صبر کرو... اللّہ آسانی کرے گا...!
قربانی کرنا اور پھر اس پہ صبر کرنا کیا اتنا ہی آسان ہے اور قربانی بھی
ایسی جو صبر کی انتہا چاہے. انسان فطرتاً بےصبرا پیدا ہوا ہے... اسے مشکل,
آزمائش یا کسی کے بچھڑنے پہ وقت کے ساتھ "قرار تو آجاتا ہے"...جسے اکثر ہم
صبر کہتے ہیں مگر قرآنِ کریم میں جو صبر کرنے کی تاکید کی گئی ہے وہ اس وقت
اپنے جذبات پہ قابو پانا ہے, فقط اللّہ کی رضا کی خاطر جب "درد و الم, غصہ,
اور شکوؤں کا پیالہ لبریز ہورہا ہو" اس وقت اس پیالے کے contents کو چھلکنے
سے روکنا ہے. صبر یہ ہے... جس میں شکر کا عنصر پنہاں ہو.
اصل صبر مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا ہے, بعد میں رو دھو کر تو ہر شخص ہی صبر
کرلیتا ہے۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (إِنَّمَا الصَّبْرُ
عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی) [ بخاری، الجنائز، باب زیارۃ القبور : 1283
] ”صبر صرف وہ ہے جو پہلی چوٹ کے وقت ہو۔“
*صبر پہ عمل کیسے کریں؟*
صبر کا کہنا آسان ہے پر کرنا مشکل ہے... پریشانی میں تو. انسان ویسے ہی
شکوہ کناں ہوجاتا ہے... لیکن اپنوں کی جدائی اور قربانی کے مقابلے میں وہ
مشکل سہہ بھی جاتا ہے... پر اپنے پیاروں کی تکلیف... اور وہ بھی خود
کرنا... سوچ کر ہی مشکل لگتا ہے اور لازماً یہ شکوہ ابھرتا ہے کہ "میں ہی
کیوں؟"... "میرے پیاروں کو ہی کیوں... مجھے ہی کیوں قربانی(سزا) دینی
ہے"... "ہمارا قصور کیا ہے". یہ فطری خیال ہیں جن کا اکثر ذی روح سامنا
کرتا ہے. ایسے میں ہم کیا کریں؟
وہ جذبہ, وہ ہمت, وہ اللّہ کے حکم, اس کی رضا اور اس کے فیصلہ پہ ثابت
قدمی... اور سب سے بڑھ کر "ایمان البلیقین" اپنے اندر کیسے لائیں جو حضرت
ابراہیم(ع) کے پاس تھی کہ بڑھاپے کی اولاد کو صبربالجمیل کا جام پی کر
قربان کرنے چلے تو, حضرت اسماعیل(ع) نے بلا کسی شکوہ یا خوف کے اللّہ کی
اطاعت پہ اپنی گردن چھری کی نوک پہ رکھ دی. وہ صبر جس کا مظاہرہ حضرت یعقوب
(ع) نے کیا کہ عزیز بیٹے کی جدائی کو اللّہ کی رضا جان کر قبول کرلیا... وہ
صبر جو ایک ماں نے اپنے نومولود بیٹے کو دریا کے حوالے کرکے کیا. (حضرت
موسیٰ ع)
اپنے لختِ جگر کو اپنے ہاتھوں سے قربانی کی راہ کے حوالے کرنا... کتنی
تکلیف ہوئی ہوگی... بےشک وہ سب اس بات سے لاعلم تھے آگے کیا ہوگا. غیب کا
علم تو صرف اللّہ تبارک و تعالیٰ کے پاس ہے مگر ان کا اللّہ کی ذات پہ
ایمان اتنا پختہ تھا... انہیں یقین تھا کہ اس آزمائش اللّہ کا انعام ہے اور
اس پہ پورا اترنے کا اجر "اللّہ کی رضا, جنت کی بشارت, اور آخرت کی فلاح و
بہبودی" ہے. صبر کے ساتھ یہ عظیم شخصیات جس چیز سے ایثار کی راہ پہ چل
پڑے.. وہ تھا "شکر"... اس خوش قسمتی پہ کہ وہ اللّہ کے ان محبوب بندوں میں
شامل ہیں جنہیں اللّہ آزماتا ہے. انبیاء اکرام کی یہ سیرت ہی ہمارے لیے
آزمائشوں اور اللّہ کے حکم پہ بلاں چوں چراں عمل کیسے کرنا کے لیے حسنِ
نمونہ ہے. اور اللّہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں انبیاءاکرام کی مثالیں ہمارے
لیے ہی بیان کی ہیں قربانی کیا ہے... صبر کیا ہے, صبر کیسے کرنا ہے... صبر
کیوں کرنا ہے... صبر کا اجر کیا ہے.
ام المومنین ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے
سنا : ”کوئی مسلمان جسے کوئی مصیبت پہنچے اور وہ وہی کلمہ کہے جس کا اللہ
تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے (یعنی یہ دعا پڑھے) : (إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا
إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ، اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَ
أَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا) (یقیناً ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں
اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، اے اللہ ! مجھے میری مصیبت میں
اجر عطا فرما اور مجھے اس کی جگہ اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اسے
اس سے بہتر عطا فرماتا ہے۔“
یہ کلمہ پڑھنے سے انسان کو صبر کی توفیق ملتی ہے اور صبر کرنے والوں کو تین
نعمتیں ملتی ہیں:
١- رب کی مہربانیاں
۲- اس کی بہت بڑی رحمت
٣- اور ہدایت یافتہ ہونے کی سند۔
دوسری اور اہم چیز جس کی تلقین ہمیں قرآن میں ملتی ہے وہ ہے "اللّہ سے مدد
مانگنے کی". جب تک اللّہ تعالیٰ نہ چاہیں انسان صبر نہیں کرسکتا. اسی لیے
قرآن میں جہاں جہاں صبر کا تاکید آئی ہے وہاں نماز قائم کرنے کا بھی کہا
گیا ہے... "صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو".
نبی ﷺ کو جب اچانک کوئی حادثہ پیش آتا تو آپ ﷺ نماز پڑھتے۔ [ أبو داوٗد،
التطوع، باب وقت قیام النبی ﷺ من اللیل : 1319، و حسنہ الألبانی، عن حذیفۃ
ؓ ]
اہل علم نے فرمایا : ”صبر تین قسم پر ہے، مصیبت پر صبر، اللہ تعالیٰ کی
اطاعت پر صبر اور نافرمانی سے بچنے پر صبر۔“
بےشک اللّہ اپنے بندوں کو ان کی ہمت سے زیادہ نہیں آزماتا. وہی ہے جو اس سے
نکالتا بھی ہے اور صبر بھی دیتا ہے. اللّہ صبر کرنے والوں کو نوازتا بھی
خوب ہے اور محبوب بھی رکھتا ہے. تو جہاں ہم اللّہ سے اپنے آپ کو صابر بندوں
میں شامل کرنے کی دعا مانگتے ہیں وہیں شاکر بندوں میں شامل ہونے کی بھی
مانگنی چاہیے کہ انسان مشکل میں بے شک اللّہ کی مدد چاہتا اور مانگتا ہے
لیکن شکر اس پریشانی سے نکلنے کے بعد ہی کرتا ہے. اسی لیے پریشانی سے صبر
اور شکر کے ساتھ نکلنے کی دعا مانگنی چاہیے.
صہیب ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا [ مسلم، الزہد، باب المؤمن
أمرہ کلہ خیر : 2999 ] ”مومن کا معاملہ عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر کام ہی
خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی
ہے تو شکر کرتا ہے، سو وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف اور
مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے خیر ہوتی ہے۔“
زندگی کسی کے لیے بھی بہتے پانی کی مانند نہیں ہوتی, طرح طرح کے اونچ نیچ
سے گزر کر ہی آدمی منزل کو پاتا ہے. پہلی ہی چوٹ, پہلی ہی آزمائش پہ ناراضی
کا اظہار کر کے اللّہ تعالیٰ سے دوری اختیار کرنا نری بے وقوفی ہے. زندگی
گزارنے کا نسخہ تو یہی ہے صبر کا دامن تھامتے ہوئے شکر کا طریقہ اپنائے
رکھنا. ایسے ہی لوگوں کو اللّہ تعالیٰ تھامے رکھتے ہیں اور جنہیں وہ ذات
تھام لے اسے بھلا کون گرا سکتا ہے!
" وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسۡبُهٗ ؕ
اور جو کوئی بھروسہ رکھے اللّہ پر تو وہ اس کو کافی ہے. " (سورۃ طلاق - آیت
٣)
***
|