عدالتی فیصلے ، ہمارے رویے اور اس کے مختلف عوامل

کچھ معاملات ملکی اور قومی سطح کے ہوتے ہیں جن پر انتہائی سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو اگر غیر سنجیدہ ہاتھوں میں دے دیا جائے تو نتائج کبھی بھی اچھے نہیں نکلتے ۔

آجکل سوشل میڈیا پر جسٹس فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد تجزیے اور تبصرے ہو رہے ہیں جن میں کچھ کے اندر تو انتہائی غیر شائستہ رویوں کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ میں نے بھی چند حقائق پر مشتمل چند پیروں کی ایک تحریر لکھی تھی جس پر کئی صاحبان نے کچھ کلپس اور تبصرے بھی شئیر کئے تو آئیے آج اس کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں ۔

سب سے پہلے تو میں ایک بات واضح کر دوں کہ میرا لکھنے کا مطلب قطعاً بھی کسی کی دل آزاری نہیں ہوتا بلکہ غیرجانبدارانہ طور پر اپنی رائے کو دوستون کے ساتھ شئیر کرنا اور کمنٹس پر جواب دینا بھی حقائق کو دلائل کے ساتھ بیان کرنا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوتا ہے ۔ اختلاف ہر کسی کا حق ہوتا ہے مگر ہمیں کبھی بھی شائستگی اور غیر جانبداری سے نہیں ہٹنا چاہیے ۔

جب ہر کوئی عدالتی فیصلوں کے خلاف بول رہا ہو تو اس سے دو باتوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یا تو لوگوں کے اندر برداشت ختم ہوچکی ہے اور وہ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلوں کی توقع کرتے ہیں اور ان کے خلاف فیصلہ آنے سے وہ اس پر تنقید کرنا شروع کردیتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ لوگوں کا عدالتی نظام سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔

اب جہاں تک اعتماد اٹھ جانے کی بات ہے تو یقیناً اس سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے عدالتی نظام کے اندر ایسی کئی خامیاں ہیں جن کو نہ صرف عام آدمی بلکہ ہمارے عدالتی نظام کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ ، حتیٰ کہ ججز صاحبان خود بھی مانتے ہیں مثلاً فیصلوں میں تاخیر وغیرہ اور تاریخ میں کچھ ایسے فیصلے بھی ہوئے جن کو قانونی ماہرین نے ہماری تاریخی بدقسمتی کرار دیا جنہوں نے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچایا اور لوگوں کا عدالتی نظام سے اعتماد اٹھ جانے کی ایک بہت بڑی وجہ یقیناً یہ بھی ہے ۔

اسی طرح اگر بین الاقوامی سطح پر ہم دنیا کے ملکوں میں اپنے عدالتی نظام کی سطح دیکھیں تو ہم بہت ہی بیچھے ہیں ۔ بہرحال

جسے میں نے کہا کہ لوگ اپنی مرضی کا فیصلہ نہ آجانے سے اس پر تنقید کرتے ہیں اور یقیناً ایسا ہوتا ہے جو قدرتی عمل بھی ہے کسی بھی مقدمہ کے اندر دو حریف ہوتے ہیں اور ان میں سے جس کے خلاف فیصلہ آجائے وہ یقیناً اس پر تنقید کرے گا جو اس کو حق بھی پہنچتا ہے اور قانون نے خود ہی اس کی دادرسی کے لئے نظام بھی مہیا کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل یا نظر ثانی وغیرہ میں جاسکتا ہے ۔

ماضی اور حال دونوں میں کچھ ایسے فیصلے آئے جن کو نہ تو ملکی سطح پر اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر قانونی ماہرین نے سراہا بلکہ اس کی مذمت بھی کی گئی ۔ اور اس طرح کے فیصلوں میں ملوث لوگوں کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہوئی اور جن لوگوں نے ملکی مفاد کے حق میں تاریخی فیصلے دئے ان کی قوم کے دلوں میں محبت آج بھی زندہ ہے ۔

اگر کسی طرح سے ہمارے ملکی مفاد کے خلاف بھی فیصلے آتے ہیں تو ایسی صورتحال میں بھی آئین کے دئے ہوئے اصولوں سے کبھی بھی بغاوت نہیں کی جاسکتی اور ان فیصلوں اور عناصر کا سدباب بھی آئینی حدود کے اندر رہ کر ہی کیا جاسکتا ہے ۔

اب ہم آتے ہیں اس حساس معاملے کی طرف جو عدالتی فیصلوں پر ہر کسی کے تنقید کرنے کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ اس وقت ایک انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر لیتا ہے جب ماورائے آئین اور غیر شائستہ الفاظ میں بد زبانی یا بد اخلاقی کی نظر ہوجاتا ہے ۔

جب ہر کوئی ملکی سطح کے فیصلوں پر تنقید شروع کردیتا ہے تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ معاملہ ٹھیک ہے یا نہیں اور اگر ٹھیک نہیں تو اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس کا کس طرح سے سدباب کیا جاسکتا ہے ۔

اب اگر تو یہ تنقید کوئی قانونی ماہر اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر کر رہا ہے تو اس کو اس کا حق پہنچتا ہے اور اگر ہر کوئی چورن بیچنے والا ، چوکیدار ، رکشہ ڈرایئور ، جدید دور کا مراثی اور مداری ، اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے عدالتی نظام اور ججز کے متعلق بکواس بک رہا ہو تو یہ تنقید یقیناً کوئی جواز نہیں رکھتی اور اسے جہالت ، کم ظرفی اور قوم کی اخلاقی تباہی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا

ایسی صورتحال میں مفاد پرست قوتیں تو اپنے فائدے اٹھاتی ہیں مگر ملک و قوم ایسی صورتحال میں نقصان میں جاتے ہیں ۔

سوشل میڈیا کا غیر سنجیدہ اور ناخواندہ معاشرے کے ہاتھوں استعمال ہونا ایسے ہی جیسے گنجے کے ناخن وہ اپنے سر کو ہی زخمی کر بیٹتھا ہے ۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ہر کوئی ارسطو بنا بیٹھا ہے اور معاشرہ تباہ ہوتا جارہا ہے ۔ اور یہ شر پسند عناصر ایک خاص بے وقوف طبقے کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ۔ ہر کوئی انہی کی داد پر اپنی ہٹی سجا کر اپنا چورن بیچ رہا ہے اور یہ بے وقوفون کو بھی اپنی انا اور جہالت کو تسکین دینے کی خاطر ان جاہل جادوگروں کی صورت پیشوا ملے ہوئے ہیں جو ان کی احمقانہ بحث کے لئے مواد مہیا کئے ہوئے ہیں ۔ اس طرح سے ہم مزاج طبقہ اپنی اپنی جگہ محو شیطنت ہے ۔

“کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز”

اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ایک ذمہ داری شہری ہونے کے سبب ہم دیکھیں کہ کون کس کیٹگری میں آتا ہے اور ہمیں اپنے ملک سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس طرح کے غیر ذمہ داران کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے نہ کہ تماشائیوں کی طرح ہلہ شابہ شروع کردیں ۔

اس معاملے میں عدلیہ کو خود بھی نوٹس لے کر آئینی طریقہ کار کی روشنی میں کوئی ایسا لائحہ عمل بنانے اور اس پر عمل کرنے کے اصول وضع کرکے ملکی اطلاعاتی نظام کو اس کا پابند کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ قانون کی مدد سے ایسے ملک و قوم دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 115029 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More