تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں شدید پریشانی کے عالم میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ
رہا تھا کہ پانچ چھ اور سات سو دہاڑی پانے والے سرکاری و غیر سرکاری افراد
جو دن رات ملک وقوم کی بہتری اور بھلائی کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کیلئے
کوشاں ہیں کیا ایسے حالات میں جس میں آ ٹا ستر روپے فی کلو دودھ سو روپے فی
کلو برائلر گوشت تقریبا چار سو روپے فی کلو چھو ٹا گوشت ایک ہزار روپے فی
کلو جبکہ بڑا گوشت پانچ سو روپے فی کلو دالیں اور سبزیات کے ساتھ ساتھ دیگر
فروٹ منہ مانگے داموں فروخت ہو رہے ہیں یہی کافی نہیں معمولی کوالٹی کا
زنانہ مردانہ کپڑا ہزاروں روپے درزی فی سوٹ کی سلائی کم از کم سات سو روپے
مکان کا کرایہ اور وہ بھی ماہانہ ہزاروں روپے بجلی و گیس کے ماہانہ بلز
ہزاروں روپے پٹرول فی لیٹر ایک سو بیس روپے بیماری کی حالت میں ادویات کی
قیمتیں جو آ سمان سے باتیں کر رہی ہیں یہی کافی نہیں ڈاکٹر ز صاحبان جہنیں
کبھی غریب عوام مسیحا سمجھتی تھی آج ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب عوام کا
خون چوسنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ
گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ دنوں چرچی گراؤنڈ جھنگ صدر سے گزر رہا تھا کہ
اچانک ڈاکٹر طارق ممتاز جس کا منہ مو مناں اور کرتوت کافراں جیسے ہے کے
کلینک کا باہر ایک غریب عورت زارو قطار روتی ہوئی نظر آئی پو چھنے پر
مذکورہ عورت نے بتایا کہ میں اپنے معصوم بچے جس کا پانی ختم ہو گیا تھا کو
یہاں پر لیکر آئی یہاں پر مذکورہ ڈاکٹر اور اس کے عملہ نے فوری طور پر میرے
بچے کو داخل کر کے وارڈ میں ڈرپ لگا دی جس کے نتیجہ میں میرے بچے کی حالت
بہتر ہو گئی تو اسی دوران مذکورہ ڈاکٹر کے عملہ نے مجھے تقریبا بیس ہزار
روپے کا بل تھما دیا جب مذکورہ بل کے بارے میں عملہ سے دریافت کیا تو
مذکورہ عملہ نے مجھے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وارڈ میں بچے کو ٹھہرانے کی فیس
تقریبا چھ ہزار روپے چیکنگ فیس کے علاوہ ادویات کی قیمت تقریبا چودہ ہزار
روپے بنتی ہے اور ہاں اگر تم یہاں پر کمرہ حاصل کرتی تو اُس کا دو دن کا
کرایہ تقریبا آ ٹھ ہزار روپے ہوتا یہ سب کچھ سننے کے بعد میں شدید پریشانی
کے عالم میں مذکورہ کلینک سے باہر آ کر بس یہ سوچ کر زارو قطار رو رہی ہوں
کہ میرے پاس توصرف ایک ہزار روپیہ ہے جو اپنے پڑوسی سے اُدھار لیکر آئی ہوں
انہیں بیس ہزار روپے کہا سے دوں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ جب تک میں
انہیں بیس ہزار روپے ادا نہیں کرتی یہ میرے بچے کو میرے حوالے نہیں کرے گے
حالانکہ میں نے مذکورہ ڈاکٹر اور اُس کے عملہ کی کافی منت سماجت کرتے ہوئے
اپنے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا خاوند معمولی سا ہوٹل چلاتا
ہے جس سے بڑی مشکل کے ساتھ چھ سات سو روپے دہاڑی کماتا ہے جس کے نتیجہ میں
آپ کو بیس ہزار روپے کا بل ادا کرنے سے قاصر ہوں لہذا خداوند کریم اور اُس
کے پیارے محبوب حضور پاک کے صدقے جو میں اب کسی سے اُدھار لیکر آئی ہوں لے
لو لیکن مذکورہ ڈاکٹر اور اُس کا عملہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں اُن کا یہ
کہنا ہے کہ جب تک تم بیس ہزار روپے ادا نہیں کرتی ہم آپ کا بچہ آپ کے حوالے
نہیں کرے گے حالانکہ میرا بچہ جس کی عمر چار ماہ کے قریب ہے میری جدائی میں
زارو قطار رو رہا ہے اور میں یہاں یہ سوچ کر زارو قطار رو رہی ہوں کہ کیا
میں مذکورہ ڈاکٹر کے بل کی ادائیگی کیلئے اپنا جسم فروخت کروں ڈاکہ ڈالوں
یا پھر چوری کروں کیا کروں میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا اُس مظلوم عورت کی
اس آپ بیتی کو سننے کے بعد میں نے اُس سے کہا کہ آپ اپنے بچے کو سرکاری
ہسپتال ڈی ایچ کیو جھنگ جو کہ قریب ہی تھا لیکر چلی جاتی یہ سننے کے بعد
مذکورہ مظلوم عورت نے بڑے تعجب خیز انداز میں دیکھتے ہوئے کہا کہ کیا وہاں
پر ہم جیسے غریب مریضوں کے ساتھ ظلم و ستم کی انتہا نہیں ہوتی وہاں پر بھی
ہم جیسے غریب مریضوں کے ساتھ اپنے آپ کو معزز سمجھنے والے ڈاکٹرز و لیڈی
ڈاکٹرز جہنیں درحقیقت بر نو لا لگانا تو دور کی بات ٹیکہ لگا نا بھی نہیں
آتا ٹیسٹوں کی مد میں جہاں پر سے یہ اپنی کمیشن وصول کر کے علاج معالجہ کر
کے ظلم و ستم کی انتہا کر رہے ہیں اگر آپ حقیقت کے آ ئینے میں دیکھے تو یہ
وہ ناسور ہیں جو دولت کی ہوس کے پجاری بن کر انسانیت کا قتل عام کر کے حکم
خداوندی کو ٹھکرا رہے ہیں یہ وہ ناسور ہیں جو ادویات کے نسخہ جات میں اپنی
کمیشن ٹیسٹوں کی مد میں کمیشن مضروب افراد سے میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی
مد میں بھاری رقوم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جنرل سٹور کی خریداری مذکورہ
ہسپتال کی تعمیر و مرمت فر نیچر کی خریداری یہاں تک کہ رنگ و روغن سرکاری
گاڑیوں کی مر مت اور جر نیٹر کے پٹرول کی مد میں بھی ہیرا پھیری سے بھی
نہیں گھبراتے اور تو اور مذکورہ ہسپتال میں صاحب اقتدار حضرات پڑھے لکھے
غریب افراد کے طبقہ کو چپڑاسی مالی اور ڈرائیور کی نو کری دینے کے عوض
بھاری رقوم جو اکثر ضرورت مند افراد اپنی جواں سالہ بہنوں کے زیورات وغیرہ
فروخت کر کے انھیں ادا کرتے ہیں یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ مذکورہ
ہسپتال میں زیادہ تر تعنیات ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز اپنے فرائض و منصبی
مذکورہ ہسپتال میں ادا کرنے کے بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر اپنے ضمیر
اور ایمان کا سودا کر کے ادا کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مذکورہ ہسپتال میں
لا تعداد غریب مریض بے موت مر جاتے ہیں جبکہ متعدد الائیڈ ہسپتال جاتے ہوئے
اور تو اور مذکورہ ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر غریب والدین کے
معصوم بچوں کو جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں کو رکھا جاتا
ہے جبکہ وہاں پر تعنیات ڈاکٹرز و دیگر عملہ غریب معصوم بچوں کے ورثا کے
ساتھ ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ بس یہی
وجہ ہے کہ مجھ جیسے غریب والدین اپنا سب کچھ فروخت کر کے اپنے معصوم بچوں
کا علاج ان ناسوروں جو مذہب اسلام کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں کے
پرائیویٹ کلینکوں پر کرواتے ہیں مذکورہ مظلوم اور بے بس غریب عورت کی ان
باتوں کو سننے کے بعد میرے منہ سے یہ بے ساختہ لفظ نکلے کہ حاکم وقت سوچو
ذرا کہ ایسے حالات میں معمولی دہاڑی پانے والے افراد کیا اپنے اہلخانہ جس
میں اُن کے بوڑھے والدین بھی شامل ہیں کی پرورش کر سکتے ہیں کیا وہ اپنے
بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کر سکتے ہیں کیا وہ اپنی جواں سالہ
بیٹیوں اور بیٹوں کو باعزت طریقے سے رخصت کر سکتے ہیں کیا وہ اپنے بیمار
اہلخانہ کا علاج و معالجہ کر سکتے ہیں کیا وہ با عزت طریقے سے دو وقت کی
روٹی کھا سکتے ہیں کیا وہ با عزت طریقے سے اپنے اہلخانہ کو چھت دے سکتے ہیں
آ خر میں بس یہی کہوں گا کہ جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
|