آج آزاد کشمیر میں ہونے والے عام
انتخابات کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں ان انتخابات نے پاکستانی سیاست کو
انتہائی گرم کردیا ہے۔ مسلم لیگ( ن) کے قائد نواز شریف نے آزاد کشمیر کے
مختلف انتخابی جلسوں کے دوران حکومتی کارکردگی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا
جس کا جواب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے
21جون کو نوڈیرو میں بےنظیر بھٹو کے56 ویں یوم پیدائش کے موقع پر دیا۔
انہوں نے جہاں نواز شریف پر مختلف حوالوں سے سخت تنقید کی وہیں پر انہیں
”مولوی “ نواز شریف کا خطاب بھی دیا۔ اب یہ معلوم نہیں کہ اس خطاب کے ذریعے
انہوں نے لفظ” مولوی“ سے نفرت کا اظہارکرکے نواز شریف کو کوسنے کےلئے اپنی
نظر میں سب سے بدترین لفظ کا انتخاب کیا یا دونوں کو قابل نفرت سمجھاہے اس
کا بہتر جواب وہ خود دے سکتے ہیں۔ یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ
اب پیپلز پارٹی کے وزرائ، رہنما اور ارکان اسمبلی اپنے مختلف بیانات،
تقاریر اور ٹاک شوز میں نواز شریف سے اپنی نفرت کا بھرپور اظہار ااسی لفظ
کے ذریعے کر رہے ہیں۔لفظ” مولوی“ سے اس حد تک نفرت کے اظہار اور شعائر
اسلام اور علماءکی توہین پر علماءکی وراثت کے دعویداروں کی خاموشی افسوسناک
اور معنی خیز ہے ۔
کشمیر کی سیاست میںموجودہ انتخابات کی اس لئے بھی زیادہ اہمیت ہے کہ آزاد
کشمیر کی 64 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ دو پاکستانی سیاسی جماعتیں
وہاںمدمقابل ہیں۔ ماضی میں ہمیشہ مسلم کانفرنس اور پاکستان پیپلز پارٹی
آزاد کشمیر کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا ہے کیونکہ پاکستان میں موجود مسلم
لیگ ہمیشہ مسلم کانفرنس کو ہی اپنا متبادل سمجھتی رہی اور مسلم لیگ کی ہر
حکومت نے اس کی سرپرستی کی۔ اس وقت بھی مسلم کانفرنس کو مسلم لیگ کے ایک
دھڑے ق لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ 12 اکتوبر 1999ءکے مشرف کے اقدام کے بعد مسلم
کانفرنس کے رویے کی وجہ سے مسلم لیگ( ن) کی قیادت کو مجبوراً اس بار یہ
فیصلہ کرنا پڑا کہ اب کشمیر میں مسلم کانفرنس پر انحصار کی بجائے مسلم لیگ
(ن) کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر
کے خلاف عدم اعتماد کے بعد اس میں تیزی آئی اور چند ماہ قبل مسلم لیگ( ن)
کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے
بالترتیب پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم میں بھرپور
حصہ لینے کے بعد آزاد کشمیر کا سیاسی میدان انتہائی گرم رہا ابتداءمیں یہ
محسوس ہورہا تھا کہ شاید اصل مقابلہ پیپلزپارٹی اور مسلم کانفرنس کے مابین
ہو لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ حقیقی مقابلہ پاکستان کی ان دونوں جماعتوں کے
مابین ہی ہوگا۔ دونوں رہنماﺅں نے پاکستان کے اندر اپنے سیاسی اختلافات کا
غصہ بھی آزاد کشمیر میں نکالنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ انتخابی مہم کے آخری
معرکے کے لیے بھی دونوں نے کنٹرول لائن پر واقع وادی نیلم کا انتخاب کیا۔
جہاں قانون ساز اسمبلی کی ایک ہی نشست کے لئے انتخاب ہوناہے لیکن کشمیر کی
سرحدی حدود اور کشمیر تنازع کے حوالے سے وادی نیلم انتہائی اہمیت کی حامل
ہے۔
آزاد کشمیر کے الیکشن میں بظاہر مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی مدمقابل نظر
آرہی ہیںتاہم دائیں بازو کے ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ یقینا پیپلز پارٹی کو
حاصل ہو گا لیکن پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں وزارت عظمیٰ کے نصف درجن سے
زائد امیدوار ہونے کی وجہ سے ان تمام رہنماﺅں کی توجہ مجموعی طور پر پارٹی
کی کارکردگی بہتربنانے کی بجائے انفرادیت پر مرکوز ہوگئی ہے۔ ہر ایک کی
خواہش ہے کہ کم از کم وہ اپنی نشست پر کامیاب ہو اور وزارت عظمیٰ کے دیگر
امیدوار ہار جائیں تاکہ راستے کا کانٹا صاف ہو۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) میں بھی
وزارت عظمیٰ کے امیدواروں کی تعداد ایک سے زائد ہے تاہم یہاں پر ایک دوسرے
کے لئے ہمدردیاں نظر آتی ہیں۔ تیسری سرگرم جماعت مسلم کانفرنس ہے جو آزاد
کشمیر کی سیاست میں روز اول سے حاوی رہی ہے۔ مجموعی طور پر 40 سال سے زائد
عرصے تک اس جماعت نے بالواسطہ یا بلا واسطہ آزادکشمیر پر حکمرانی کی ہے
لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ شاید مسلم کانفرنس ماضی کا حصہ بن جائے گی کیونکہ
اس وقت اس کی قیادت میں سوائے سردار عتیق احمد خان کے کوئی نمایاں شخصیت
دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اگرچہ سردار عتیق احمد خان نے مسلم لیگ (ق )اور
جمعیت علماءاسلام (ف) کی ہمدردیاں حاصل کرکے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی
کوشش کی ہے لیکن انہیں زیادہ کامیابی ملنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ
کشمیریوں کی اکثریت محرومی اور تقسیم در تقسیم کا اصل ذمہ دار مسلم کانفرنس
کے رہنما سردار عبدالقیوم خان اور ان کے ساتھیوں کو سمجھتی ہے۔جو سیاسی
جماعتیں الیکشن میں سرگرم ہیں ان میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے۔ اگرچہ آزاد
کشمیر کی حد تک ایم کیو ایم کو کوئی نمایاں کامیابی ملنے کا امکان کم ہے
لیکن میڈیا کی حد تک یہ جماعت انتہائی سرگرم ہے۔
مجموعی طور پر41نشستوں کے لیے421امیدوارمیدان میں ہیں جن میں سے 22جماعتوں
کے 218اور آزاد امید وار203 ہیں۔ پی پی پی کے41،ن لیگ کے35،مسلم کانفرنس کے
36،ایم کیو ایم کے 41اور باقی آزاد اور دیگر جماعتوں کے امیدوار ہیں ۔پولنگ
کے لیے5568اسٹیشن اور8425 بوتھ قائم کئے گئے ہیں جہاں پر30843افراد کا
انتخابی عملہ تعینات ہوگا جن میں 5568پریزائیڈنگ افسر،8425پولنگ افسراور
16850اسسٹنٹ پولینگ افسرہیں جبکہ 27ہزار پولیس اہلکاروں کے علاوہ10ہزار سے
زاید دیگر افراد سیکورٹی کے فرائض سرانجام دینگے۔ مجموعی طور پر30
لاکھ7ہزار718 ووٹر حق رائے دہی استعمال کرینگے آزادکشمیر کے اندر29نشستوں
کے لیے22لاکھ91ہزار610 آزاد کشمیرکی پاکستان کے اندرمہاجرین کی12نشستوں
کےلیے6لاکھ12ہزار7افراد ووٹ کا حق استعمال کرینگے۔ پیپلزپارٹی وفاق اورمسلم
کانفرنس آزاد کشمیر حکومت میں ہونے کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔مصرین
کا کہنا ہے کہ اگر دونوں حکومتوں نے مداخلت نہ کی اور الیکشن شفاف ہوئے اتو
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ بھی کرسکنے کے
باوجودسب سے آگے رہے گی اور اس کو ملنے والی نشستوں کی تعداد14 سے18 ، مسلم
لیگ( ن) کو11 سے 16 ،مسلم کانفرنس کو6 سے 8، متحدہ قومی موومنٹ کو ایک سے
دو، جماعت اسلامی کو ایک سے دو، جمعیت علماءاسلام کو ایک اور آزاد
امیدواروں کو2سے 3 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن
آف آزاد کشمیر نے بعض وجوہ کی بناءمہاجرین کی تین نشستوں پر انتخابات ملتوی
کردیے ہیں۔ جن میں ایل اے 30 جموں 1، ایل اے 36 وادی 1 اور ایل اے 41شامل
ہیں یہ نشستیں بالترتیب سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں واقع ہےں۔ اس
طرح آج 41 کی بجائے 38 نشستوں پر پولنگ ہوگی اور امکان ہے کہ کسی بھی سیاسی
جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے آزاد کشمیر کی آیندہ اسمبلی
بھی میوزیکل چیئر دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم نواز شریف مخالفت میں پاکستان
پیپلزپارٹی، مسلم کانفرنس اور متحدہ قومی موومنٹ متحد ہوکر حکومت بنانے کی
کوشش کریں گی۔ جو اس وقت بھی آزاد کشمیر کی حکومت کا کسی حد تک حصہ بھی
ہیں۔ 2006ءمیں ہونے والے عام انتخابات کے بعد آزاد کشمیر میں چار وزرائے
اعظم تبدیل ہوئے جو کشمیری سیاست میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے انتہائی منفی
نتائج مرتب ہوئے ہیں۔
آزاد کشمیر کو ریاست جموں وکشمیر کی آزادی کی تحریک کا بیس کیمپ کہا جاتا
ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں پر آنے والی حکومتوں نے کبھی بھی اپنے بیس کیمپ
ہونے کا کردار ادا نہیں کیا اور صرف اور صرف ایجنسیوں کے آلہ کار بننے کی
کوشش کی جاتی رہی تاکہ حکمرانی میں زیادہ سے زیادہ دن گزار ے جا سکیں۔ ہونا
تو یہ چاہئے تھا کہ آزاد کشمیر میں بننے والی حکومت مقبوضہ کشمیر اور گلگت
بلتستان کے حوالے سے بھی اپنی پالیسی بیس کیمپ کی حیثیت سے وضع کرتی۔ ریاست
کے تینوں منقسم حصوں کو ملانے کےلئے زمینی، فضائی اور مواصلاتی رابطوں کو
مضبوط اور مستحکم کیاجاتا۔ اگرچہ آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر اور گلگت
بلتستان و مقبوضہ کشمیر کے درمیان اس طرح کے رابطوں کےلئے مشکلات پیدا
ہوسکتی تھیں لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان دونوں پاکستان کے زیر انتظام
ہونے کی وجہ سے مشکلات پیدا نہیں ہوسکتی تھیں۔ بدقسمتی سے 64 سالہ گزرنے کے
باوجود ریاست جموں وکشمیر کے ان دوآزاد خطوں کے درمیان کوئی فضائی یا زمینی
مضبوط رابطہ ہی نہیں ہے۔ جن رابطوں پر انحصار کیا جارہا ہے وہ 1947ءسے پہلے
کے ہیں۔ اگر ہم آزاد کشمیر میں بننے والی حکومتوں کے ماضی کا جائزہ لیں تو
سوائے نااہلی اور اقربا پروری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس
مرتبہ بھی آزاد کشمیر کے انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں نے اپنے
انتخابی منشور میں منقسم حصوں کے مابین رابطوں اور اختلاف رائے کو دور کرنے
کےلئے کوئی اہم نقطہ شامل نہیں کیا۔ ان جماعتوں کے منشور میں شامل نکات
اکثر صرف الیکشن جیتنے کا حربہ ہی نظر آتے ہیں تاہم مسلم لیگ (ن )کچھ
معاملات میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے۔ چند ماہ قبل گلگت بلتستان کے ضلع
استور سے تعلق رکھنے والے ایک وفد نے بھی آزاد کشمیر کی قیادت سے ملاقات کی
اور انہیں تجویز دی کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو زمینی رابطوں کے
ذریعے مربوط کرنے کےلئے وادی نیلم(تاﺅبٹ) اور وادی استور(قمری) کو مختلف
راستوں کے ذریعے ملایا جائے تاکہ ریاست کے رابطوں کو مضبوط کیا جاسکے۔ اس
وفد میں مسلم لیگ ضلع استور کے صدر رانافرمان علی، عبدالرحمن ثاقب،رانا
فاروق اور دیگر شامل تھے اور مسلم لیگ( ن) کے مرکزی رہنما راجہ فاروق حیدر
نے اس وفد سے ملاقات کے دوران یہ وعدہ کیا کہ وہ کامیاب ہوئے تو ریاست کے
دونوں حصوں کے مابین پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اپنا
بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام آج اپنا
فیصلہ کس کے حق میں دیتے ہیں۔ |