میں آزاد ملک کا آذاد شہری ہوں میرے ادارے آذادی کا راگ
الاپتے نہیں تھکتے ہیں مگر آذادی کی حدود کا تعین کس طرح ہو؟ جسٹس فائز
عیسٰ میرے لیے انتہائی محترم ہیں اور عدالتی فیصلے نے ان کے باعثِ احترام
ہونے پر مہر بھی ثبت کر دی ہے، مگر انتہائی احترام سے میرے ذہن میں فقط ایک
سوال گردش کر رہا ہے کہ اگر یہ فیصلہ درست ہے تو ایف بی آر کی تفتیش جس میں
انتہائی تشویشناک باتوں کا احاطہ کیا گیا تھا اور عدالت نے اس کو کالعدم
قرار دیا ہے اس کے لئے بس اتنا ہی کہ وہ کالعدم ہو گئی بس! اس ادارے نے اگر
غلط تفتیش کی ہے تو یہ معزز جج صاحب ا کی توہین ہی نہیں بلکہ یہ نظامِ
انصاف اور عدلیہ سے عام شخص کا عدالتوں پر سے اعتماد ہٹانے کے مترادف سازش
ہے، پہلے ہی عوام اس معاملے پر حیران ہیں کہ ایک مجرم خاتون کو اپنے مجرم
اور عدالتی ذرائع کے استعمال سے مفرور والد کی ایک پراسرار بیماری کی
تیمارداری کی اجازت کے طور پہ ضمانت پر رہائیہو گئی جبکہ جبکہ ان کے والدِ
محترم ملک میں ہی نہیں ، اور خاص کر ریاستِ مدینہ کا خواب دکھانے والوں کو
یہ ہم بتائیں گے کہ ریاستِ مدینہ کے بانی کا ایک قول کہ اگر فاظمہ بنت محمد
بھی (خاکم بدہن) چوری کی مرتکب ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم
دیتا ریاستِ مدینہ کا انصاف تو یہ کہتا ہے جناب ہم یہ کونسی ریاستِ مدینہ
بنا رہے ہیں؟ تو ایف بی آر کی رپورٹ اگر غلط تھی تو کیا فقط اس کو کالعدم
قرار دینا کافی تھا یا اس کہ ذمہ داروں کو ایک معزز جج صاحب پر سنگین
الزامات لگانے کے بعد فقط ان کی رپورٹ کو غلط قرار دینا کافی تھا؟ اس مقام
پر عبرت کا نشان بنانا چاہیے تھا کہ اس ادارے کے خلاف ایسی کاروائی ہونی
چاہیے کہ آئندہ کوئی شخص یا ادارہ عدلیہ کی جانب یا کسی معزز جج کی جانب
انگلی اٹھانے سے پہلے سینکڑوں مرتبہ سوچے مگر ایسا ہوا نہیں تو مرزا غالب
کا یہ شعر شاید کچھ چغلی کھا رہا ہے کہ
بے خودی بلا سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
عوام یہ سوچے گی ضرور یا تو اس کی شفافیت کو ممکن بنایا جائے یا پھر اس
عوام کو جھوٹے دلاسوں سے بچنے کی تلقین کرنے دی جائے جو آپس میں کسی اختلاف
پر ایک دوسرے کو انتہائی اعتماد سے یہ دھمکی دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ I
will see you in the court جو ان کے عدالتوں پر اعتماد پر یقین کا مظہر ہے
کہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ان کی بات سنے گا جہاں ان کی شنوائی ہو گی اور
معذرت کے ساتھ ان نرم رویوں کے باعث اب لوگ یہ جملہ بھی استعمال نہیں کرنا
چاہ رہے ہیں، میری معزز جج صاحبان اور عدالتی نظام کے رہنماوٗں سے انتہائی
ادب کے ساتھ درخواست ہے ہمارا یہ بھرم قائم رہنے دیں خدارا ہمارا یہ اعتماد
ختم نہ کریں جو ہم آپ پر کرتے ہیں مبادا ہم عوام یہ سمجھنے اور کہنے پر
مجبور نہ ہو جائیں
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے۔
|