بھولا ہوا سبق یاد آیا

’’اوبھراگامیاتوتے آزادہوگیاپراسی تے ہمیشہ لئی غلام ہوگئے،اج اسی اپنے پرکھاں اگے بڑے شرمندہ ہاں”۔(او بھائی گامیا”غلام محمد”تم توآزاد ہو گئے لیکن ہم ہمیشہ کیلئے غلام ہوگئے ہیں اوراپنے بزرگوں سے شرمندہ ہیں۔یہ رقت آمیزمنظرآج آپ کے سوال کے بعدمیری آنکھوں کے سامنے آج پھرتازہ ہوگیاجس نے1992ء میں ہردیکھنے والے کوآبدیدہ کردیاتھاجب ساراگاؤں دودیرینہ دوستوں باباغلام محمداورباباہرنام سنگھ کی نہ رکنے والی آووزاریاں اورسسکیوں کے ساتھ بے اختیاربہتے آنسوؤں کے ساتھ سفیدداڑھیوں کوترہوتے ہوئےدیکھ رہاتھا۔یہ دونوں دوست قیام ِپاکستان کے 45سالوں کے بعدپہلی مرتبہ مل رہے تھے اورہرنام سنگھ اورباباغلام محمداس پیرانہ سالی میں ایک دوسرے کواس طرح مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے اندرضم ہوجائیں گے۔مسلم سکھ دوستی کی اس مشترکہ میراث کوظالم طاقتوں نے جداتوکردیالیکن ان کی محبت والفت کوپانچ دہائیوں کا فراق اورمضبوط کردے گا،اس کی کسی کوبھی توقع نہ تھی۔

سکھ مذہب کے بانی اورپہلے گرو”بابا نانک”15/اپریل1469ءلاہوراورشیخوپورہ کے وسط ایک گاؤں بھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ) میں ایک کھتری نسل کے ہندوکلیان چاندداس بیدی”جو”کالومٹھا”کے نام سے مشہورتھے،کے گھرمیں پیدا ہوئے۔اس وقت ہندوستان پرسلطان لودھی کی حکومت تھی۔باباگرونانک کے والدعلاقے کے ایک مسلمان جاگیرداررائے بلوار بھٹی کے ہاں پٹواری تھے لیکن ان کی ساری عمرہندوؤں کی تہذیب وتمدن اوررسم ورواج کے خلاف گزری۔باباگرونانک کابچپن ان کی ہمشیرہ کے سسرال میں گزرا۔ان کی ہمشیرہ کانام”بے بے نانکی” تھا۔سکھ روایات کے مطابق پانچ سال کی عمر سے ہی باباجی مذہبی کہانیوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔۔باباکے بہنوئی لاہورمیں گورنرکے ہاں ناظم جائداد کی حیثیت سے ملازم تھے،سرکاری امورکی ادائیگی میں باباجی اپنے بہنوئی کاہاتھ بھی بٹاتے تھے ۔ بابا گرونانک کے اس مذہبی رحجان نے سب سے پہلے ان کی ہمشیرہ”بے بے نانکی”کواس قدرمتاثرکیاکہ انہوں نے باباگرونانک کواپناروحانی پیشواتسلیم کرلیا۔

گرونانک کوتعلیم دلوانے کاانتظام خودان کے والدنے کیااورانہیں سات سال کی عمرمیں روایتی تعلیم کیلئےاسکول میں داخل کروادیا۔فطری ذہانت کے باعث بہت جلداپنے ہم جولیوں سے آگے نکل گئے۔نوسال کی عمرمیں جب پروہت نے ایک مذہبی تقریب میں جانونامی دھاگا پہناناچاہاتو انہوں نے اس رسم کواداکرنے سے انکارکردیاگویاان کے اندرتوحیدکی ایسی کوئی کرن چھپی ہوئی تھی جس نے ان کوایسے انکارکی طاقت فراہم کی۔بعدازاں انہیں ایک مسلمان معلم سیدحسن کے ہاں بٹھایا۔سیدحسن کو’’قطب الدین‘‘اور’’رکن الدین‘‘کے نام سے بھی پکاراجاتاہے۔سیدحسن نے نانک کوہونہاردیکھ کران کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی چنانچہ بچپن ہی سے گورو نانک اسلامی عقائد سے واقف ہوگئے۔ اپنی ذہانت کے بل بوتے پرسنسکرت کے علاوہ عربی اورفارسی پران کومکمل عبورحاصل ہوگیا۔صوفیاءکرام کاکلام پڑھنے لگے اوراس کاپنجابی میں ترجمہ کرنے لگے۔(گروگرنتھ صاحب اردو،ص532بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص57۔58)

گرونانک اسلام کے فلسفہ توحید سے بے حدمتاثرتھے اوربت پرستوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔’’گوروگرنتھ صاحب ‘‘میں اس حقیقت کا اظہار کچھ اس اندازمیں کرتے ہیں۔
صاحب میراایکوہے
ایکوہے بھائی ایکوہے
آپے مارے آپے چھوڑے
آپ لیو،دیئے
آپے دیکھے،وگے
آپ نذرکریئے
جوکچھ کرناسوکررہیا
اورنہ کرنا،جائی
جیسادرتے تیسوکہیے
سب تیری وڈیائی

ترجمہ:میرا مالک ایک ہے،ہاں ہاں بھائی وہ ایک ہے۔وہی مارنے والااورزندہ کرنے والا ہے۔وہی دے کرخوش ہوتا،وہی جس پر چاہتاہے اپنے فضلوں کی بارش کردیتاہے۔وہ جوچاہتاہے کرتاہے،اس کے بغیراورکوئی بھی کرنہیں سکتا۔جوکچھ دنیامیں ہو رہاہے ہم وہی بیان کرتے ہیں ہرچیزاس کی حمدبپا کررہی ہے۔(پروفیسرجی این امجد،ایم اے:گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت مطبوعہ لاہور،1982ءص8تا13)
باباگرونانک کایہ بچپن سے معمول تھا کہ وہ سورج نکلنے سے قبل گھرکے قریب ندی کے ٹھنڈے پانی میں اترجاتے اوروہاں خدائے واحد کی حمد بیان کرتے تھے۔سکھ روایات کے مطابق1499ءتیس سال کی عمرمیں باباجی نے گاؤں کے قریب”کالی بین ”ندی میں ایک گہراغوطہ لگایااورجب کافی دیرتک اپنے دوستوں کے پکارنے پربھی پانی کی سطح پرنہ آئے تودوستوں کو بڑی تشویش ہوئی۔گاؤں میں موجوددولت نامی مسلمان غوطہ خورنے ندی کاوہ خاص حصہ چھان مارالیکن باباجی کاکوئی سراغ نہ مل سکا۔گاؤں والوں کوباباجی کے ڈوب جانے کاقطعی یقین ہوگیالیکن تین دن کے بعد باباجی اچانک اپنے گھرلوٹ آئے لیکن ایک دن مکمل خاموش رہے۔اگلے دن لوگوں کے بے انتہااصرارپراپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولے:
’’نہ کوئی مسلمان ہے اورنہ ہی کوئی ہندوہے،توپھرمیں کس کے راستے پرچلوں؟؟؟میں توبس خدا کے راستے پرچلوں گاجونہ مسلمان ہے نہ ہندوہے” ۔انہوں نے اپنے غائب ہونے کی بابت یہ بھی بتایا کہ ان تین دنوں میں انہیں خداکے دربار میں لے جایاگیا جہاں انہیں”امرت”خدائے واحد کی محبت کاجام پلایا گیاجہاں انعام کے طورپرخدانے اپنی رحمتوں اوربالادستی کاوعدہ فرمایا۔ خدانے اسی توحید کے پیغام پرعمل کرنے اوردوسروں کو پہنچانے کاحکم بھی دیا۔

آغازمیں گرونانک نواب دولت خان کے ہاں مال زکوٰۃ کے منشی مقررہوئے۔تیس سال کی عمر میں نہ صرف ملازمت چھوڑ دی بلکہ گھربارکوبھی خیربادکہہ دیا۔جس کے بعدباباجی نے فوری طورپراپنی کل جمع پونجی غریبوں میں تقسیم کردی اور اپنے بہت ہی قریبی دومسلمان دوستوں”بالا مطرب اورمردانہ” کے ہمراہ اسی توحیدی عقائد کی ترویج کیلئے گاؤں چھوڑکر ایک لمبے سفرپرروانہ ہوگئے۔ ہندوستان،لنکا،ایران وعرب اور دیگر علاقوں کی چالیس سال تک سیروسیاحت کے دوران ان ملکوں میں مقدس مقامات کی زیارت کی۔
سکھ روایات کے مطابق باباگرونانک کے پہلے چارطویل سفروں(اداسی)میں بلا شبہ ہزاروں میل کی طویل مسافت میں”توحید” یعنی خدائے واحد کے سچے پیغام کادرس مقصودرہا۔بنگال سے آسام،تامل ناڈو،کشمیر،لداخ،تبت اورآخری مشہورسفربغداد سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے علاوہ دیگرعرب ممالک بھی اپنے عقیدے کے پرچارمیں مشغول رہے۔ان کا آخری اورپانچواں سفراندرون پنجاب رہا جہاں انہوں نے بے شمار مریدوں کوبت پرستی کی لعنت سے آگاہ کرتے ہوئے توحید کی طرف مائل کیااوراس پیغام میں ان کے دو مسلمان ساتھی” بالا اورمردانہ” ان کے پیغام کوگیت اورسنگیت کی شکل میں ڈھال کرلوگوں کومتوجہ کرتے تھے۔باباگرونانک نے ابتدائی تعلیمات میں سب سے پہلے جھوٹ کوترک کرنے، مذہب کی غیر ضروری رسومات سے پرہیز،مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے کے اصول اوربغیر کسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایااوراس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرچھپے ہوئے پانچ خطرناک امراض،چھپے ہوئے چوروں تکبر،غصہ،لالچ،ناجائز خواہشات اورشہوت سے مکمل پرہیزکاحکم دیاگویاتوحید کادرس اورپانچ امراض کی نشاندہی یقیناًاسلام کے وہ بنیادی سنہری اصول ہیں جن سے بابا گرونانک اس قدر متاثرہوئے کہ انہوں نے بھی اپنے عقیدت مندوں کیلئے ان کو ضروری جانا۔

انہوں نے سکھ مذہب کی مکمل عمارت تین ایسے بہترین رہنماستونوں پراستوارکی جس سے ان کی مذہب اسلام سے محبت اور یکسانیت کاپتہ چلتا ہے:
1۔نام جپنا:اس سے مرادخدا کانام لیتے رہنا،اس کے گیت گاتے رہنااورہر وقت اسی کوذہن وزبان میں تازہ رکھناہے۔جبکہ قرآن ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ”اے اہل ایمان خداکاکثرت سے ذکرکیاکرو۔(احزاب:41)
2۔کرت کرنی:اس سے مراددیانت داری سے محنت کر کے رزق حلال کماناہے جبکہ اللہ نے قرآن کریم میں دعاؤں کی قبولیت کی اولین شرط رزق حلا ل کوقراردیاہے۔پس خدا نے جو تم کو حلال طیّب رزق دیا ہے اسے کھاؤ (النحل:114)
3۔ونڈچھکنا:اس سے مراددولت کوبانٹناہے اورمل جل کرکھاناہے۔قرآن ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ”بیشک صدقات(زکوة)محض غریبوں اورمحتاجوں اوران کی وصولی پرمقررکئے گئے کارکنوں اورایسے لوگوں کیلئےہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیداکرنامقصودہواور(مزید یہ کہ)انسانی گردنوں کو(غلامی کی زندگی سے)آزادکرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اوراللہ کی راہ میں(جہاد کرنے والوں پر)اورمسافروں پرزکوة کاخرچ کیاجاناحق ہے یہ سب اللہ کی طرف سے فرض کیاگیاہے،اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے”۔(توبہ:60)۔گویاباباگرونانک کے وضع کردہ سکھ مذہب کے تینوں بنیادی اصول قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔

گرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ واحدانیت،تصوف اورروحانیت کاپرچارک بھی ہیں۔آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی پیشوا حضرت بابافریدگنج شکرکے ہمعصر تھے۔اپنے طویل تبلیغی سفروں میں باباگرونانک کوکئی جید مسلمان عالم مبلغوں کے ساتھ ملاقات اورمکالمے کے کئی مواقع ملے۔ہمیشہ سے صوفی منش مبلغ مسلمان اپنے مدارس اورخانقاہوں پر غریبوں کے مفت کھانے پینے کاخصوصی اہتمام کرتے چلے آئے ہیں جوابھی تک جاری وساری ہے جس کوعرفِ عام میں لنگرکانام دیاجاتاہے۔باباگرونانک نے بھی اپنے طویل سفرکرنے کے بعدبقیہ زندگی گزارنے کیلئے 1522ءمیں کرتارپورگاؤں کی بنیادرکھی( جو بھارت اورپاکستان کی سرحد پرپاکستان میں واقع ہے)جہاں ”کرتان اورلنگر”کی تقریبات کا آغاز کرتے ہوئے اپنے عقائدکی ترویج وتبلیغ کے ساتھ ساتھ غریبوں کومفت کھانے پینے کی سہولت فراہم کی۔سکھ مورخین کے مطابق اس دھارمک بستی کیلئے ایک خطیررقم کے علاوہ زمین جوکئی گاؤں پر مشتمل تھی،جہانگیربادشاہ نے اپنی شہزادگی کے دوران ہی گروارجن صاحب کونذرکردی تھی ۔اس جگہ پرگروصاحب نے ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔مشہورسکھ سکالرگیانی گیان سنگھ کے مطابق کرتار پورکوآبادکرنے کی تحریک ایک مسلمان میرعظیم خان نے شروع کی تھی اورکرتارپور پنجاب کی ایک مقدس بستی بن گئی تھی ۔اکبربادشاہ باباگرونانک سے خصوصی محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نےکرتارپورکیلئے ساری زمین تحفہ میں دی تھی۔

اسی طرح امرتسرشہرکی ابتداکے بارے میں یہ ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبرنے امرتسرکا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشوا گرورام داس کودے دیاتھااوررام داس نے یہاں رام داس پورکی بنیادڈالی جس کانام بعد میں امرتسرہوالیکن یہ بھی کہاجاتاہے کہ شہنشاہ اکبرنے1565ءمیں گروامرداس اورپھر1579ءمیں گرورام داس اور1606ء میں گروارجن دیوکوعلاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیاتھا۔گروامرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں ملتاہے کہ جاگیرقبول کرنے سے انکارکے بعداکبرنے وہ جاگیرجس پرامرتسر قائم ہوا،امرداس کی بیٹی”بی بی بھانی” کوشادی کے تحفے کے طورپردے دی تھی جس سے امرداس انکارنہ کرسکے،مزیدیہ کہ اکبرنے سکھوں کے تمام علاقوں کو محصول اداکرنے سے آزادکردیاتھا۔امرتسرکیلئےپرانے نام رام داس پورکے علاوہ گروچک اوررام داس چک بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کرتارپور(پاکستان)میں1539ءمیں اپنے انتقال سے قبل گرونانک نے گروانگددیوکونیاگرونامزدکردیاتھاپھر تیسرے گروامرداس (1479ء تا1574ء) کے بعدآنے والے چوتھے گرورام داس1534ءتا1581ءنے امرتسرکے پرانے تالاب کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس کے درمیان میں ایک مندریا گردوارادربارصاحب تعمیرکیاجس کوہری مندربھی کہاجاتا ہے۔ شہنشاہ اکبراوراس کے بعدبھی عمومی تعلقات رام داس پور(امرتسر)سے نہ صرف اچھے رہے بلکہ مغلیہ سلطنت میں رام داس پورکی حیثیت نیم خودمختارعلاقے کی سی تھی۔

امرتسر میں واقع دربارصاحب کیلئے زمین بھی اکبربادشاہ نے ہی دی تھی۔1589ءمیں لاہور کے نیک سیرت فقیراورمشہور خدا رسیدہ بزرگ حضرت میاں میرصاحب نے اس کاسنگ بنیاد رکھا۔گوروارجن جی کاپیارسب سے زیادہ میاں میرجی سے تھا یہ مسلمان فقیرتھے،جن کے ہاتھوں گرو جی نے ہرمندرصاحب”دربارصاحب” کی بنیادرکھوائی تھی(بحوالہ رسال ہنویاں قیمتاں جنوری1949)۔ گوروصاحب نے صرف اس پوتر استھان کی بنیادہی ایک پوترمسلمان کے ہاتھوں سے نہیں رکھوائی بلکہ زمین بھی ہرمندرکے لئے وہ چنی جوایک مسلمان بادشاہ اکبرکی طرف سے نذر کی گئی تھی۔(بحوالہ بھارتی راشٹریہ کانگریس امرتسر1956ء)۔اس بارے میں ایک سکھ ودوان یوں لکھتے ہیں:1923ءمیں جب تالاب کی سیوا کی گئی تھی تومالیرکوٹلہ کے نواب کی جتھے داری کے ماتحت دوسوانتہائی معززمسلمان پوترگارے کی ٹوکریاں اٹھانے کیلئے امرتسرآئے تھے۔بحوالہ رسالہ خالصہ پارلیمنٹ گزٹ اکتوبر 1956 ء
بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس کا سنہری جڑاؤبھی ایک مسلمان انجینئرمحمدیارخان نے تیارکیاتھا۔ایک مشہورسکھ سکالرسردار گور بخش سنگھ شمشیرلکھتے ہیں:
ایک مسلمان فقیرحاجی محمدمسکین باباگرونانک کے پیارکی کشش میں امرتسر آئے اور31دسمبر1925ءکودن کے دوبجے انہوں نے ایک بہت قیمتی چندن کاچنوربڑی عقیدت سے بھائی ہیراسنگھ راگی کی معرفت دربارصاحب کی نذرکیا۔اس نانک پریمی مسلمان نے یہ چندن کاچنورپانچ برس اورسات مہینے کی محنت سے تیارکیاتھاجس کی ایک لاکھ پینتالیس ہزارباریک تاریں ہیں۔ان کو9من14سیرچندن میں سے تیارکیاگیاتھا۔آج کل یہ چنوربڑی حفاظت کے ساتھ جلوخانے میں رکھاہواہے جب یہ چندن کاچنورفقیرنے نذرکیاتھاتوسری ہرمندرکی طرف سے ایک سوپونڈکے قیمتی دوشالے ان کوبطورخلعت دیئے گئے تھے (بحوالہ رسالہ امرتسرمئی1938)۔سکھوں کی ایک مقدس زیارت پنجہ صاحب پاکستان کے ضمن میں ایک سکھ سکالرگیانی گیان سنگھ یوں لکھتے ہیں:پنجہ صاحب کاتالاب خواجہ شمس الدین صاحب نے بنوایاتھا۔وہاں پرموجودگوردوارہ کومشہور مسلمان نواب خان آف قلات نے ایک وسیع جاگیرعطاکی تھی۔(بحوالہ گوردھام سنگرہ ص22)

گوروگوبندسنگھ صاحب کواپنے زمانے کے مسلمان رئیسوں اورعام لوگوں کے ساتھ نہایت دوستانہ تعلقات تھے۔چنانچہ میر گامے شاہ،میرحسن شاہ، چودھری پیرعلی،بلونت خان،چودھری پھتو،چودھری سمو،جمال خان وغیرہ آپ کے جگری دوستوں میں سے تھے اورآپ کی سیواکرتے تھے۔سکھ مورخین نے لکھاہے کہ پٹنہ(بہار)میں وہاں کے قاضیوں نے گوروتیغ بہادر صاحب کوایک باغ نذرکیاتھاجسے آج کل گوروکاباغ کہتے ہیں۔بہادرگڑھ (پٹیالہ)میں گوروتیغ بہادرصاحب کئی ماہ ٹھہرے تو وہاں پرایک مسلمان علی خان نے دل وجاں سے آپ کی بہت خدمت وتکریم کی۔متھراکے نواب نے گوروگوبند صاحب کو ایک باغ نذرکیاتھاجسے آج کل نذرباغ کہاجاتاہے۔

بہت سے سکھ مورخین کے علاوہ ایک اورمشہورسکھ سکالرسردارگیان سنگھ لکھتے ہیں:جب پہاڑی راجاؤں اورمہاراجوں نے گروگوبندصاحب کے خلاف مورچہ شروع کیاتوپانچ سواداسی سادھوجن کی گورو صاحب کی روٹیوں پرپرورش ہوئی تھی، موقعہ آنے پرمیدان سے بھاگ گئے جب بدھو شاہ کومعلوم ہواتووہ دوہزار سپاہی لیکرمیدانِ جنگ میں آیااوراس لڑائی میں بدھو شاہ کے دوبیٹے بھی گوروصاحب کی طرف لڑتے ہوئے مارے گئے جس کانتیجہ میں گوروگوبند صاحب کوآنندپورصاحب چھوڑناپڑااورآپ ماچھی واڑہ کے جنگلوں میں چلے گئے اورمسلمان حاجیوں جیسا لباس پہنناپڑا۔ اس موقعہ پرسب سے پہلے غنی خان اورنبی خان نے گوروصاحب کی سیواکیلئے خودکوپیش کیااورانہوں نے گوروصاحب کوپالکی میں بٹھاکرانہیں اپنے کندھوں پراٹھالیا۔اس طرح ان دوبھائیوں نے گوروگوبندسنگھ صاحب کودشمنوں سے بچاکے محفوظ مقام پرلے گئے۔غنی خان اورنبی خان کی اس خدمت پرگوروصاحب انہیں ایک حکم نامہ دے دیاجن میں انہوں نے لکھا کہ نبی خان اورغنی خان مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارے ہیں۔اس واقعہ کاحوالہ سکھوں کی مختلف کتابوں میں درج ہے جن میں گوروپرتاپ سورج گرنتھ ورت،ظفرنامہ سٹیک،جیون کتھااور سکھ اتہاس نامی کتابیں قابل ذکر ہیں۔(بحوالہ تواریخ گوروخالصہ اردو ص158)سکھ مورخین بتاتے ہیں کہ گوروگوبندصاحب کی پہاڑی راجاؤں کے ساتھ جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں ان میں گورو صاحب کی طرف سے بہت سے مسلمان کمانڈربھی شامل رہے اوران لڑائیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ان کمانڈروں میں یدبیگ،الف خان،صیاد خان،صیاد بیگ،میمون خان وغیرہ شامل تھے۔

سکھ مورخین نے دعویٰ کیاہے کہ مغلوں کے آخری فرمانروابہادرشاہ ظفرنے گوروگوبندصاحب کواسلام کی ایک برگزیدہ شخصیت کی ایک یادگار اور متبرک تلوارنذرکی تھی۔جوآج بھی سری کیس گڑھ آنندپورمیں موجودہے۔مذکورہ ایک سکھ وِدوان نے رسالہ سنت پاہی(اگست1951) میں تحریرکیاہے کہ سکھ ودوان سردارکاہن سنگھ کے مطابق اس تلوارکے ایک طرف کلمہ طیبہ اوردوسری طرف”نصرمن اللہ وفتح قریب” لکھاہے۔ مسلمانوں نے اپنی نہایت مقدس اورلاثانی چیزبھی گوروصاحب کوعطا کی تھی۔اس بات سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مسلمان آپ کی کتنی عزت کرتے تھے اورمسلمانوں اورسکھوں کے درمیان کس قدرخوشگوارتعلقات رہے ہیں۔مغل بادشاہوں کے ساتھ گورو صاحبان کے کس قسم کے خوشگوار تعلقات تھے،اس کااندازہ لگانے کیلئے اوپردرج کئے گئے واقعات نہایت چشم کشاہیں۔جہاں مسلمان بادشاہوں، نوابوں،رئیسوں،فقیروں اور صوفیوں نے گورو صاحبان کے ساتھ نہایت دوستانہ اوربرادرانہ تعلقات قائم کئے تھے وہاں سکھ صاحبان نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ اور خوشگوارتعلقات قائم رکھے ہیں۔چنانچہ گوروصاحب نے اپنے خرچے سے کرتارپورہرگوبندپور اورامرتسر وغیرہ جگہوں پرعالی شان مسجدیں بنائی ہیں۔

بابا کے جانشین گوروانگدنے ان کی تعلیمات کوعام کرنے کیلئےقدیم کلاسیکی پنجابی زبان میں گرمکھی رسم الخط کومتعارف کرایا۔1551ءمیں امر داس تیسرے گورو منتخب ہوئے ان کی 1574ءمیں وفات کے بعدچوتھے گورورام داس نے امرتسرکی بستی آبادکی،جس کیلئے شہنشاہ اکبرنے اخراجات اداکرنے کے علاوہ 500بیگھے زمین بھی وقف کی۔رام داس کی وفات کے بعد1581ءمیں ان کابیٹاگوروارجن جانشین منتخب ہوئے۔ گورو ارجن دیونے ہی سکھوں کی مقدس کتاب”گوروگرنتھ” مرتب کی جس میں پہلے پانچ گروؤں کی(1469ءسے لیکر1708ءتک239 سال پرمحیط تعلیمات)کوگرمکھی زبان میں ہی تحریرکیاگیا ہے ۔ یہ3381/اشعارپرمشتمل ہے جوکہ ہندوؤں کی مقدس کتاب”رگ وید”سے تقریباتین گنابڑی ہے ۔اس میں باباگورونانک،بھگت کبیر اور بابافریدکے اشعارشامل ہیں۔

یہاں میں آپ کوبتاتاچلوں کہ سکھ قوم سمیت ہم مسلمانوں بھی جب”گرنتھ صاحب”میں ایسے اشعار پڑھتے ہیں جس کے ہرشعر کے آخرمیں “فرید” تخلص ملتاہے توہماراخیال فوراًپاک پتن میں مدفون حضرت شیخ فرید الدین کی طرف جاتاہے جبکہ یہ اشعار حضرت ابراہیم فریدچشتی کے ہیں جوبابافریدالدین کی بارہویں پشت سے تھے۔کیونکہ باباگورونانک باباغلام فریدکی تعلیم سے بہت متاثرتھے اس لئے ہمیں”گرنتھ صاحب”حضرت ابراہیم فریدچشتی کی شاعری سے لبریزملتی ہے۔

سکھوں کے تمام مذہبی مقامات گوردواروں میں یہ کتاب موجودرہتی ہے اورمذہبی تہواروں کے مواقع پراس کتاب کے اہم مندرجات پڑھ کراور گاکر سامعین کوسنائے جاتے ہیں۔اس کتاب میں سکھوں کے خداکی جوپہچان بتائی گئی ہے وہ بعینہ قرآن مجید کی دی ہوئی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔آج سکھ مذہب کے تمام افرادکثرت سے”ست سری اکال”(سچا،بڑا،خدا)کادعائیہ جملہ استعمال کرتے ہیں جس کاترجمہ حیرت انگیزطورپر ”اللہ اکبر” ہے اورسکھوں کاسب سے بڑانعرہ”واہگوروکاخالصہ واہگوروکی فتح”(اللہ کے مومن کی ہی جیت ہے)بھی قرآن کریم کی مشہورآئت”اے نبیؐ ﷺ،ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کردی” کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔چنانچہ دنیاکے دومذاہب اسلام اورسکھ مذہب ایسے مذاہب ہیں جن کے ہاں خدائی کاتصور شرک سے پاک ہے۔

گرونانک کاوردہمیشہ’’ھو‘‘رہااورآپ کئی مرتبہ عالم استغراق میں چلے جاتے اورتوحیدبیان کرتے ہوئے اپنے ماننے والوں کو ایسے پندونصائح فرماتے جوکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ہوتے: گوڑھی سکھ منی میں واشگاف الفاظ میں”عبادت کے لائق صرف اﷲ ہی کوتسلیم کرتے ہیں”۔
ایکس کے گن گاؤاننت تن من جاپ،ایک بھگونت
حقیقی تعریف اورعبادت کے لائق،تن من سے اس کی عبادت کرنی چاہئے۔
(گوڑی سکھ منی محلہ1،ص430،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص62۔63)
ہمارے پیارے پیغمبرحضرت احمد مجبتیٰ محمد مصطفیﷺ کی رسالت کوان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
پاک پڑھیوس کلمہ ہکس دامحمدنال زملائے
ہویامعشوق خدائے داہویاتل علائے
مہنہ تے کلمہ آکھ کے دوئی دروغ کمائے
آگے محمد مصطفیٰ سکے نہ تنہاچھیڑائے
(جنم ساکھی بھائی بالا،ص141تا153،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص59)
چارآسمانی کتابوں پراپناایمان اس طرح بیان کرتے ہیں
م مرشد من توں،من کتاباں چار
من خدائے رسول نوں،سچائی دربار
(جنم ساکھی بھائی بالا،ص222،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص67)
ان چارکتابوں کے نام بھی گرونانک کی زبانی سنئے:
دیکھ توریت،انجیل نوں،زبورے فرقان
ایہوچارکتب ہیں،پڑھ کے ویکھ قرآن
(جنم ساکھی بھائی بالا،ص152،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص68)
قرآن کے بارے میں مزیدفرماتے ہیں:
تریہی حرف قرآن دے تہی سیپارے کیں
تس وچ بہت نصیحتاں سن کرکرویقین
(جنم ساکھی بھائی بالاوالی وڈی،ص440،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص67)
نمازپنجگانہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
پنج وقت نمازگزارے،پڑھے کتب قرآنا
نانک آکھے گورسدیہی،رہیوپیناکھانا
(گروگرنتھ صاحب،سری راگ محلہ اردو،ص32،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص66۔67)
نمازباجماعت کی تلقین ملاحظہ فرمایئے:
ج۔ جماعت جمع کر،پنج نمازگزار
باجھوں یاد خدائے دے،ہوسیں بہت خوار
(جنم ساکھی سری گرونانک جی،ص95،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت،ص49)
شراب بھنگ کے نشے کی مذمت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
نانک آکھے رکن الدین لکھیاوچ کتاب
درگاہ اندرمارئیں جوپیندے بھنگ شراب
(جنم ساکھی بھائی بالا،ص257،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت ص56)
مشہورہندوڈاکٹرتاراچندکااعتراف بھی ملاحظہ کرلیں:
“یہ حقیقت واضح ہے کہ گرونانک صاحب حضرت بانی اسلامﷺ کی تعلیم اوراسلام سے بے حدمتاثرتھے اورانہوں نے اپنے آپ کو اس رنگ میں پورے طورپررنگین کرلیاتھا”(گرونانک جوت تے سروپ،ص19،بحوالہ گرونانک جی اورتاریخ سکھ مت ص13)
بالآخرکرتارپورمیں ہی پیر22ستمبر1539ء(9جمادی الاوّل946ھ)کوصوفی منش باباگرونانک اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو داغِ مفارقت دیکر اسی ربّ ِکائنات کی طرف لوٹ گئے جس کاوہ دنیامیں پرچارکیاکرتے تھے۔ان کے جسدِخاکی کی آخری رسومات کیلئے ہندوؤں اور مسلمانوں میں ٹھن گئی توباباگرونانک کی وصیت کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیاکہ باباکے جسدِخاکی کے گردپھول رکھ دیئے جائیں،اگلے دن جن کے پھول تازہ ہوں گے وہی ان کی آخری رسومات کے حق دارہوں گے۔اگلے دن جب چادرہٹائی گئی تولاش غائب تھی اوردونوں اطراف کے پھول تروتازہ تھے۔چنانچہ ہندوؤں نے اپنے حصے کے پھولوں کو نذرآتش جبکہ مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھولوں کودفن کردیا،آج کرتارپورمیں دونوں کے مقامات موجود ہیں۔

سکھوں کے ہاں نومبرکے مہینے میں چوہدویں کے چاند کی رات کوان کاجشن پیدائش پر”اکاش دیواس”منایاجاتاہے،اس لحاظ سے ہرسال یہ تاریخ تبدیل ہوجاتی ہے چنانچہ گزشتہ برس2020ءکویہ تاریخ 30نومبرکوآئی جسے دنیابھرکے ہزاروں سکھوں نے بالخصوص ننکانہ پاکستان اوربالعموم ساری دنیامیں بڑی دھوم دھام سے منایا۔ہمیشہ کی طرح پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام نے دل کھول کران سکھوں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بابا گرونانک کی اہلیہ محترمہ سلاخانی سے ان کے دوبیٹے”سری چند”اور”لکشمی چند”تھے۔سکھ روایات کے مطابق سری چندبہت عابداورزاہد انسان تھے جن کی لمبی داڑھی اورسرکے طویل بال تھے۔سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہماراجسم خدا (اللہ، بھگوان،جسے بھی آپ خدامانتے ہیں)کی دین ہے اورہمیں اِسے ویساہی رکھناچاہئے جیساخدانے عطاکیاہے۔اس میں غیر فطری طریقوں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرنا چاہئے یہ خداکی ناشکری کے مترادف ہے۔اسی حکم کی وجہ سے پختہ عقیدے کے مالک سکھ اپنے جسم کے بال نہیں کٹواتے جبکہ لکشمی چندنے شادی کی اوران کے بھی دوبیٹے ہوئے۔باباگرو نانک نے اپنی تعلیمات سے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان مشترکہ مذہبی ہم آہنگی کی بے حدکوشش کی لیکن توحیدتونام ہی بت شکنی کاہے اسی لئے ایک اورنیاسکھ مذہب وجودمیں آگیا۔مسلمانوں کیلئے باباگرونانک کی تعلیمات قطعاًنئی نہیں کیونکہ یہ وہی تعلیمات ہیں جواس سے قبل آسمانی صحائف،قرآن کریم اورخاتم النبینﷺکی سیرتِ مبارکہ میں موجودہیں۔

لیکن کیاوجہ ہے کہ مسلمانوں اورسکھوں کے درمیان اس قدرمحبت واخوت کارشتہ استوارکرنے والے باباگرونانک کی تعلیمات کوپس پشت ڈال کر سکھوں اورمسلمانوں کے درمیان دشمنی اورنفرت کی ایسی فصیل کھڑی کردی گئی کہ آج کی نوجوان نسل کوآمنے سامنے کھڑاکردیا گیالیکن کیا وقت نے ان تمام سازشوں کوبے نقاب کردیاہے؟وہ کیاوجوہات تھیں کہ جن کی بدولت مسلم سکھ دوستی اوربرادرانہ تعلقات دشمنی اورنفرت میں تبدیل ہوگئے۔باباگرونانک سے مسلمانوں کی محبت اور عقیدت کایہ عالم کہ ان کی آخری رسومات کیلئے میدان میں اترآئے اوربالآخرباباکی وصیت کے مطابق ان کے حصہ میں جو تازہ پھول آئے ان کودفن کیاگیااورآج تک وہ جگہ مرجع خلائق ہے اوریہی وہ مقام ہے جس نے ابھی تک سکھوں اور مسلمانوں کومضبوط رشتے میں جکڑرکھاہے۔باباگرونانک کی بنیادی تعلیمات میں غریبوں،مسکینوں اورکمزورلوگوں کی حمائت کاسبق موجودہے جس کااسلام بھی بڑی سختی سے حکم دیتاہے۔بابا گرونانک نے جب کرتارپورکواپنی تعلیمات وتبلیغ کاذریعہ بنایاتو وہاں ہرخاص وعام کیلئے لنگر کاانتظام بھی اسی لئے کیا تاکہ وہاں غریبوں مسکینوں اور محتاجوں کوکھانے پینے کی سہولت میسرآسکے اوران میں اکثریت ایسے افرادکی تھی جواپنے علاقے میں ہونے والے مظالم سے تنگ آکر یہاں مقیم ہوگئے تھے جن کی حفاظت کابیڑہ خودبابا گرونانک اوران کے مریدوں نے اٹھایا۔اس طرح باباجی کی تعلیمات کاشہرہ دوردرازتک پھیل گیااوردن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔بالآخرسکھوں کے دسویں گروگوبندنے غریبوں میں سے اپنے پانچ ساتھیوں کاچناؤکرکے ان کوپانچ پیاروں کا لقب عطاکیااوراس طرح پہلی مرتبہ سکھ مذہب میں باقاعدہ طورپرخالصہ تحریک نے جنم لیا۔

اس زمانے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے فرمانرواں اورنگ زیب کی حکومت تھی اوراس کے دربارمیں تمام مذاہب کے لوگ بلاتفریق مختلف عہدوں پرفائض تھے۔بعض ہندوعہدیداروں نے جب ہندوؤں کی ایک کثیرتعدادکوسکھ دھرم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھاتوانہوں نے ایک گہری سازش کرکے اورنگ زیب کوان کے خلاف اکساناشروع کردیاکہ یہ سکھ مغلیہ حکومت کوختم کرنے کے درپے ہیں۔ہندواپنی سازش میں اس لئے بھی کامیاب ہوگئے کہ ان دنوں اورنگ زیب کابھائی دارشکوہ بھی فرارہوکرسکھوں کے ہاں پناہ گزیں تھا،اس لئے انہوں نے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف لشکرکشی پرآمادہ کرلیاکہ کوئی بھی حکومت اپنی سلطنت کے خلاف باغیوں کوسراٹھانے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ دوسری طرف سکھ یہ سمجھتے تھے کہ ان مظالم کے خلاف ان غریبوں کی حمائت باباگرونانک کے حکم کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغلیہ دورِحکومت میں سکھوں کے خلاف جنگ کوئی مذہبی جنگ قطعاًنہ تھی۔اگرایساہوتاتو سکھوں کی افواج میں ایک کثیرتعداد مسلمانوں کی نہ ہوتی جوگرونانک سے محبت کی بناءپراپنی جانیں قربان کرنے کیلئے میدان جنگ میں نہ صرف کودپڑے بلکہ بڑی شجاعت کے ساتھ اپنی جانیں بھی قربان کیں جس کاتذکرہ سکھ بڑے احترام سے آج بھی اپنی تاریخ میں محفوط کئے ہوئے ہیں۔

بالآخریہ مسلم سکھ اتحادجوکہ بابا گرونانک کی محبت کی مشترکہ میراث تھی،رنجیت سنگھ کی معیت میں پنجاب پرحکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا اور تاریخ گواہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربارمیں تمام اہم عہدے مسلمانوں کے سپردکئے اورکئی سال مسلمانوں کی وفاداری اورمحبت کے بل بوتے پریہ ایساامن وامان کادورِحکومت تھاجس کاآج بھی سکھ بڑے تفاخرکے ساتھ ذکرکرتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ وہی ہندوعناصرجنہوں نے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف اکسایابعدازاں انگریزکے ساتھ ملی بھگت کرکے پہلے ایسٹ انڈیاکمپنی کی داغ بیل ڈالی اوربعدازاں ہندوستان سے مغلیہ دورِحکومت کوختم کرانے میں کامیاب ہوکرانگریزکے دربارمیں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔رنجیت سنگھ کی پنجاب میں کامیاب حکومت کے پیچھے سکھ مسلم اتحاد کی مشترکہ میراث کاطاقتورجذبہ موجودتھااورانگریزاس بات سے واقف تھے کہ اس خطے میں یہی دونوں قومیں جنگجو ہیں اوریہاں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ ان دونوں قوموں کے درمیان کوئی ایسی منافرت اوردشمنی نہ پیداکردی جائے جس سے ان دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسی خونرزیزجنگ شروع ہوجائے جس سے یہ نہ صرف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دشمنی اورنفرت کی ایسی دیوارکھڑی ہوجائے کہ اس خطے میں کبھی بھی ان کادوبارہ ایسامثالی اتحادنہ ہوسکے۔

برہمن اورانگریزکی مشترکہ سازشوں نے بالآخرمغلیہ دورِحکومت میں وہ تمام ہندوجوسکھوں کاروپ دھارکران میں شامل ہو گئے تھے اس تحریک کولیکرآگے بڑھے اوراس امپیریل جنگ کوسکھوں اورمسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ سے تشبیہ دیکرتاریخ کومسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں ایک ایسی نفرت کی آگ پھیلادی جس کے شعلوں نے بالآخر رنجیت سنگھ کے پنجاب میں مسلم سکھ اتحادکوجلاکر خاکستر کردیاا ور انگریزوں کوپنجاب پرقبضہ کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔انفرادی طورپربعدازاں سکھ اورمسلمان ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر تو ہوگئے لیکن انگریزوں نے ہمیشہ حکومت کرنے کیلئے”ڈیوائڈاینڈرُول”تقسیم کرنے کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے اس خطے میں سکھوں اورمسلمانوں کو سیاسی طورپر دوررکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے۔یہی وجہ ہے کہ جب برطانیہ کاسورج بھارت میں غروب ہورہا تھاتوقائد اعظم جوباباگرونانک کی تعلیمات مسلمانوں اورسکھوں کی مشترکہ میراث کی تاریخ سے واقف تھے،انہوں نے سکھوں کے لیڈرماسٹرتارا سنگھ کونہ صرف ہندوؤں کی ذہنیت اورسازشوں سے آگاہ کیابلکہ پاکستان کے اندرسکھوں کومکمل مذہبی آزادی کے ساتھ تمام بنیادی ومساوی حقوق کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن ماسٹرتاراسنگھ نے اپنی کوربصری کی بناءپرسکھوں کی آزادی کایہ سنہراموقع گنوادیاجسے آج حریت پسندسکھ قوم بھی اپناسب سے بڑامجرم سمجھتی ہے کہ جن کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے نے انہیں بے رحم برہمن بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا۔

عیاربرہمن نے ایک گہری سازش کے تحت قیام پاکستان کے موقع پرسکھوں کے ہاتھوں مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام،مسلمان خواتین کی بے حرمتی اوربے یارومددگارقافلوں میں لوٹ مار،قتل وغارت گری کاایسابازارگرم کروایاکہ بعض مقامات پرکچھ جذباتی مسلمان بھی اپناردِّعمل پرقابونہ رکھ سکے۔برہمن کی دوررس سازش کامیاب رہی تاکہ یہ دونوں قومیں مشترکہ سرحد پررہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ میں جلتے رہیں۔کیایہ قتل عام باباگرونانک یا ان کے بعد آنے والے سکھ مذہب کے گروؤں کی تعلیمات کے مطابق تھایااسلام میں اس کی کہاں اجازت تھی؟؟؟اس کے برعکس جس ہندوقوم کوخوش کرنے کیلئےسکھوں نے مسلمان کی ریل گاڑیوں کی ریل گاڑیوں کوتہہ تیغ کیااور لاشوں سے بھرے خون آلودڈبے پاکستان بھیجے اس ہندو قوم نے سکھوں کوکون ساانعام دیا؟؟؟پاکستان میں توسکھوں کے سارے مقدس مقامات محفوظ ہیں جبکہ آنجہانی اندراگاندھی نے امرتسرمیں واقع سکھوں کے دربارصاحب کی حرمت کوبھارتی فوج کے ناپاک بوٹوں نے بری طرح پامال کردیااوروقت نے قائداعظم کے دانشمندانہ فیصلے کی تصدیق کردی ۔

باباگرونانک کی روشن تعلیمات کواس وقت اورجلاملی جب روس کے سرخ ریچھ نے اچانک افغانستان پراپنی ناپاک جارحیت کاارتکاب کیاجس کے نتیجے میں جہاں30لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستانی قوم نے اپنے گلے لگایا وہاں 35ہزار کے لگ بھگ افغان سکھوں کوبھی پاکستانی مسلمانوں نے اپنے سرآنکھوں پرجگہ دی اورتاریخ نے باباگرونانک کی ان اسلامی تعلیمات” مسلم سکھ اتحادکی مشترکہ میراث”کوسچ ثابت کردکھایا۔پاکستان کے مسلمان آج بھی سکھوں کے ساتھ حسن سلوک کاوہی رویہ رکھتے ہیں جس کیلئے باباگرونانک نے بے انتہامحنت کی تھی۔ قدرت کاانعام اورفیصلہ دیکھئے کہ نہ صرف باباگرونانک کی جنم بھومی اورآخری آرام گاہ بلکہ سکھوں کے بیشترمذہبی مقامات سرزمین پاکستان میں واقع ہیں جن کی زیارت کیلئے ہزاروں سکھ ہرسال وطن عزیزکی سرزمین پرمہمان بن کرآتے ہیں بلکہ مشرقی پنجاب سے بہنے والے دریاؤں کاپانی،سب کا رخ پاکستان کی جانب ہے جوسکھوں اورمسلمانوں کوایک دوسرے کی طرف محبت اورالفت کے ساتھ گلے ملنے کااشارہ دیتے ہوئے اپنے مشترکہ دوست اور دشمن میں تمیزکاسبق دے رہے ہیں ۔

پاکستان واحدملک ہے جہاں سکھ مذہب اوراس کے پیروکارسب سے زیادہ احترام کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال میں اہم کرداراداکیاہے۔پاکستان کے بانی قائد اعظم محمدعلی جناح کے یومِ پیدائش پرکاکول ا کیڈمی کے جن کیڈٹس نے مزارکے گارڈزکے فرائض سنبھالے،پہلی مرتبہ ان میں چھ خواتین کے ساتھ ایک سکھ کیڈٹ شامل تھا۔پاکستان کے بانی قائد اعظم محمدعلی جناح کا یوم پیدائش ہرسال پچیس دسمبرکومنایا جاتاہے۔ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہواہے کہ قائداعظم کے مزارپرخاتون کیڈٹس یاکسی سکھ کیڈٹ نے سلامی پیش کی ہو۔

باباہرنام سنگھ کے تڑپتے وکانپتے ہونٹوں سے نکلاہواایک یادگارجملہ بھی تومیں آج تک نہیں بھول سکاجوانہوں نے لاہوربی بی سی کے نمائندے کو انٹرویودیتے ہوئےکہا: ’’یہ وہی لاہوراسٹیشن ہے جب 1947ءمیں یہاں ٹرین رکی تومیں مارے خوف کے ٹرین کی جلدروانگی کی دعاکررہاتھا اور
آج میں دعاکررہا ہوں کہ کاش یہ ٹرین ہمیشہ کیلئے یہاں رک جائے اورزندگی یہی تمام ہوجائے”۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315536 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.