سناتن رسم و رواج اور عقائد کے لحاظ سے رام نومیکوشری رام
کا یوم پیدائش مانا جاتا ہے۔ رام بھکت اسے نوراتر کے طور پرہندو کیلنڈر کے
پہلے مہینے چیتر کی یکم سے ۹ تاریخ تک مناتے ہیں ۔ وطن عزیز میں سب سے بڑا
رام بھکت وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ چونکہ گورکھ ناتھ مندر کے مہنت بھی
ہے ۔ وہ ہر سال اپنے گورکش ناتھ مندر میں اس دن کنیا پوجن کرتے ہیں ۔ وزیر
اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے اس تصویریں بھی سوشیل میڈیا پر
ڈالنا شروع کردی تھیں تاکہ اس کا بھر پور سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ پچھلے
سال وہ کورونا کے سبب گورکھپور نہیں گئے۔ ان کے میڈیا صلاح کار مرتنجئے
کمار نے ذرائع ابلاغ کوبتایا تھا اس بار کنیا پوجن نہیں کیا گیا بلکہ لکھنو
میں افسران کے ساتھ کورونا کی وبا کا جائزہ لیا گیاکیونکہ یہ بھی ایک طرح
کی کورونا وناشک (کورونا کش ) پوجا تھی۔ ملک اور صوبے کے لوگوں کی خاطر بہت
ضروری تھی ۔ اب آئیے اس رام نومی سے اس رام نومی تک کورونا کا جائزہ لیں ۔
یوگی جی کے دفتر سے جس وقت یہ سمجھداری کی باتیں کہی جارہی تھیں پورے ملک
میں کورونا سے متاثرین کی تعداد صرف 1860تھی ۔ ان میں 155 لوگ ٹھیک ہوچکے
تھے اور 53 لقمۂ اجل بن گئےتھے ۔ آگے چل کر جب انتخاب کا جنون سوار ہوا
تو وہ اور ان کی پارٹی یہ سمجھداری چھوڑ کر زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم
میں جٹ گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امسال چیتر مہینے کی پہلی تاریخ کو
یوگی جی نے کورونا کی علامات محسوس کیں اور ازخود تنہائی میں جانے کا فیصلہ
کیا اور دوسرے دن جانچ کے بعد پتہ چلا وہ خود پوزیٹیو ہیں ۔ اس سال رام
نومی کا تہوار 21؍ اپریل کو پڑا۔ اس دن ہندوستان یومیہ مریض کی تعداد میں
امریکہ کا ریکارڈ توڑ کر پہلے نمبر آگیا یعنی ایک دن 3 لاکھ15 ہزار سے
زیادہ نئے مریض درج کیے گئے ۔ ایک دن کے اندر مرنے والوں کی تعداد 2091
بتائی گئی ۔ ملک میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی جملہ سرکاری تعداد ایک
کروڈ 69 لاکھ ۲۴24 ہزار 914پر پہنچ گئی اورکل مرنے والے ایک لاکھ 84 ہزار
662ہوگئے ۔ اس خطرناک اضافہ کے سبب رام نومی کا تہوار تو ضرور متاثر ہوا
لیکن اتر پردیش میں جاری و ساری پنچایت کے الیکشن پر اس کا کوئی اثر نہیں
پڑا ۔ سوال یہ ہے اگر انتخاب بھی کچھ مہینوں کے لیے ملتوی کردیا جاتا تو
کون سی قیامت آجاتی ؟
ایودھیا نگری میں اس سال رام نومی کے دن سَنت سماج کے سربراہ کنہیا داس اور
رنگ محل مندر کے مہنت رام شرن داس کورونا پازیٹو پائے گئے۔ کووڈ-19 کے سبب
درشن نگر کے میڈیکل کالج کو کووڈ اسپتال بنانا پڑا۔ ایسے میں رام جنم بھومی
مندر سمیت ایودھیا کے تقریباً سبھی بڑے مندروں کے دروازےزائرین کے لیے بند
کر دیئے گئے ۔ چھٹی کے باوجودوکانیں بند رکھنے کے احکامات جاری ہوئے اور
شام 7 بجے سے لے کر صبح 9 بجے تک لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرایا گیا ۔یہ
فیصلہ ایودھیا میں کووڈ-19 کے تیزی سے پھیلاو اور روز افزوں شرح اموات کے
پیش نظر کیا گیا۔ رام جنم بھومی مندر، کنک بھون، ناگیشورناتھ، ہنومان گڑھی
سمیت سبھی اہم مندروں کے سَنت مہنت اور انتظامی افسر ان نے لوگوں سے
ایودھیا آنے کے بجائے اپنے گھروں کے اندر پوجا پاٹ کرنے کی اپیل کی۔ یہ
کیفیت پچھلے سال سے بالکل برعکس ہے ۔
سال 2020 میں رام نومی کے تہوار کی ابتداء 25 مارچ سے ہونی تھی مگراسی
زمانے میں کورونا وائرس اپنی تباہی و بربادی کا آغاز کرچکا تھا ۔ اندرونِ
ملک کئی ریاستی حکومتیں احتیاطی قدم اٹھانے لگی تھیں لیکن اس سے بے نیاز
اتر پردیش کی یوگی سرکار نے رام نومی کے موقع پر ایودھیا میں ایک عظیم
الشان پروگرام کے انعقاد کو منظوری دےدی ۔ 25 مارچ سے 2 اپریل کے درمیان
منعقد ہونے والے میلے میں لاکھوں لوگوں کا مجمع ہونا یقینی تھا ۔ حیرت کی
بات یہ ہے کہ ایودھیا کے چیف میڈیکل آفیسرکے میلے کو رد کرنے کی گزارش کے
باوجودرام بھکتوں کی جان سے کھلواڑ کا بدبختانہ فیصلہ کیا گیا ۔ اترپردیش
کے سی ایم او گھنشیام سنگھ نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ، ’ہمارے پاس اتنی
بڑی تعداد میں لوگوں کی جانچ کرنے کے لیے ضروری وسائل نہیں ہیں‘، لیکن
آدتیہ ناتھ سرکار نے ہندوؤں کی ناراضگی سے بچنے کی خاطران کی صحت کو خطرے
میں ڈال دیا۔ رام مندر سے متعلق سپریم کورٹ کے ظالمانہ فیصلے کے بعد چونکہ
وہ پہلی رام نومی تھی اس لیے لوگوں میں جوش زیادہ تھا جس کا سیاسی فائدہ
اٹھانا سرکار کامطمح نظر تھا اس لیے یہ ہوگیا۔
سرکاری افسران نے پہلے تو مخالفت کی لیکن فیصلے کے بعد ان کالب و لہجہ بدل
گیا ۔ ایودھیا کے ضلع مجسٹریٹ انج کمار جھا نے سرکار ی فیصلے کی حمایت میں
کہا، ’یہ روایت کا حصہ ہے اور ہم احتیاط برتیں گے لیکن رام نومی کے میلے کو
رد کرنے کا منصوبہ نہیں ہے‘۔ اس طرح گویا یوگی راج کے اندرروایت کی آڑ میں
سیاست کو انسانی جان و صحت پر فوقیت حاصل ہوگئی۔ کاش کہ کوتاہ اندیش وزیر
اعلیٰ کو جو بات بعد میں سمجھ آئی وہ پہلے آجاتی حالت اتنی ابتر نہ
ہوتی۔آدتیہ ناتھ سرکار کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے پر ہندو سنتوں اور
ہندوتوا نوا زتنظیموں نے حسبِ توقع خوشی کا اظہار کیا ۔ ایودھیا کے مہنت
پرم ہنس بولے، ’اس کو(میلے کو)روکا نہیں جا سکتا ہے…اس سے لاکھوں ہندوؤں کے
جذبات کو ٹھیس پہنچے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سال زیادہ خاص ہے…پہلی
بار رام للا آزاد ہوئے ہیں‘۔ اس سال رام بھکت ان کو تلاش کررہے ہیں مگرپرم
ہنس کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔
پرم ہنس نے پچھلے سال اعلان کیا تھا ’ رام یہ یقینی بنائیں گے کہ عقیدت
مندوں کو کوئی نقصان نہ پہنچےنیز سبھی سنت ایک محفوظ پروگرام کے لیےیگیہ
کریں گے‘۔ یگیہ تو ہوگیا مگر اس کے باوجودآگے چل کر رام جنم بھومی تیرتھ
ٹرسٹ کے صدر مہنت نتیا گوپال داس کوکورونا پازیٹیو اہونے کے سبب اسپتال میں
داخل کرنا پڑا۔ موصوف رام جنم بھومی کے سنگ بنیاد میں وزیر اعظم کے ساتھ
تھے ۔رام جنم بھومی کےسب سے بڑے پجاری آچاریہ ستیندر داس کے شاگرد پردیپ
داس کو بھی یگیہ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور وہ بھی سنگ بنیاد سے قبل
کورونا سے متاثر ہوگئے۔ ویسے جو یگیہ یوگی ادیتیہ ناتھ کا بھلا نہ کرسکا وہ
دوسروں کے کس کام آتا ؟ حیرت کی بات یہ ہے رام مندر کی تحریک چلانے والے
وشو ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار نے بڑے پروگرام سے بچنے کا مشورہ دیا مگر
مقامی بی جے پی رکن اسمبلی وید پرکاش گپتا نے میلہ منعقد کرنے پر اصرار
کیایعنی دھرم پر سیاست غالب تھی۔
سیاسی غلبہ کے جنون یہ حالت کردی کہ آکسیجن کے حالیہ بحران پر دہلی ہائی
کورٹ نےاسپتالوں میں مودی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے سوال کیا کہ کوئی
حکومت عوام کی زندگیوں کے تئیں اس قدر لاپرواہ اور بے حس کیسے ہو سکتی ہے؟
عدالت کو پتہ ہونا چاہیے کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔ عدالت نے پوچھا ، ’’حکومت
زمینی حقائق سے آخر اس قدر غافل کیوں ہے؟ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے آپ لوگوں
کو اس طرح مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔ بھیک مانگ کر، ادھار یا پھر چوری کر
کے جیسے بھی بن پڑے، آکسیجن کا انتظام کریں، یہ آپ کا کام ہے‘‘ لیکن اس
سرکار کا تو واحد ہدف زیادہ زیادہ الیکشن جیتنا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے قوم
سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی حکومت آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے
لیے ریاستی حکومتوں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے؟ لوگ
جاننا چاہتے ہیں کہ سرکار کیا کررہی ہے اور اس کا نتیجہ کیوں نہیں نکلتا ؟
سچ تو یہ ہے ان لوگوں کو صرف بولنا آتا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں آتا۔
دہلی ہائی کورٹ کے بعد مرکزی حکومت کے آگے دم ہلانے والے عدالت عظمیٰ کو
بھی ہوش آیا اور اس نے کورونا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے
قومی ایمرجنسی سے تشبیہ دی ۔ اس بار سپریم کورٹ نے آکسیجن کی فراہمی اور
ویکسین کے معاملے سمیت چار امور پر ازخود نوٹس لے کر مرکز کو نوٹس جاری کیا
۔چیف جسٹس بوبڈے نے سبکدوشی سے قبل آخری دن سرکار کو تباہی سے نمٹنے کے
لئے قومی منصوبہ پیش کرنے حکم دیا ۔ جسٹس بوبڈے نے ملک کے اندر 6 ہائی کورٹ
میں جاری سماعت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی خاطر یہ کیا اور جاتے جاتے بھی
تنقید کا نشانہ بنے ۔سپریم کورٹ نے سرکار سے کہا کہ وہ آکسیجن کی فراہمی ،
ضروری ادویات کی فراہمی ، ویکسین لگانے کے طریقہ کار اور لاک ڈاؤن کے
معاملے پر غور کرے گی۔ بنیادی طور پر یہ مقننہ اور انتظامیہ کے کرنے کا کام
ہے لیکن اگر سرکار اپنی ساری توجہ اور توانائی انتخابی جوڑ توڑ میں جھونک
دے تو عدلیہ کو اقدام کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ کورونا نے پچھلے سال
اپنی جھلک دکھا کر ملک کے اندر طبی شعبے کی کمزوریوں سے خبردار کردیا تھا
تا کہ سرکار سنبھل پاتی مگر اس نے پورا سال ایک مجرمانہ لاپرواہی کی نذر
کردیا۔ افسوس کہ اس کی بھاری قیمت ملک کے عوام چکا رہے ہیں۔ اس صورتحال
پرمظفر رزمی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|