حکومت کا زوال اپنے ہاتھوں سے ․․․!


مسلمانوں کی تاریخ پر غور کیا جائے تویہ نرم گرم کی شکار رہی ہے،اس کی ایک وجہ مسلمانوں کی تعداد متواتر بڑھنا ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں تعلیم کا فقدان رہا ہے۔مغرب سولھویں صدی تک مسلمانوں سے بہت پیچھے دکھائی دیتے تھے ،مگر پھر انھوں نے تعلیم پر خصوصی توجہ دی،جس کی وجہ سے وہاں دریافتیں ہوئیں اور صنعتی ترقی کی ابتدا ہوئی،یہ سب کچھ تعلیم کی مرہونِ منت تھی،لیکن مسلمانوں نے اپنے اوپر تعلیم کے دروازے خود ہی بند کر دیئے۔اسلام کے ابتدائی دور میں جو سائینسی ،ریاضی ،علم نجوم اور دیگر ایجادات اور دریافتیں کی تھیں،ان کاوشوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور یہ سب بادشاہوں کی خود غرضی کی وجہ سے ہوا۔آج بھی جہاں جہاں اسلامی حکومتیں موجود ہیں،وہاں تعلیم اور تحقیق پر وسائل نہیں لگائے جاتے،جس کے نتیجہ میں مسلم امہ سائینسدانوں اور محقیقین کے کارناموں سے عاری ہے۔157اسلامی ممالک میں سے صرف ایک پاکستان ہے،جس نے ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے،یورپ ان کے پیاری نبی ﷺ کی گستاخی کی بے خوف جسارت کرتا ہے،جب مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں خود اور انہی کے حکمرانوں سے گولیاں مروائی جاتیں ہیں،ڈرایا دھمکایا جاتا ہے،ہمارے جیسے ممالک کو پہلے قرضے دیئے جاتے ہیں اور پھر بلیک میل اور دبایا جاتا ہے۔حکمران اپنے عقیدے اور سب سے بڑھ کر اپنے نبی آخر الزماں ﷺ کی توہین تو بر داشت کر سکتے ہیں،لیکن یورپین سے تعلق خراب کرتے ہوئے خوف ذدہ ہو جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے․․؟

جب مسیح کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا تو یہودیوں کو فکر لاحق ہوئی کہ ایک نہ ایک دن عیسائی ہمارے سامنے کھڑے ضرور ہوں گے ،چناں چہ کچھ دانا یہودیوں نے عیسائیت قبول کر لی اور عالم بن گیے،انہوں نے انجیل میں ردو بدل کیا ،دوسرا عیسائیوں کو یقین دلایا کہ ان کا مذہب انہیں تجارت اور بنکنگ کی اجازت نہیں دیتا،یہ کام صرف یہودیوں کے لئے ہے۔اسی طرح جب یہودیوں کو اسلام پھیلنے کا خطرہ محسوس ہوا،تب بھی ایسی ہی سازشیں عمل میں لائی گئیں ،مسلمانوں میں تفرقات اور فرقہ واریت پروان چڑھائی، ان سازشوں کا تسلسل ابھی بھی جاری ہے۔ اب کیوں کہ عیسائی اور یہودی مل بیٹھے ہیں اور دونوں کا ایک ہی دشمن مسلمان ہے اسی لئے مل کر اس کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں۔اس پر مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ ہوش کے ناخن لیتے اور اپنی کمزوریوں کو دور کرتے بلکہ دشمن کی گھنونی سازشوں کا خود ہی شکار ہوئے ہیں۔

پاکستان کیوں کہ اسلام کا قعلہ ہے ،اس سے سب سے زیادہ خوف بھی ہے،جہاں یہودیوں اور عسائیوں نے مسلمانوں کے عقائد کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے وہاں ان کی سازشوں نے عشق رسول ﷺ پر شب خون مارنے کی بھی کوشش کی ہے۔اس پر افسوس کہ ہمارے حکمران اور چند مفاد پرست لوگ ان کے آلاکار بنے ہوئے ہے،جن کی وجہ سے خاص طور پر پاکستان کی عوام کے دل خون کے آنسوں رو رہے ہیں۔اس حقیقت کی کڑی ملائی جائے تو وزیر اعظم عمران خان کی عوام سے خطاب میں وہ سب کچھ ملتا ہے ،جس سے واضح ہوتا ہے کہ آج ہم یہودیوں اور عسائیوں کے سامنے کہاں کھڑے ہیں ۔ایک طرف وہ ہیں ،جو بار بار ہمارے پیارے نبی ﷺ جن پر ہمارے ماں، باپ ،بچے اور ہماری جانیں قربان ان کے خلاف نا پاک ارادوں سے گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں ،دوسری جانب ہمارا وزیر اعظم ہمیں ملک کی معاشی صورت حال بتاتا ہے،کہ ہم یورپ سے کسی صورت تعلق نہیں ختم کریں گے۔جناب ہم 72 برسوں سے غریب تھے غریب ہیں اور شاید آپ جیسے مفاد پرستوں کی وجہ سے غریب ہی رہیں گے ۔کیوں کہ آپ کو اقدار کی ہوس ہے،اپنی سیٹ بچانے کے لئے کسی کے بھی تلوے چاٹنے پڑیں،وہ کر گزریں گے۔بغض ،اَنا اور مخالفین سے دشمنی میں اتنا آگے جانے والا حکمران پاکستان کی تاریخ میں کبھی سامنے نہیں آیا۔وزیر اعظم کا منافقانہ رویے کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ ہم مسلمان نبی کریم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت و احترام کرتے ہیں ،وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں ، ہم ان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔دوسری طرف فرانس کا صدر ایمانو ئیل میکرون کہتا ہے کہ ہم گستاخانہ خاکوں کی مذمت بھی نہیں کریں گے اور یہ آزادی رائے کے خلاف قرار دیتا ہے،حالاں کہ یہ نہ جمہوریت ہے اور نہ ہی اظہارِ رائے ۔جمہوریت تو کسی ملک یا میڈیا کو حق نہیں دیتی کہ وہ کسی عام آدمی کی بھی توہین کرے،لیکن انہوں نے پیغمبر ﷺ جن کے جان نثاروں کی تعداد اربوں میں ہو کیسے اجازت مل سکتی ہے کہ توہین کرے،مگر اس کے خلاف اسلامی قعلہ کا حاکم ان کے خلاف فیصلہ کرتے ہوئے منکر ہو جائے تو عوام کیا سمجھے جو جان نثارِ رسول ﷺ ہیں۔کیا یورپ میں ہولو کاسٹ پر منفی تبصرے پر سنگین سزا نہیں ہے؟لیکن ہم سرکار دوجہاں ﷺ کی شان میں سنگین گستاخی پر ان کے سفیر اور تعلقات کو ختم نہ کریں اور کہیں کہ ہم سے بڑا عاشقِ رسولﷺ کوئی نہیں ․․․!

عمران خان اپنے فاشسٹ رویے کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔ملک میں تیزی سے انتشار پھیل رہا ہے،تحریک لبیک پر پابندی کے مضمرات ابھی سامنے آنے باقی ہیں۔پچھلے چند دنوں سے جس طرح سے ان کی حکومت کی کارکردگی رہی ہے ،ان عاشق رسول ﷺ کو دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھنے والوں کو ہوش کرنا ہو گا،نا موسِ رسالت ﷺ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ایمان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔سب سے پہلے اسے سمجھنا چاہیے ۔یاد رہے ،اس طرح کی تحریکیں جب عوامی جذبات میں سرایت کر جائیں تو محض پابندی کافی نہیں ہوتی۔حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی لگا دی ،مگر کیا ان معصوم شہیدوں اور ہزاروں زخمیوں کو نہیں دیکھا جو ابھی بھی شہادت کے خواہشمند ہیں ،ان کی شان ہی نرالی ہے۔

حکومت آج تک سیاسی قوتوں کی حمایت سے بے نیاز رہی ہے۔حزب اختلاف کی کمزوری اس کی طاقت بنی رہی ہے ۔حکمران سمجھتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف آخری حد تک جا سکتے ہیں۔یہ حکومتی تجزیے کی بہت بڑی بھول ہے۔حکومت کی طاقت صرف جبر نہیں ہوتا بلکہ اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔اگر آپ میں کچھ کرنے کی اہلیت یا ہمت نہیں ہے تو تحریک لبیک سے پہلے تحریری معاہدہ کیوں کیا تھا کہ ہم فرانس کے سفیر کو ملک بدر کریں گے اور اپنا سفیر فرانس میں تعینات نہیں کریں گے ،ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے ؟جس قوم کا اعتماد اپنے حکمرانوں سے اٹھ جائے ۔ایک عام آدمی کو غرض نہیں کہ حکومت کس کی ہے ،اسے یقین چاہیے کہ حکومت اسے امن اور استحکام دے سکتی ہے․․!اگر اسے اندازہ ہو جائے کہ حکمران اس اہل نہیں تو اس کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں ،کیوں کہ ہر فرد سمجھتا ہے کہ امن کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اس بات کا حکمرانوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ ظلم اور دباؤ انسانی فطرت کو گوارا نہیں ہوتا اور حکومت کو کبھی مظلوم نہیں سمجھا جاتا،مظلوم تو وہ ہیں جو نہتے گولیوں کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں ۔

اگر عمران خان زرا سی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے تو اتفاقِ رائے کو ابھارتے،داخلی سطح پر اختلافات کو کم کرتے ،لیکن ان کا چلن زمانے سے نرالہ ہے،ہر کسی سے امن کی بجائے محاذ کھولنے کو ترجیح دیتے ہیں اور سیاست کی فہم ہوتی تو عوامی خواہشات کی قدر کرتے ،اپنی گورننس اور کارکردگی سے اپنے آپ کو منواتے ،وہ اختلافات کو دشمنی میں بدلتے ہیں ۔ان کی حکومت کا انجام نوشت دیوار پر لکھا جا چکا ہے جو کہ کسی طرح خوش گوار تو نہیں ہو سکتا ۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 109495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.