور پر اس کا افتتاح بدست نامور افسانہ نگار و کالم نگار”سجاد جہانیہ “ہوا ۔ملتان کی ادبی شخصیات شریک محفل ہوئیں ۔اظہر سلیم مجوکہ ،فیاض اعوان ،علی عمران ممتاز،قاری محمد عبداللہ ،محمد جیند انصاری ،عامر شہزاد صدیقی و دیگر شامل تھے ۔

اس وقت لائبریری میں پانچ ہزار سے زائد کتب موجود ہیں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اپنی تنخواہ کا ایک حصہ لائبریری کے لیے مختص ہے اب دوست احباب بھی تعاون فرما رہے ہیں جائی ادبی لائبریری ایک نئی روایت قائم کر رہی ہے اس لائبریری کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ لائبریری پہ آنے والوں کو چائے اور کھانا بالکل فری کھلایا جاتا ہے لائبریری انتظامیہ اپنے قاری کو کتاب اس کے گھر تک بھی پہنچاتی ہے اور یوں کتب بینی کے فروغ میں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوۓ ہے۔

اپنے پیغام میں فرماتے ہیں کہ اگر آپ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ایسا لکھیں جو بعد مرنے کے بھی آپ کو زندہ رکھے ۔محبتیں بانٹیں اور صبر برداشت کا دامن کبھی نہ چھوڑیں آپ ترقی اور شعور کی بلندیوں کو چھونا چاہتے ہیں تو کتاب کو ساتھی بنا لیں ۔


 
Muhammad Ramzan Shakir
About the Author: Muhammad Ramzan Shakir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.