ایک تہلکہ خیزخبرہے کہ وفاقی حکومت نے اینٹی ٹیرر ازم
ایکٹ 1997ء کے رْول 11 بی کے تحت تحریکِ لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا
فیصلہ کیا ہے اس پہلے بھٹو دورمیں خان عبدالولی خان کی جماعت نیپ کو خلاف ِ
قانون قراردے کر بین کردیا گیا تھا لیکن اس کے لئے بھٹو صاحب نے عدالت میں
ریفرنس داخل کیا تھا موجودہ حکومت کیا کرتی ہے فی الحال کچھ نہیں
کہاجاسکتاوفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف
کرتے ہوئے کہاتھا تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے لوگوں نے پولیس
اہلکاروں کو اغوا کرنا شروع کردیا۔ ٹی ایل پی ملک میں بے امنی پھیلارہی ہے،
پاکستان ایسا ملک نہیں کہ ایمبولنس بھی نہ چل سکے جس سے ظاہرہوتاہے تحریک
لبیک کا ایجنڈا کچھ اور ہے، حکومت نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے، تحریک لبیک
پر پابندی کے لیے کابینہ کو سفارش بھیج دی ہے، ٹی ایل پی کے بینک اکاؤنٹس،
اثاثوں پر پابندی کا فیصلہ بھی کرلیاگیاہے۔ وزارت داخلہ نے تحریک لبیک پر
پابندی کی سمری وزیراعظم کو ارسال کر دی جومنظورکرلی گئی ہماری ان کو منانے
کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں، پنجاب حکومت نے تحریکِ لبیک پر پابندی لگانے
کی سفارش کی تھی تحریک لبیک کا ایجنڈا تھا کہ ملک کو جام کیا جائے کیا دنیا
میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایمبولنسز پر حملہ کیا جائے تحریک لبیک پر پابندی
کے لئے کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے رائے لی گئی ہے ۔شیخ رشید کی باتیں
اپنی جگہ پر لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت پر پابندی صرف
عدالت ِ عظمیٰ ہی لگاسکتی ہے۔ حالات کے تناظرمیں ملک بھر کے علماء و مشائخ
نے پاکستان کے مختلف حصوں میں ہونے والے پْرتشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے
کہا کہ سرکاری اور عوامی املاک کا جلایا جانا قابل مذمت اور قابل افسوس ہے۔
مظاہرین کو کسی صورت تشدد کا راستہ نہیں اختیار کرنا چاہیے تھا راستے بند
ہونے سے روزہ داروں کیلئے بھی مشکلات پیدا ہورہی ہیں حکومت کوبھی چاہیے کہ
وہ صرو تحمل اور تدبیر سے کام لے کیونکہ ملک ا ن حالات کا متحمل نہیں
ہوسکتا ۔ کچھ سیاسی ماہرین کا کہناہے کہ ٹی ایل پی پر پابندی سے ان کی
جماعت کے ارکان ِ اسمبلی کو جماعتی وابستگی ختم کرنا ہوگی جبکہ کچھ کا خیال
ہے کہ پابندی لگنے سے تحریک لبیک کے ارکان ِ اسمبلی خود بخودنااہل ہوجائیں
گے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کسی جماعت پر پابندی مسئلہ کا مستقل حل
نہیں خلاف ِ قانون قراردے کر جن جماعتوں پرپابندی لگائی جاتی ہے یا تو ان
کی انڈرگراؤنڈ سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں یا وہ نئے نام پرپھر خودکو منظم
کرلیتی ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کے حکومتی فیصلے ردِ عمل
کااظہارکرتے ہوئے ٹی ایل پی پر پابندی کا مذہبی، نظریاتی اور انسانی
بنیادوں پر خیرمقدم کیاہے ان کا کہنا تھا پاکستان میں انتہاپسند قوتوں کو
ملک کے مستقبل سے کھلواڑ کی اجازت نہیں دی جائے گی مذہب کو اپنی ضروریات،
مقاصد یا اقتدار کے حصول کے لئے استعمال کرنا ملکی سالمیت کیلئے نقصان دہ
ہے۔ ایمل ولی خان نے کہا احتجاج کے دوران پولیس، عوام، نجی و سرکاری املاک
کے ساتھ جو کچھ ہوا قابل مذمت ہے۔ مذہب کو کارڈ کے طور پر استعمال کرنے
والوں کے خلاف اسی طرح سنجیدگی سے کارروائیاں ہوتی رہیں تو پاکستان جلد گرے
لسٹ سے نکل جائے گا۔ اگر ایسے معاملات سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹا جاتا تو
دنیا میں پاکستان کی بدنامی نہ ہوتی۔ اْن کا کہنا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی
قانون، آئین اور پارلیمان کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، کسی کو بھی قانون
ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ قانون ہاتھ
میں لینے والوں کو سخت سزا دی جائے، دنیا کو پیغام دینا ہوگا کہ ہم پرامن،
انتہاپسندی کے خلاف ایک سیکولر ملک ہیں۔ وفاقی حکومت نے اینٹی ٹیرر ازم
ایکٹ 1997ء کے رْول 11 بی کے تحت تحریکِ لبیک پاکستان پر پابندی لگا دی ہے
تو پھرلگتاہے کہ پورے ملک سے فعال کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع
ہوجائے کریک ڈاؤن کے پہلے مرحلے میں ہزاروں کارکنوں کو حراست میں لیا
جاچکاہے کیونکہ اس وقت تحریک ِ لبیک پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے
جس نے25لاکھ سے زائد ووٹ لے کر سب کو حیران پریشان کردیا تھا اس کا کریڈٹ
ایک یہ بھی ہے کہ انتہائی قلیل مدت میں عروج حاصل کرنے والی واحدجماعت ہے
جو علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کی جوشیلی تقریروں نے ہرخاص و عام میں مقبول
بنادیا پھر ان کے جنازے میں شامل ہونے والے شرکاء کی تعداد نے مخالفین کو
چونکاکررکھ دیا تھا بلاشبہ علامہ خادم حسین رضوی کا جنازہ برصغیر کا سب سے
بڑا جنازہ کہاجاسکتاہے حکومت اور تحریک لبیک کے قائدین کوپاکستان کی نازک
صورت ِ حال کے تناظرمیں حکمت ِ عملی ،صبرو تحمل اور تدبر سے کام لینا ہوگا
تحریک کے کارکنوں کو بھی اس بات کااحسا س کرنا چاہیے یہ ملک ہم سب کا ہے
قومی اداروں میں جلاؤ گھیراؤ، عوام کی املاک اور گاڑیوں کو نذرِ آتش
کرنا،قانون نافذکرنے والی سیکورٹی فورسزپرحملے کوئی دانش مندی نہیں قانون
کے دائرے میں رہ کر احتجاج کرنا ان کا جمہوری حق ہے لیکن حدسے گذرنا مناسب
نہیں ہرمسلمان کو نبی ٔ آخرالزمان ﷺ کی ناموس وحرمت اپنی جان سے بڑھ کر
عزیزہے اس پرکوئی کمپرومائزنہیں ہوسکتا لیکن احتجاج کی آڑمیں جلاؤ گھیراؤکا
کوئی جوازنہیں نبی پاک ﷺ سے محبت کرنے والا ایسا نہیں کرسکتا اس لئے اپنی
صفوں میں سماج دشمن عناصرکی سرکوبی کرنا بھی آپ پر واجب ہے۔
|