برصغیر پاک وہند ایک کثیراللسان خطہ رہا ہے کیوں کہ
یہاں کئی فاتح قومیں آباد ہوئیں اور اپنے اپنے نصب العین کے تحت بعضوں نے
مراجعت کی اور بعض یہاں پر آباد ہوکر رہ گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’آئین
اکبری‘‘میں زبانوں کا تذکرہ جلی حروف سے اس خطے کی تاریخ کا معتبر حصہ ہے۔
تقسیمِ پاک وہند کے بعد کئی زبانوں کا ایک دوسرے سے ٹاکرا ہوامگر یہ طے
پایا کہ وطنِ عزیز پاکستان کی قومی زبان ’’اُردو ‘‘ ہی ہے۔ اُردوزبان کے
مفاہیم ومطالب اور اس کے وجود سے ہر عام وخاص بخوبی واقف ہے۔ آزادیٔ
پاکستان کے بعد سرکار اور عوام آزادیٔ وطن کی پہلی دہائی میں بنیادی مسائل
اور آباد کاری میں اُلجھے رہے۔ درایں حالات قومی زبان ’’اُردو‘‘ کے ارتقاء
کے لیے سرکار نے کچھ ادارے قائم کیے ۔تاہم قائداعظم رحمہ اﷲ تعالیٰ کا
فرمان ہوا کہ جس ضلع میں علاقائی زبان اکثریت سے بولی جاتی ہے تو اس ضلع کی
دفتری زبان بھی وہی ہوگی۔ البتہ صوبائی مرکز میں علاقائی زبانوں کی
اسائنمنٹس اُردو ترجمے کے ساتھ جمع کرائی جائیں گی اور ساتھ ہی فیڈرل میں
قومی زبان اُردو ہی راج کرے گی۔پاکستان اسٹبلشمنٹ نے قائداعظم کے اس فرمان
کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صوبائی ووفاقی دفاتر میں قومی زبان ’’اُردو‘‘کو
جزوی اور انٹر نیشنل زبان’’ انگلش‘‘ کو ترجیحاً استعمال کیا جو آج تک پوری
آب وتاب سے مروّج ہے۔ اس طرح کئی علاقائی زبانوں کا استحصال ہوا۔
فیلڈ مارشل صدرایوب خان کے دورِ اقتدار میں وطن عزیز کے حالات کچھ ساز گار
ہوئے تو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ایک تبدیلی رونما ہوئی۔صدرایوب نے مغربی اور
مشرقی پاکستان کے عوام کی Family planning and National Integrationایسے
مقاصد کے تحت یک مشت دیکھناچاہتے تھے۔لہذا ان مقاصد کے تحت علاقائی زبانوں
کو فروغ دینے کے لیے کئی ایک پالیسیاں وضع کی گئیں۔قدرت اﷲ شہاب اُس وقت
صدر ایوب کے سیکرٹری تھے جن کی کاوشیں فروغ ادب کے لیے روز روشن کی طرح
نمایاں تھیں۔اِس طرح قرۃ العین حیدر اور اُن کے معاصرین کی جدوجہدکے نتیجے
میں’’رائٹر گلڈاُردو‘‘کاانعقاد ہوا۔اس تنظیم کے کراچی کنونشن میں جناب قدرت
اﷲ شہاب کو تنظیم ہذا کا صدر منتخب کیا گیا۔ ملتان ریجن سے ریاض
انورایڈوکیٹ ( ایک نام وَر شاعر اوردانش ورتھے) کو اس تنظیم کا جنرل
سیکرٹری کا عہدہ سونپا گیا۔بنگالی زبان کے مشہور دانش ور وجیہہ الدین اﷲ
اور صلاح الدین کی دوستانہ کاوشوں سے ریاض انور میں ایک قومی درد کی تحریک
اُبھری ۔اس تحریک کے نتیجے میں علاقائی بولیوں کے ادب کو قومی زبان اُردو
اور انٹرنیشنل زبان انگریزی میں تراجم کا فیصلہ ہوا۔اس طرح کئی علاقائی
بولیوں نے اپنے ترقی کے مراحل طے کیے۔بعدازاں یہ تنظیم ’’پاکستان
فاؤنڈیشن‘‘کے نام سے قومی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی رہی۔جس کے ذریعے
سرائیکی،بلوچی،سندھی پشتو و غیرہم کے تراجم اُردو اور انگریزی زبان میں کیے
گئے۔یہ زمانہ علاقائی زبانوں کے لیے سودمند ثابت ہوا۔بعض علاقائی بولیاں
زبان کے درجہ تک پہنچیں۔بعض بولیوں کا وسائل نہ ہونے کی وجہ سے استحصال بھی
ہوا۔علاقائی بولیوں کے فروغ کے نتیجے میں بالآخر ۱۹۷۶ء کو صدر ذوالفقارعلی
بھٹو مرحوم نے ایک ادارہ’’اکادمی ادبیات پاکستان ‘‘کے نام سے قائم کیا۔
ادارہ’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘نے اپنی پالیسیاں وضع کیں ۔جن میں پاکستان
میں بولی جانے والی بولیوں اور زبانوں کے ادب کی Submission and Printingاس
کے فرائض میں شامل تھی۔مگر ادارہ ہذا محدود وسائل کی وجہ سے ایسا کرنے سے
قاصر رہا۔البتہ اپنی پالیسی کے تحت صاحب ثروت و صاحبِ اختیار لوگوں کی
تصانیف یقینا اس ادارہ سے منظر عام پرآئی ہیں۔البتہ ’’اکادمی ادبیات
پاکستان‘‘علاقائی ادب کو دخیرہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ علاقائی ادب کو جمع
کرنے کی پالیسی یہ تھی کہ مصنف اپنی چارکتب ادارہ ہذاکو ار سال
کرتااورادارہ مصنف کی حوصلہ افزائی اور کتب وصولی کی رسید بھیجتا معاً اُن
چار کتابوں کی قیمت بھی ادا کرتا ۔کچھ عرصہ بعد یہ بھی ایک خواب عبث ہوا۔
لیکن ایک روش باقی رہی وہ یہ کہ ادارہ ہذا ہرسال پاکستان کے مصنفین کو اُن
کی کتب پر مختلف نوعیت کے ایوارڈ دیاکرتاتھا۔اس میں بھی ایک خامی تھی کہ
اکثر بڑے ایوارڈ صرف بڑے ہی لوگوں کو دیے گئے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اس میں
بھی سیاست مخل رہی۔نیز یہ کہ جب صدارتی ایوارڈ یافتہ کتب کو پڑھتے تھے تو
ججزیپنل کی بدذوقی اور لوازمات شعر سے ناواقفیت آشکار ہوجاتی۔یہاں تک کہ
شاعری کی کتب جو صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں۔بعض میں شعری اصطلاحات و تراکیب
کجا تلمیحات تک بھی نادرست پائی ہیں اِن حالات میں اکثر شعر یاد آتا ہے:
رفیقانِ چمن کی بے دِلی کاتذکرہ کیا ہو
یہاں سائے بھی سورج کی طرف جا کر ہی ڈھلتے ہیں
المختصر!’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ادارہ کی کارکردگی ایک جامع کتاب کی
متقاضی ہے۔البتہ ۲۰۱۷ء سے ادارہ ہذا فعال ہوا اور تمام زبانوں کے مصنفین کو
اسکا لرشپ جاری کیے ، جس سے ہنوز بھی مصنفین اِستفادہ کررہے ہیں۔چندسالوں
سے’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘نے مشہور و معروف دانش وروں اور شعرأ کے نام
شام منانے کا اہتمام کیا ہوا ہے جو کہ یہ عمدہ ترین پیش رفت ہے۔امسال ادارہ
ہذانے رمضان المبارک میں حمدیہ و نعتیہ مشاعروں کا آن لائن اہتمام کیا ہوا
ہے۔گزشتہ ہفتے قومی زبان اُردو کامشاعرہ ہواتودیرہ غازی خان سے فقط ڈاکٹر
نجم شاہینؔ کھوسہ کو شامل کیا گیا۔حالاں کہ دیرہ غازی خان کا شعری منظر اور
پسِ منظر کچھ اور کاتقاضا کرتا ہے۔پھربھی خوشی ہوئی کہ دیرہ غازی خان کی
طرف سے نمایندگی تو ہوئی۔
ادارہ ’’اکادمی ادبیات پاکستان ‘‘نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے سرائیکی
حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ کا اعلان کیا۔یہ اعلان سعدیہ شکیل کی فیس بک آئی ڈی
سے ۲۲،اپریل کو آن ائیر ہوا۔المشتہر ڈاکٹر یوسف خشکؔ تھے ۔ مشاعرہ کے اس
اشتہار کو پڑھ کر ایک ذہنی سی کوفت اُٹھی کہ گزشتہ ہفتے اُردو زبان کے
مشاعرہ میں شرکائے محفل کی تعداد تریپن(۵۳)افراد پر مشتمل تھی۔اس کے مقابلے
سرائیکی جوکہ پاکستان کی سب سے بڑی زبان ہے اس کے آن لائن مشاعرہ میں صرف
بارہ( ۱۲) شرکاء !توراقم الحروف کو فی البدیہ کہنا پڑا۔
یہاں سورج نکلتا ہے ، اُجالا کر نہیں پاتا
مسلسل رات رہتی ہے ، مرے جاناں ، جہاں ہم ہیں
نیز شعرأ کی فہرست میں بعد المشرقین اور کھلا تضاد سرائیکی عوام اور قلم
کاروں کو تقسیم کرنے کا عندیہ؍ سازش لگی۔ملتان ڈویژن سے تین،بہاول پور
ڈویژن سے پانج،مظفر گڑھ سے دو،میاں والی اور دیرہ اسماعیل خان سے ایک ایک
شاعر کو مدعو کیا گیا ہے۔دیرہ غازی خان سے کسی شاعر کو شاملِ مشاعرہ نہ
کرکے منتظمینِ مشاعرہ نے بددیانتی اور اقرباء پروری سے کام لیا ہے۔اس
اشتہار میں سرائیکی زبان کے مہان شعرأ کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے ۔
نیز اشتہار میں حفظانِ مراتب کو بھی یکسر سبوتاژکیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
ہم ڈاکٹر یوسف خشکؔ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس قائم مقام کمیٹی
کاجائزہ لیں کیوں کہ ایسی حرکات طبقاتی کش مکش کا باعث بنتی ہیں۔دیرہ غازی
خان وطن عزیز کا نمایندہ خطہ ہے۔ جہاں اُردو ،سرائیکی اور بلوچی کا نمایندہ
تخلیقی ادب تاریخ کا نمایاں حصہ ہے۔
بنایریں ہم ادارہ’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘کے اعلیٰ عہدیدران سے مطالبہ
کرتے ہیں کہ وسعت اور اعلیٰ تخلیقی ادب کے اعتبار سرائیکی قلم کاروں بھی
اُتنا جگہ دی جائے جتنا کہ قومی زبان اُردو کے قلم کاروں کی دی جاتی ہے۔
ہردوزبانوں(اُردو،سرائیکی)کالٹریچر ادارہ ہذامیں موجود ہے۔مزیدتحقیق کے لیے
ایک غیر جانبدار کمیٹی قائم کرکے ہردوزبانوں(اُردو،سرائیکی) کے ادب کا
تقابل کیا جائے جو ماضی اور مستقبل قریب کی تاریخ کا روشن باب ثابت ہو۔
٭٭٭
|