حکومتی جلد بازیاں اور اثرات ․․․؟

حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کا فیصلہ کر لیا ،تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کا حکومت کو وارنگ دینا،انتشار کی ابتدا کا باعث بنا،حالاں کہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا ،کیوں کہ فرانسیسی صدر نے ہمارے پیارے نبی ﷺ کے خلاف گستاخانہ خاکوں کی پیروی کی تھی اور اس سے بڑا جرم روح زمین پر سرزد ہو ہی نہیں سکتا ،مگر حکومت نے اس مسئلے کو صرف چند خطوط اور بیانات کی حد تک رکھا،جس سے عوامی ردِ عمل آنا یقینی تھا،مگر پاکستان حکومت مسائل کو دوراندیشی سے ختم کرنے کی بجائے ’’ٹائم ٹپاؤ‘‘کی پالیسی کو لے کر چل رہی ہے،اس حساس معاملے پر بھی حکمرانوں کی جانب سے ایسا ہی رویہ اختیار کیا گیا۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد جو کہ اپنے آپ کو منجھا ہوا سیاست دان کہتے ہیں،مگر اس مسئلے میں انہوں نے بچوں جیسے فیصلے کیے ہیں۔یہ وہی شیخ رشید احمد ہیں،جو 2017 کے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے کی بھرپور حمایت کر رہے تھے،کیوں کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کی قیادت میں تحریک کے حق میں حکومت کو وارننگ دیتے،اشتعال انگیز تقاریر اور حکومت کو دھمکانے والے پیغامات دیتے تھے،کیوں کہ حکومت کمزور کرنا مقصود تھا،آج وہی شیخ رشید احمد اسی تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم تنظیم کا نوٹی فکیشن جاری کروا رہے ہیں۔حکومت نے عوامی انتشار اور امن و امان کی صورت حال کو بگاڑنے کا سارا ذمہ تحریک لبیک پر ڈالنا چاہا ہے،حالاں کہ بجائے اس معاملے کے اسباب کا تعین کر کے انہیں دور کیا جائے بلکہ احتجاج کرنے والے فریق کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ کو حکومت سے پوچھنا چاہیے تھا کہ تحریک لبیک پاکستان سے تحریری معاہدہ کرتے وقت سوچنا چاہیے تھا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے فائدے یا نقصانات کیا ہوں گے،یہ تنظیم دوسری کالعدم تنظموں کی طرح نہیں بلکہ ایک سیاسی پارٹی ہے ۔

حکومت اور خاص طور پر ملک کے وزیر اعظم سے کوئی تحریری معاہدہ ہو جائے تو اس کے بعد وعدہ وفا ہونے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ،مگر یہاں معاہدے پر عمل کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا تھا۔دوسرے فریق کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔اب حقیقت یہ ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاہدے میں یہ طے نہیں پایا تھا کہ فرانس کے سفیر کو فوراً نکال باہر کیا جائے گا بلکہ اس معاملے کو قومی اسمبلی کے سامنے رکھنے کا معاہدہ ہوا تھا۔اپریل تک یہ معاملہ اسمبلی میں آنا تھا ،لیکن حکومت نے انکار کر دیا،جس پر تحریک لبیک پاکستان کا احتجاج واجب ہو جاتا ہے۔اس کے ساتھ ’’سونے پر سہاگا‘‘ کہ سربراہ حافظ سعد رضوی کو جلدی میں گرفتار کر لیا گیا،ان پر قتل اور دہشت گردی کے پرچے کر دیئے گیے۔اس سے انتشار بڑھنا تھا کم تو ہر گز نہیں ہونا تھا،چناں چہ ایسا ہی ہوا۔پورا ملک منجمد ہو کر رہ گیا،بے گناہ لوگوں کی اموات ہوئیں ،درجنوں زخمی ہوئے،پولیس والے شہید ہوئے ،درجنوں زخمی ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔حالاں کہ اگر معاملہ قومی اسمبلی میں لے جا کر بحث ہوتی اور اسمبلی یہ تجویز مسترد کر دیتی تو حکومت کے پاس کوئی معقول جواز ہوتا۔

پاکستان کا آئین و قانون اسلامی قوانین کے مطابق ہے،اگر وہاں کسی بھی تنظیم کا مطالبہ ہے کہ فرانس کی حکومت حضور پُرنور ﷺ کی شان میں گستاخی کو مسلسل پشت پناہی کر رہی ہے،اس کے لئے احتجاجاً فرانس سے تعلقات ختم کئے جائیں ،تو حکومت کا فرض ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق پیارے نبیﷺ کے خلاف مسلم یا غیر مسلم گستاخوں کو کڑی سزا دے اور ان سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھے۔یہ حکومت اسلامی نظریئے کا تحفظ نہیں کر رہی اور غیروں کی خشنودی کے لئے ان کے قوانین کو اسلامی قوانین میں ڈھالنے کی کوشش کر رہی ہے،جو کہ ایک بڑا جرم ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیوں نہیں کیا جا رہا؟پاکستان اور فرانس کے تعلقات ماضی میں اچھے تھے ،لیکن جب سے فرانس اور بھارت کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں،پاک فرانس کے تعلقات شدید خراب ہوئے ہیں۔اگر اب فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے تو مختلف بین الاقوامی فورمز پر، جیسا کہ سلامتی کونسل اور یورپی یونین جن کا فرانس مستقل رکن ہے ، پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔فرانس ایف اے ٹی ایف کا اہم رکن ہے ،اس کے سفیر کی ملک بدری کا اثر پاکستان کی پوزیشن پر ضرور ہو گا،کیوں کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار ہے،جس کی مہلت جون تک دی گئی ہے۔فرانس سے تعلقات پہلے ہی مثالی نہیں دوسرا فروری میں ہونے والے اجلاس میں فرانس پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلالنے کی پہلے ہی سخت مخالفت کر چکا ہے،حکمران اس سے بھی ڈرتے ہیں کہ فرانس سے مخالفت پیدا کرنے سے معاشی نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ فرانس پاکستان میں متعدد ترقیاتی منصوبے بھی چلا رہا ہے جو سفیر بدری کے معاملے سے متاثر ہو سکتے ہیں ۔حالاں کہ حکومت نے فرانس سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہوا ہے۔حکومتی مشیران مشورہ دے رہے ہیں کہ اس فیصلے سے سفارت کاری میں نقصانات ہوں گے ،حکومت کو کاروباری اندازکے ساتھ سفارت کاری کرنا ہو گی،یہ ملک کے لئے اچھا نہیں ہے،سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔

جب ہم ان دونوں طرفہ حالات کو دیکھتے ہیں،فیصلہ کرنا مشکل ضرور ہے،مگر نا ممکن نہیں ہے۔بہر حال اس کا حل کسی تنظیم کے اصولی بات پر اسے کالعدم قرار کر دیا جائے،اس کا نقصان زیادہ ہے،جب کہ فرانس کو سبق سکھانے کے لئے اقدام سے ۔اس کی تشریح ایسے کی جا سکتی ہے کہ اگر حکومت تحریک لبیک پر پابندی لگا کر یہ سمجھتی ہے کہ سختی یا جبر سے اس مسئلہ کو حل کر لیں گے ،اس سے کم عقلی کی بات کوئی نہیں ہو سکتی ۔یہ عشقِ رسول ﷺ کا بیانیہ ہے،اس پرہر مسلمان جان دینا فخر پر یقین رکھاتا ہے۔طالبان جس مقصد کے لئے بنائے گئے وہ ریاستی تحفظ یا دوسروں کی جنگ لڑنا مقصود تھا،مگر لبیک جیسی تحریک صرف ناموسِ رسالتﷺ پر کام کر رہی ہے اور ایسی تنظیمیں اس وقت بنتی ہے، جب پاکستان کے دستور پر عمل نہیں ہو رہا ہوتا،جب قرآن مجید کی گستاخی اور توہین رسالت کے مرتکب لوگوں کو رہا کر کے انہیں دوسرے ممالک میں حکومتی نمائندے بھیجتے ہیں،ایسے لوگوں کو تحفظ حکومت پاکستان دیتی رہی ہے۔اب حکومت ایک اور غلطی کر رہی ہے کہ ایک تنظیم کا جمہوری اور قانونی حق سلب کر رہی ہے۔یہ جھلاؤ،گھیراؤاور پتھراؤ یقیناً درست نہیں،لیکن اس نہج تک پہنچانے میں اوّلین کام حکمرانوں کا رہا ہے۔اب تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کون سا ملک کے فائدے میں ہورہا ہے،ہم نے ایک لمبا عرصہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی اور 70 ہزار سے زیادہ لوگوں کو شہید کروا کر ملک کو دہشت گردی کے چنگل سے کم و پیش نکلنے میں کامیاب ہوئے،اب دوبارہ لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کا راستہ اپنائیں،انہیں کو ملک دشمنوں نے مدد کے لئے ہاتھ بھی بڑھانے ہیں اور ان کی پشت پر آن کھڑے ہونے والوں کی تعداد لمبی ہے۔

حکومت ہمیشہ وعدے پورے کرنے پر مضبوط ہوتی ہے اور ’’یوٹرن‘‘لینے پرمسائل کا شکار اور کمزور ہوتی ہے۔دوسری تنظیموں پر پابندی سے کیا فائدہ ہوا ہے ․․․؟انہوں نے اپنا کام دوسرے ناموں سے تنظیمیں بنا کر کرنا شروع کر دیا ۔تحریک لبیک جزبہ حرمتِ رسول ﷺ کے تحفظ کا ہے ،اس میں عام فرد بھی سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے۔

اس مسئلے کا حکومت کے پاس ایک حل ہے کہ فوراً قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے معاملے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے ۔صرف وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی خواہش پر اتنا بڑے معاملے کا فیصلہ کرنا ملک و قوم کے مستقبل کے لئے بڑی سنگین غلطلی ثابت ہو سکتا ہے،کیوں کہ گرفتاریوں اور تشدد سے امن و امن مزید خراب ہو گا،اس کا فائدہ دشمن طاقتوں کو ہو گا،جو کہ ایسے معاملات کی طاق میں ہوتیں ہیں ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.