کورونا وباء کی تیسری لہر اور عوامی غیر سنجیدگی

کورونا وائرس یا کوڈ 19 نے گزشتہ دو سالوں سے خطے ارض کے طول و بلد میں جو تباہی مچا رکھی ہے اسکی مثال انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ گو کہ ماضی میں بھی کئی امراض پھوٹ پڑے اور وسیع پیمانے پر جنگیں بھی وقوع پذیر ہو چکی ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آگئی ہو مگر اب ایسا ضرور ہے۔ دنیا کا کوئی شہر، ملک، خطہ یا براعظم ایسا نہیں جہاں اس موزی وباء نے پنجھے نہ گاڑھ رکھے ہوں ماسوائے براعظم انٹارٹکا کے جہاں درجہ حرارت پورا سال منفی اور برف سے ڈھکا رہتا ہے جسکی وجہ سے وائرس کا وہاں پنپنا ممکن نہیں ۔کورونا وائرس کی افزائش کے متعلق بھی کئی نظریات سامنے آئے ہیں ۔ کچھ ماہرین و سائنسدانوں کے مطابق یہ وباء 7جنوری 2020 کو چینی شہر وہان کی جانوروں کی مارکیٹ سے پھوٹی جبکہ حالیہ ایک اور تحقیق کے مطابق بھارت کو اس وباء کا پیدائشی مرکز قرار دیا جا رہا ہے ۔ اس موزی وباء سے تادم تحریر دنیا بھر سے 147،730،985 متاثر ہو چکے ہیں جس میں سے 3،122،431 افراد جاں بحق جبکہ 124،570،423 افراد اس وباء کو شکست دے کر زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں ۔پاکستان میں اس وباء کی تشخیص 26 فروری 2020 کو ہوئی ۔ اس وبا کی ملک میں دو شدید لہریں گزر چکی ہیں جبکہ حالیہ تیسری لہر کو پہلے سے زیادہ ہلاک خیز قرار دیا جا رہا ہے ۔ تا دم تحریر پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 795،627 ہے جس میں سے 17،117 افراد جاں بحق اور 689،812 افراد صحتیاب ہوچکے ہیں درج بالا اعدادوشمار کے مطابق شرح اموات 2 فیصد جبکہ شرح صحتیابی 98 فیصد ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کورونا وباء کی ہلاکت خیزیاں دوسرے ممالک کے نسبت خاصی کم رہیں لیکن افسوس کہ عوامی بد احتیاطی کے سبب حالیہ تیسری لہر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے جسکے اثرات بھی دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ اس لہر نے سب سے زیادہ تباہی پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں مچا رکھی ہے ۔ پنجاب کے کئی شہروں میں کورونا کیسسز کی شرح 15 سے 20 فیصد تک بڑھ چکی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے ۔ ملکی پیداواری آکسیجن کا 90 فیصد حصہ ہسپتالوں میں استعمال ہو رہا ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق اگر یہ صورتحال جاری رہی تو اگلے دو ہفتوں کے دوران مکمل لاک ڈاون کیا جاسکتا ہے ۔ اس پیچیدہ صورتحال کی اصل وجہ عوام کی جانب سے حکومتی ایس۔او۔پیز پر عمل نہ کرنا ہے ۔ اس انتہائی پیچیدہ و نازک صورتحال میں عوامی رویہ مایوس کن ہے۔ حکومت کی جانب سے بارہا تنبیہ کے باوجود عوام غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ نہ ہوٹلوں اور بازاروں کی گہما گہمی میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ماسک پہننے کو تیار ہے ۔ قانون نافذ کر نے والے اداروں کی بارہا کوشش و ناکامی کے باعث وزیراعظم نے فوج کو طلب کرنے کے فیصلہ کر لیا ہے۔ پاک فوج سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایس۔ او۔ پیز پر عملدرامد یقینی بنائے گی۔ اب اسے باغیانہ طبیعت کہہ لیجیئے یا پڑھی لکھی جہالت جب تک ہماری قوم کو وقت کی چوٹ نہ پڑے یا کوئی ڈنڈا لئے سر پر کھڑا نہ ہو تب تک کسی بات پر آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کو تیار نہیں ہوتی ہے ۔ گو کہ لوگ کورونا کی ہلاکت خیزیوں سے رب کی پناہ مانگتے تو نظر آتے ہیں وہی سماجی فاصلے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ میل جول میں کمی لانے کو تیار ہیں اور نہ ہی پر ہجوم اجتماعات سے پرہیز کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان جیسے ملک جہاں کے مسلمان مذہبی روجھان زیادہ رکھتے ہیں علماء کرام کی تنبیہیوں اور احادیث نبوی (ص) کی وبائی امراض سے متعلق احتیاطی ترابیروں پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں ۔ عوامی ایک طبقہ تو اس وباء کو مغربی سازش قرار دے کر اسکے وجود کا ہی انکاری ہے اب انہیں کون سمجائے کہ اسی وباء بے سعودیہ اور ایران جیسے اہم اسلامی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور وہاں کی حکومتیں بھی عوام کے تحفظ کے لئے حفاظتی اقدامات اٹھا رہی ہیں ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کورونا نے ایسی تباہی مچا رکھی ہے کہ نہ ہسپتالوں میں آکسیجن و بستر میسر ہیں تو نہ ہی شرح اموات میں کمی دیکھنے کو آرہی ہے۔ قبرستانوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے اور شمشان گھاٹ جہاں ہندو رسوم کے مطابق ایک چتا جلانے کے اگلے 48 گھنٹوں دوسری نہیں جلائی جاسکتی اب وہاں 24 گھنٹے بلا کسی وقفے کے فضاؤں کو چھوتا سیاہ دھواں اور جلتے شعلے دل دہلا دینے والے مناظر پیش کر رہے ہیں ۔ وہاں بھی عوامی غیر سنجیدگی نے ایسے دردناک قومی المیے کو جنم دیا ہے۔ اب من حیث القوام ہمیں بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ عید کی خریداری کے سلسلے میں مزید ایس۔او۔پیز کی خلاف ورزیاں ہو سکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو خدانخواستہ ہمیں بھی بھارت جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ضمن میں میڈیا کو چاہیے کہ وہ موثر تشہیری مہم چلائے جبکہ حکومت پر لازم ہے کہ مکمل لاک ڑاون سمیت ہر ممکن اقدام اٹھائے تاکہ آج کو قربان کر کے آنے والے کل کو محفوظ بنایا جاسکے۔

ختم شد ۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Babar Ayaz
About the Author: Babar Ayaz Read More Articles by Babar Ayaz: 19 Articles with 13706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.