تحریر احسان احمد سیال
استاد محمد اشرف نے جب لکڑی کے تختے کو اپنے مخصوص جندری کے اڈے پر چڑھا کے
گھمایا تو لکڑی کٹنا شروع ہوئی۔اس کٹاؤ اور تراش خراش میں اڈے سے کرخت اور
ڈراؤنی آوازیں نکلنے لگیں جو کسی بھی انسان کی سماعت پہ گراں گزر سکتی تھی۔
لیکن استاد محمد اشرف کے پہلو میں بیٹھے محمد فہیم کو یہ آوازیں مترنم اور
دلکش محسوس ہوئیں۔ لکڑی کے سینے سے نکلنے والی بدبو اسے مہک دار معلوم ہو
رہی تھی کیونکہ یہ شور و بو اسے گْھٹی میں ملا تھا۔ یہ فن انکے خون میں رچ
بس چکا تھا اور نسل در نسل انکے خاندان میں چلا آرہا تھا۔
آج سے 450 سال قبل مغل شہنشاہ شاہجہان نے تاج محل پر نقش و نگاری کے لیے
ایران سے ماہر دستکار بلوائے اور یوں جندری کا فن آیران سے سفر کر کے
برصغیر پہنچا۔ سن 1857ء کے غدر نے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا
وہاں یہ دستکار بھی آگرہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انہی دستکاروں میں استاد
کرامت علی کا خاندان آگرہ سے دہلی پہنچا اور پھر دہلی سے ہجرت کر ڈیرہ
اسماعیل خان میں آ بسا جہاں انکی ہونہار اولادیں آج بھی اس فن کو زندہ رکھے
ہوئے ہیں۔
جندری کے فن میں دیدہ زیب شو پیس تیار کرنے کے لیے لکڑی کو کچھ ٹائم کے لیے
کیڑے مار ادویات لگا کر دھوپ میں خشک ہونے کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ اسکی
مٹھاس ختم ہو جائے۔ جب لکڑی صحیح طرح سے سوکھ جاتی ہے تو اس کو مناسب شیپ
میں کاٹ کر رنگ کا کوٹ کیا جاتا ہے جس کو یہ فنکار استر کہتے ہیں۔ اس کے
بعد لکڑی رنگ کے لاک دانہ کیمیکل کے 3 مختلف رنگوں کی تہہ چڑھا دی جاتی ہے۔
پھر کمپاس کی مدد سے اس پر ڈیزائن کیا جاتا ہے اور لوہے کی قلم سے ان
ڈیزائنوں میں کھدائی کر کے 3 رنگوں کے خوبصورت شو پیس تیار کیے جاتے ہیں۔
جندری کا یہ ہنر تو محمد فہیم کے خون میں شامل تھا اور شوق اس وقت بڑھا جب
جنرل ضیاء الحق نے انکے والد کو لیقر ووڈ ڈیزائننگ میں بہترین کارکردگی پر
صدارتی تمغہء حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ اس دن محمد فہیم نے عزمِ مصمم باندھا
کے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر ایک دن ضرور صدارتی ایواڈ اپنے نام کریں
گے اور انکا یہ خواب 40 سال بعد 23 مارچ 2021 کو پورا ہوا جب محمد فہیم کو
لیقر ووڈ میں بہترین خدمات سر انجام دینے پر صدارتی تمغہء حسنِ کارکردگی سے
نوازا گیا۔
محمد فہیم سن 1955 کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ لیقر ووڈ ڈیزائننگ
کا پیشہ ان کے آباؤ اجداد سے چلا آرہا تھا اور انھوں نے بھی اسے روایت کو
آگے بڑھایا اور صدیوں پرانے اسے ہنر کو زندہ رکھا۔ محمد فہیم اپنے فن کی
نمائش پوری دنیا میں کرا چکے ہیں۔
خاص طور پر ،، الحمرہ آرٹ کونسل ، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ، پاک
چائنہ فرینڈشپ سنٹر ، امریکی سفارت خانے، آسٹریلین، برطانوی اور کینیڈین
ہائی کمیشن اور دیگر ملکی اور غیر ملکی عجائب گھروں میں انکے فن پارے موجود
ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنا کام مختلف سربراہان مملکت کو تحفتاً بھی
پیش کیا جن میں برطانیہ کی ملکہ، فرانس کے سابق صدر François Mitterrand
اور دیگر پاکستانی عسکری قیادت بھی شامل ہے۔
محمد فہیم مختلف ٹول اور رنگوں کی مدد سے لکڑی کے سینے کو کھرج کر نقش
نکالتے ہیں اور ان کی یہ مہارت ان کے فن پاروں کو بامعنی بنا دیتی ہے۔جندری
کے اس کام کے لئے قدیم طریقہ کار کو ہی بروئے کار لایا جاتا ہے جس میں
زیادہ تر کام ہاتھوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ تحمل طلب کام ہے اس
لیے مشینوں کے ذریعے سے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے جتنا آرام اور سکون دہ
ماحول ہوگا اتنے ہی شاندار نتائج برآمد ہوں گے۔
محمد فہیم کا کہنا ہے کہ " پچھلی حکومتوں نے ہمارے فن پر کوئی خاص توجہ
نہیں دی جس کی وجہ سے ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن موجودہ
حکومت ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کر رہی ہے اور میری بس یہی خواہش ہے مجھے
کوئی خاص جگہ الاٹ کی جائے تاکہ میں اپنا ہنر نوجوان نسل میں منتقل کر
ساکوں اور میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہو گی کہ میرے پورکھوں
کا نام اور ہنر دونوں زندہ رہیں "
فہیم اعوان کے فن پارے ملک کی مختلف آرٹ گیلریز میں رکھے گئے ہیں جو اس
میدان میں نوواردوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور انھیں اساتذہ کے کام سے
روشناس کرواتے ہیں۔
عظیم مجسمہ ساز ینگوورما نے کہا تھا
آرٹسٹ یا آرٹ کے بغیر کوئی بھی سوسائٹی ایسے ہے جیسے کہ کسی سنگترے سے جوس
نکال لیا جائے اور باقی سوکھا سڑا چھلکا رہ جائے"۔
در اصل آرٹ اور سائنس کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے اہمیت کی حامل ہے، جس
طرح سائنس انسان کے لئے ایک دروازہ ہے، اسی طرح آرٹ دوسرا دروازہ ہے، اگر
ان میں کراس وینٹیلشین نہیں ہوگی تو معاشرے کا سانس اکھڑنے لگے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
|