ریٹائرمنٹ کی زندگی بھی عجیب ہے ۔عمر کا ایک بڑا حصہ
ملازمت میں خرچ کرنے کے بعد جب کوئی شخص ریٹائر ہوتا ہے تو کچھ عبیب سی
کیفیت ہوتی ہے۔ شروع میں تو آدمی بہت خوش ہوتا ہے کہ بہت سے مسائل اور بوجھ
جن سے زندگی لدی پھدی تھی، سے با عزت فارغ ہو گیا ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ اب
آرام کروں گا۔مزے سے سارا وقت گھر کے افراد کے ساتھ گزاروں گا۔ مگر کچھ دن
گزرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ فراغت دنیا کی سب سے بڑی بیماری ہے۔شاید
گھر کے لوگ جو اس کی ایک خاص روٹین کے عادی تھے اب اسے تھوڑی مختلف اور
چبھتی نظروں سے دیکھتے ہیں۔انسان جو ساری عمر مشقت کا عادی رہا ہوتا ہے وہ
خود بھی جلد ہی پریشان نظر آنے لگتا ہے۔اسے خود کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ
کیا کیا جائے۔کچھ ایسے ہی حالات سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں بھی دو چار تھا۔
بھلا ہو جناب خان صاحب کا۔ان کی حکومت نئی نئی آئی تھی اور میری پریشانی
عروج پر تھی۔ان حالات میں خان صاحب نے قومی سطح پر لوگوں کو ہدایت کی کہ
اگر ملک کا بھلا چاہتے ہو، اس کی معیشت بہتر کرنے کے خواہشمند ہو تو مرغیاں
پال لو۔آپ کی ذاتی معیشت بھی زبردست ہو جائے گی اور آپ کے اس اقدام سے ملکی
معیشت تو واہ واہ، خوب بھاگے گی۔ مجھے یہ بات بھلی لگی، ایک پنتھ دو کاج،
اپنا کام بھی بن گیا اور قومی خدمت بھی انجام پا گئی۔ میں نے ایک دو دوستوں
سے مشورہ کیا۔ بعض نے کہا کہ مرغیاں پالنے میں کوئی حرج نہیں مگر بعض
ناعاقبت اندیش کہنے لگے کہ خان صاحب کا اعتبار نہیں صبح یو ٹرن لے لیا اور
مرغی کی خامیاں بیان کرنے لگے تو ۔ میں ایسے ملک دشمنوں اور منفی نقطہ نظر
والے لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتا مگر کچھ دوستوں کا مشورہ بہت خوب
تھا کہ یہ مرغیاں گاؤں میں تو دانہ دنکا کھیتوں سے چن لیتی ہیں ،شہر میں تو
سو فیصد ہماری اپنی ڈالی ہوئی خوراک پر گزارا کریں گی جو بہت مہنگی ثابت ہو
گی۔بہتر ہے کہ ایسی مرغی ڈھونڈو کہ جو خوراک کم کھائے اور اتنے معقول انڈے
دے کہ تمہاری اور ملکی معیشت میں ہل جل نظر ائے۔مجھے یہ بات سمجھ آ گئی
کیونکہ میرے ایک ملازم نے دیسی مرغی رکھی ہوئی تھی مگر اس کے انڈے کا
انتظار ایسے ہی کرنا پڑتا جیسے لوگوں کو عید کے چاند کی آس ہوتی ہے۔ دیسی
مرغی سالانہ پچاس ساٹھ انڈے دیتی ہے ۔ شہر میں ایسی مرغی معیشت کی دوست
نہیں دشمن ضرور ہو سکتی ہے۔ میں ایک بار پھر سوچنے پر مجبور تھا۔
میرے گھر کے قریب ایک شفا خانہ حیوانات ہے۔ اخبار میں خبر چھپی کہ وہاں ایک
تقریب ہوئی ہے کہ جہاں خان صاحب کے وژن کے مطابق بارہ سو میں پانچ یا چھ
مرغیوں کا سیٹ دیا جا رہا ہے۔ میں بھاگم بھاگ وہاں پہنچا ۔ سٹاف سے پتہ چلا
کہ وہ چند مرغیاں منسٹر صاحب کے ساتھ ہی آئیں تھیں۔ چند لوگوں کو دیں اور
بس۔ آپ ہیڈ آفس رابطہ کریں کہ آپ کو بھی مل جائیں۔ میں بوڑھا آدمی ، پتہ
کرتے ہوئے کوپر روڈ پر ہٰڈ آفس کی پانچویں منزل پربڑی مشقت سے چڑھنے کے بعد
انچارج حضرت سے ملا ، حکم ہوا کہ اپنے قریبی شفاخانے میں شناختی کارڈ جمع
کرا دواور باری کا انتظار کرو۔ ما شا اﷲ صرف دو سال گزر چکے ، مجھے مرغیوں
کا انتظار ہے، ملک کو معیشت کی بہتری کا انتظا ر ہے اور عوام کوخان صاحب کے
کچھ کر گزرنے کا انتظار ہے۔ خان صاحب کے حکم کے مطابق میں ابھی گھبرایا
نہیں مگر خان صاحب جان لیں کہ ایسے حالات میں فطری طور پر گھبراہٹ حکمرانوں
پر اس بری طرح اترتی ہے کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
کسی نے بتایا کہ راولپنڈی میں پولٹری انسٹیٹیوٹ سے آپ کو مرغیاں مل جائیں
گی۔ میں وہاں پہنچ گیا۔ انچارج خاتون بڑے تپاک سے ملیں اور بتانے لگیں کہ
ہم مرغیاں نہیں دے سکتے۔ آپ کو صرف اپنے قریبی شفا خانے سے باری پر ملیں
گی۔کسی نے بتایا کہ کسی وزیر سے سفارش کرا لو۔ اب اتنے چھوٹے کام کے لئے
وزیر جیسے بڑے آدمی کو تنگ کرنا مجھے کچھ بھایا نہیں مگر بتانے والا بضد
تھا کہ بڑے ناموں والے وزیر اس سے بڑا کام کر ہی نہیں سکتے۔ایسے غلط آدمی
کی بات سننے کی بجائے میں نے رسم کے مطابق شناختی کارڈ جمع کرا دیا ہے ویسے
دو سال ہونے کو آئے نہ میری باری آئی اور نہ ہی کسی معیشت میں بہتری۔
پولٹری انسٹیٹیوت والی خاتون نے البتہ پچاس انڈے قیمتاً دئیے کہ ان سے بچے
نکالو اور کام چلاؤ۔ میں کسی دوست سے ایک مقامی انکوبیٹر لے آیا۔ ہدایت کے
مطابق پورے اکیس دن ہر تین گھنٹے کے بعد انڈوں کو گھمانے کے باوجود میں خود
تو پورا گھوم گیا مگر صرف پچاس میں سے چار چوزے نکلے، وہ بھی پندرہ دن کے
اندر ایک ایک کرکے میرا ساتھ چھوڑ گئے۔مرغی پالنے کے تجربات اب بھی جاری
ہیں۔ ملکی معیشت کی طرح میری مرغی معیشت ابھی تک مسائل کا شکار ہے۔ میرا
ذاتی خزانہ تباہ کن حد تک بگاڑ کا شکار ہے۔اس کام کی ابتدا چونکہ میں نے
خود کی تھی اس لئے کسی پر الزام بھی نہیں دے سکتا لیکن ایک بات اچھی ہے کہ
وقت گزارنے کے لئے معیشت معیشت کھیلنا میرا وقت اچھا گزار دیتا ہے۔
|