قارئن! مسلح افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ تربیت و مہارت
کے تمام مراحل ’’ایمان تقویٰ جہاد فی سبیل اﷲ‘‘کے نصب العین کے تحت طے کئے
جاتے ہیں۔ابتدائی تربیت سے لیکر خصوصی سپاہیانہ کردار کی تراش خراش تک اور
جنگی مہارت سے لیکر عملی مظاہرے تک کوئی بھی مرحلہ ،کوئی مقام ایسا نہیں
جہاں قرآن حکیم کی آیات مُبارکہ اور صاحب قرآن پیغمبراکرمؐکی روایات کے
تقاضوں کیمطابق نہ ڈھالا ہو۔پاکستان میں آج کے دورمیں اگر کہیں کوئی ادارہ
’’اسلام اور صاحب اسلام‘‘کے مطابق اپنا مضبوط و مستحکم کردار کا حامل ہے وہ
صرف اور صرف مسلح افواج ہیں۔ہماری افواج کا داخلی نظام اس قدر موثر
اورروایات اتنی مستحکم ہیں کہ کوئی ’’انفرادی پہچان /عقیدہ ونظریہ‘‘ اس
نظام اور اعلیٰ روایات پرحاوی نہیں ہوسکتا۔مثلاََ کوئی پنجابی ہویا سندھی
،پٹھان ہویا بلوچی ،چاہے گلگتی ہویا بلتی یا کشمیری ،۔۔ سب کے لئے ’’فوج کے
نصب العین ،قواعد و ضوابط پر عمل لازم ہے ،اسکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں
،اسی طرح سنی ہویا شیعہ ،اہلحدیث ہویا دیوبندی کسی امتیاز و تفرق کی قطعی
گنجائش نہیں ۔۔۔اِنھیں جہاں بھی کوئی ذمہ داری دی جائے اُسے مثالی انداز
میں انجام دیاجاتا ہے۔پاک فوج کا سپاہیانہ کردار اس قدر بلند ہے کہ عالمی
امن مشن میں بھی جہاں ،دوسری بڑی افواج کے دستے بھی خدمات انجام دے رہے
ہوتے ہیں ۔وہاں بھی بحالی کے اُمور میں یہ کردار نمایاں دکھائی دیتا
ہے۔۔۔۔عالمی درجہ بندی میں مسلح افواج پاکستان ’’دُنیاکی ٹاپ ٹین‘‘افواج
میں شامل ہیں۔اِسی طرح خفیہ اداروں کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی
پاکستان کی آئی ایس آئی اور ملٹری انٹلی جنس، امریکی سی آئی اے کی طرح
دُنیا کی دوچند ایجنسیزمیں سرفہرست نظرآئینگے ۔ عالمی درجہ بندی کیمطابق
دُنیا کی بڑی افواج اور خفیہ ایجنسیز میں ’’موثرپیشہ وارانہ کردار‘‘کی
بنیادپر نمایاں رہنا بہت معنی رکھتا ہے ۔کیونکہ فرنٹ ڈیفنس لائن یہی خفیہ
ادارے کہلاتے ہیں۔۔۔۔ مسلح افواج پاکستان ،سیلاب ،زلزلہ ہویا کوئی دوسرا
حادثہ ،کسی بھی ایمرجنسی میں اپنے وسائل ،اپنے جذبہ خدمت سے سرشار رہتے
ہوئے پہلی اور آخری’’اُمید‘‘بنتی ہے ۔جہاں بھی کوئی اُلجھن ،کوئی مشکل
،کوئی چیلنج درپیش آئے فوج ’’وطن اوراہل وطن ‘‘کیلئے ہردم موجود ہوتی
ہے۔چونکہ دفاع وطن جغرافیائی سرحدوں تک محدود نہیں ۔اور وہ بھی زمینی
،فضائی ،سمندرتک نہیں ہے ۔بلکہ وطن کے اندر بھی جہاں جہاں سول انتظامیہ
مسائل کا شکار ہوتی ہے ۔وہاں طلب کرنے پر مسلح افواج آئینی کردارادا کرتی
ہیں۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مسلح افواج پاکستان کی ہمہ جہتی خدمات کی
انجام دہی کیلئے اُٹھنے والے اخراجات ’’کل بجٹ کا صرف اٹھارہ
فیصد‘‘ہیں۔یعنی اٹھارہ فیصد بجٹ میں دفاعی اداروں کی پروفارمنس ،عالمی درجہ
بندی میں ٹاپ ٹین میں سرفہرست ہے۔ فوج میں ’’جزا و سزا ‘‘کا قانون سختی سے
لاگو ہے ۔چھوٹی سی غلطی ،کوتاہی بھی قابل گرفت ہے جبکہ کٹہرے میں کھڑے
ہونیوالا چاہے کتنا بڑا افسر ہی کیوں نہ ہو اُسے کیفرکردار تک پہنچا دیا
جاتا ہے۔اسکے باوجود فوج پر تنقید کیلئے کبھی اٹھارہ فیصد کو اسی فیصد
بتایا جاتا ہے ۔اور کبھی سیاست میں مداخلت اور کبھی حکومت کی پُشت پناہی کا
الزام دیکر طوفان اُٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔آج بھی ایسے لوگ متحرک ہوچکے
ہیں جو ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جب ’’مسلح افواج ‘‘کیخلاف خبث باطن
کا مظاہرہ کرسکیں۔ سوال یہ ہے کہ فوج پر تنقید کیوں؟سنجیدہ حلقوں کے نزدیک
فیڈریشن کی مضبوطی و مفادمیں فوج کا اولین و بنیادی کردار ہے۔جانیں قربان
کرنیوالی یہی فوج ہے ۔کیا کوئی جان کی قیمت پر روزگار کا خواہاں ہوتا ہے
؟کیا کوئی غیرتمند طبقہ و حلقہ اپنی افواج کی قربانیوں کی توہین و تذلیل کا
تصور کرسکتا ہے؟؟ہرگز ہرگز نہیں ۔
یاد رکھیں !جب ریاست کے ہرشہری کو عدل و انصاف حاصل ہو ۔تو کیا پاکستان میں
عام آدمی کو انصاف مل رہا ہے ؟اگر مل رہا ہے تو پھر عالمی درجہ بندی میں
شمار کئے گئے 128ممالک میں 124واں نمبریہ حقیقت باورکرانے کیلئے کافی ہے کہ
پاکستان میں ’’انصاف ‘‘کا تصور بُری طرح پامال ہورہا ہے۔قاتل اور مقتول
یکساں نظرسے دیکھے جاتے ہیں ۔جس سے مایوسی بڑھ چکی ہے ۔اور حالت یہ ہے کہ
سیالکوٹ کی ایک ماں ’’عدالت‘‘سے انصاف نہ ملنے پر اپنے بیٹے کے قاتل کو
ماردیتی ہے ۔۔۔۔کراچی میں قتل کے جُرم میں پھانسی کی سزا پانیوالے جب بری
ہوتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ وہ بیگناہ انسان دو سال پہلے پھانسی پرچڑھ چکے
ہیں ۔موٹر وے پردن دیہاڑے ایک خاندان کو پولیس مادردیتی ہے ۔کیس منطقی
انجام تک نہیں پہنچتا۔۔۔اُوپرسے حالت یہ ہے کہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے
عالمی درجہ بندی میں شامل 128ممالک میں پاکستان 124ویں نمبرپر ہے ۔۔۔۔۔ان
حالات میں ظاہر ہے یہی کچھ ہونا ہے جو اسوقت ملک بھرمیں ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب
بات کرتے ہیں انتظامیہ کی ۔۔۔پاکستان میں مکمل جمہوری سیاسی نظام موجود ہے
۔اس نظام کیمطابق پارلیمنٹ/حکومت پروفارم کرتے ہیں ۔لیکن کیا یہ سب منتخب
عوامی نمائندگان ،ملک و قوم کیلئے کوئی معجزانہ کردارادا کررہے ہیں؟؟ملکی
بجٹ کا83فیصد کہاں؟کیسے خرچ کرنا ہے ،اس معاملہ میں یہ مکمل آزاد ہیں ۔پھر
عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں اتنی سستی کا مظاہرہ کیوں؟’’روایات
میں وارد ہوا ہے ’’حکومت کفرسے تو قائم رہ سکتی ہے ،ظلم سے نہیں‘‘۔۔۔۔عدلیہ
مقننہ انتظامیہ کی پروفارمنس نظرتو آنی چاہیے ۔جمہوری سیاست میں قیادت کا
معیار اور وقار تو خود بولنا چاہیے۔جب عدالتی انصاف میں پاکستان آخری درجے
کے قریب تر ہے ۔جب مقننہ ،ایوانوں میں سیاسی شغل کررہی ہو ۔جب انتظامیہ
اپنے اقدامات کے ذریعے حکمت و دانش ظاہر کرنے میں ناکام ہو ۔جب بول چال
،رہن سہن لباس ہماری اسلام پسندی کامظہرنہ ہو ،جب علمی اُمور،اختلافی نقطہ
ہائے نظرکی بنیاد پر ایک دوسرے کے بارے میں فتوؤں کا سیلاب موجود ہو ،جب اس
امر کا احساس ہی باقی نہ رہے کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا’’مسلمان وہ ہے جسکے
ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوط ہوں‘‘۔۔۔اور روزانہ کی بنیاد پر اسلام کے نام
پر مسلکی چورن بیچا جارہا ہو۔تو نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟؟کوئی بھی ہوشمند
،زمینی حقائق کو کیسے نظرانداز کرسکتا ہے؟؟مملکت کے تین آئینی ستون ’’عدلیہ
،مقننہ ،انتظامیہ‘‘کی پروفارمنس اطمینان بخش ہے؟؟؟؟اس معمہ کو سمجھ کر آگے
بڑھنے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟؟یاد رکھا جائے ،ادارے اپنی پروفارمنس سے ہی
اپنے وجود کا احساس دلاسکتے ہیں ۔۔۔۔اور ہمارے پاس صرف ایک کی ادارہ بچ
جاتا ہے جو مملکت کے ڈیفنس کیلئے ہے ۔یہی ادارہ ،مادر وطن کیلئے درپیش ہمہ
جہتی خطرات کے مقابلے میں ہمہ جہتی دفاع کیلئے سرگرم رہنے کے علاوہ آئین کے
تحت بلائے جانے پر ’’سول انتظامیہ‘‘کی مدد کیلئے تیار رہتا ہے۔جانیں بھی
دیتا ہے ۔قوم کیلئے ایثاار وقربانی کے مظاہرے میں نمایاں نظرآتا ہے ۔۔۔۔فوج
مخالف کاریگروں کی یہ منطق غلط ہے کہ ’’فوج میں بالائی سطع پر خرابی ہے‘‘یہ
سب پروپگنڈے کیلئے طریقہ واردات ہے ۔ورنہ کون نہیں جانتا ۔فوج میں بالائی
سطع پر چیف نے کسی بھی معاملہ کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوتو اسکے لئے کور
کمانڈرز،پرنسپل سٹاف سمیت دیگرکی باقاعدہ کانفرنسزمنعقد ہوتی ہیں ۔اور اگر
معاملہ کا تعلق داخلی نظم و ضبط سے ہے،تب بھی ہر پہلو واضع ہوجاتا ہے ۔اور
اگر پیشہ وارانہ تیاریوں کا جائزہ لینا ہوتو تب بھی ۔اور نیشنل سکیورٹی کا
جائزہ لینا ہوتب بھی ،کوئی فیصلہ کرنا ہوتب بھی ،سارے کمانڈرز کی رائے شامل
ہوتی ہے ۔یہی سٹرٹیجی پاک فوج کواُوپرسے لیکر سولجرتک تک یکساں طور پر فعال
رکھتی ہے ۔فوج کو اپنے فرائض حدود وقیود کا پتہ ہوتا ہے تو کمانڈرزبھی ہمہ
وقت جائزہ لینے کیساتھ ساتھ دفاع وطن کیلئے حکمت عملی طے کرنے پر متوجہ
ہوتے ہیں ۔لہذا پاکستانی عوام عزت و وقارکی زندگیوں کیلئے مضبوط دفاع کی
اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔یوں بھی جنہوں نے دفاع وطن کیلئے کسی بھی
محاذ پر ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا ہوگا وہی فوج کی قدر وقیمت کو جانیں
گے ،سمجھیں گے ۔فوجی زندگی کا کوئی بھی پہلو دین اسلام کے مجاہدانہ کردار
سے اُٹھتا ہے ۔قرآن اور ساحب قرآن کی ہدایت و رہنمائی سے اپنائے گئے نصب
العین نے ایک نظریاتی فوج کی تشکیل کی ہے ۔جسے ایمان کی حد تک یقین ہے
خدمات کی انجام دہی کے دوران جان گئی تو شہید ہونگے ۔مقررہ وقت پر گھروں کو
لوٹے تو غازی کہلائیں گے ۔نہ مرنے سے خوف ،نہ زندگی بے مقصد ،پھراِنھیں کسی
سازش و مکاری سے ڈرانا جھکانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔اﷲ رب العزت پاکستان
کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی محافظ افواج پاکستان کا حامی و ناصر رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|