آکسیجن کی کمی سے جب قوم کا دم گھٹنے لگا بلکہ سانسیں
اکھڑنے لگیں تو وزیر اعظم کو اپنے پی ایم کیئر فنڈ کا خیال آیا ۔ اس مالِ
مفت پر دلِ بے رحم نے راجہ ہریش چندر کی چتا پر لات مار کے551 آکسیجن
پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس تعداد کو دیکھو تو ایسا لگتا ہے کسی شادی میں
عطیہ دے رہے ہیں ۔ لاشوں کو سڑکوں پر جلتا دیکھ کر بھی شرم نہ آئے تو یہ
بے حسی اورڈرامہ بازی کی انتہا ہے۔ اس پر دم چھلہ امیت شاہ نے چاپلوسی کو
بام عروج پر پہنچاتے ہوئے شکریہ ادا کردیا۔ کیا اسی لیے انہیں وزارت داخلہ
کا قلمدان سونپا گیا ہے کہ دن رات نمو نمو کا بھجن کیرتن کرتے رہیں ۔ شاہ
جی کے اس ٹویٹ پر لوگوں نے ایسی خبر لی کہ وہ دو نوں تک ٹوئیٹر کا منہ نہ
دیکھیں۔ ایک نے تو ویڈیو ڈال کر کہا’’ چین سے فوج لڑے گی ۔ پاکستان سے
میڈیا لڑے گا کورونا سے عوام لڑے گی مگر بی جے پی تو صرف انتخاب لڑے گی ۔
وکاس بول کے شمشان میں کودوا دیا ‘‘۔ عوام کے پیسے پر سانپ بن کر بیٹھنے
والے کا اس مجرمانہ تاخیر پر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت سے انکار کرنے والوں
کا تانتی لگ گیا ۔
اس بابت جسوندر کور نامی صارف نے یاد دلایا کہ حال میں وزیر اعظم نے بنگال
میں 18 ، آسام اور تمل ناڈو میں 7 اور 7 نیزکیرالہ میں 5 ریلیاں کیں۔ اس
کے بعد سوال کیا اور کتنے صوبوں کے اسپتال میں نہیں گئے؟ وہ بیچاری نہیں
جانتی کہ مودی جی اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرتے ۔ اسپتال میں تڑپنے والا
مریض نہ خود ووٹ دے سکتا ہے اور نہ اس کے تیمار داراہل خانہ ووٹ کی قطار
میں کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ اس لیے ان کے پاس جانے سے کیا فائدہ ؟ ہاں مودی جی
مغربی بنگال کی سرحد کے پار بنگلا دیش کے مندروں میں تک پہنچ گئے اور اس کا
خوب پرچار کیا کیوں کہ وہی عقیدتمند تو ووٹ کی برسات کرتے ہیں ۔ عبداللہ
نامی صارف نے تو وہ لکھ دیا جس کاتصور بھی مشکل تھا ۔ انہوں نے لکھا وہ تو
خیر سے پچھلی حکومتیں اسپتال بنا گئیں ورنہ کورونا کے مریضوں کو بیت الخلا
میں علاج کرانا پڑتا۔ معروف صحافی سندیپ چودھری نے الگ سے ایک ٹویٹ میں
لکھا ’جس طالبہ نے اپنا گلک توڑ کر پی ایم کیئر میں پانچ ہزار روپیہ چندہ
دیا تھا وہ بیچاری آکسیجن کے بغیر فوت ہوگئی‘۔اس کے جواب میں سنجیو نے
لکھا ’تم مجھے ووٹ دو ، میں تمہیں موت دوں گا ‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیر
اعظم یہ معمولی فیصلہ کرنے کے لیے اس اندوہناک خبر کے منتظر تھے؟
حکومت کی بے اعتنائی سے پریشان اور مایوس ہوکر اب لو گ عدالتوں سے رجوع
کرنے لگے ہیں۔اس معاملے میں سب سے پہلے الہ باد ہائی کورٹ نے اپنی ذمہ داری
کو محسوس کرتے ہوئے خستہ حال شہروں میں لاک ڈاون لگانے کے احکامات دیئے تو
اترپردیش کی سرپھری سرکار نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بناکر عدالت عظمیٰ میں
چیلنج کردیا ۔ کورونا کے حوالے سے بی جے پی کی عدم سنجیدگی کایہ عالم ہےکہ
مرکزی حکومت نے اپنے وزیر اعلیٰ کو سمجھانے کے بجائے اس کی پشت پناہی کے
لیے اپنا وکیل بھیج دیا اور معاملہ تعطل کا شکار ہوگیا ۔اس کے بعد دہلی
ہائی کورٹ نے بھی وزیر اعظم کی مانند کورونا کی دوسری لہر کو سونامی سے
تشبیہ دے دی ۔ فرق یہ ہے کہ وزیر اعظم کے مطابق وہ جاچکی ہے اور عدالت کا
کہنا ہے کہ وہ آرہی ہے۔ عدالت نے دو ٹوک انداز میں دھمکی دی ہے کہ اگر
مرکز،ریاست یامقامی انتظامیہ کا کوئی افسر آکسیجن کی سپلائی میں مشکلات
پیدا کر رہا ہے تو ’ہم اس شخص کو لٹکا دیں گے‘۔ کسی بھی باوقار حکومت کے
لیے اس سے سخت سرزنش ممکن نہیں ہے لیکن موٹی کھال والی سرکار پر اس کا کوئی
اثر دکھائی نہیں دیتا ۔
دہلی ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر پھٹکار لگائی کہ اسپتالوں کو آکسیجن کی بلا
تعطل فراہمی کو یقینی بنانا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے ہدایت دی کہ’
کووڈ 19 کے نازک مریضوں کا علاج کر رہے قومی راجدھانی کے اسپتالوں کے لیے
فوراً بھیک مانگیں ، ادھار لیں یا چوری کریں مگرکسی بھی طریقے سے آکسیجن
مہیا کرائی جائے ۔ یہ قومی ایمرجنسی ہے اور دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے
لیےگویا زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ہم اس کی طرف سے آنکھیں نہیں بند کر
سکتے‘۔ہائی کورٹ کی بنچ نے آگے کہا، ’آپ سرکار ہونے کےناطے یہ نہیں کہہ
سکتے کہ ہم اتنا دے سکتے ہیں، اتنا نہیں دے سکتےاس لیے اگر لوگ مرتے ہیں،
تو مرنے دیجیے۔ یہ ناقابل قبول ہے اور کسی خودمختار ملک میں یہ جواب نہیں
دیا جا سکتا۔ ہمیں لوگوں کے بنیادی حق کو یقینی بنانا ہوگا۔عدالت نے کہا کہ
لوگ مر رہے ہیں، اور ہم لوگوں کو آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مرتے ہوئے نہیں
دیکھ سکتے۔ عدالت نے کہا، ‘ہم حیران ہیں کہ حکومت کو سچائی نظر ہی نہیں آ
رہی ہے… چل کیا رہا ہے؟ حکومت کو اصلیت دکھائی کیوں نہیں دے رہی ہے؟ بیچارے
جج صاحب اتنا بھی نہیں جانتے کہ ارجن کو جس طرح تیل میں صرف مچھلی کی
گھومتی ہوئی آنکھ کا عکس دکھائی دیتا تھا اسی طرح بی جے پی کو الیکشن میں
کرسی دکھائی دیتی ہے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
دہلی کی عدالت نے تو صاف کہا ہے کہ آکسیجن کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ
داری پوری طرح سے مرکزی حکومت کے کندھوں پر ہے اور یہ اشارہ بھی دیا کہ
اسے(سرکار کو) انسانی جان کے مقابلے صنعتوں کا مفاد عزیز ہے۔ عدلیہ کے
الفاظ ہیں ’ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں تب بھی آپ انڈسٹری کے لیے
فکرمند ہیں۔ ایک دو ہفتے آپ کی انڈسٹری انتظار کر سکتی ہیں۔ یہ شدید
ایمرجنسی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے لیے انسانی زندگی کے کوئی معنی
نہیں ہیں؟‘ عدالت نے کہا کہ وہ آکسیجن کا پروڈکشن کرنے والے لوہے کے
کارخانوں کوچلانے کی اجازت دینے کی مرکزکی پالیسی سے خوش نہیں ہے۔ہائی کورٹ
کی بنچ نےحکم دیا کہ ، ‘ہم مرکزی کو یہ ہدایت دینے کے لیے مجبور ہیں کہ اس
حکم پر فوراًعمل کیا جائے ۔ اسپتالوں میں حالات سدھرنے تک آکسیجن بنانے
والی صنعتوں کو اپنا پروڈکشن روکنا ہوگا۔ عدالت نے اپنی تشویش کا اظہار
کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’آخرمرکزی حکومت کیا کر رہی ہے؟ اگر دہلی میں یہ
حالات ہیں تو یقیناًدوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی ہوں گے؟‘
اس معاملے میں عدالت کے اندر دہلی سرکار اورمرکزی حکومت آمنے سامنے تھے ۔
سماعت کے دوران جب کیجریوال کے وکیل راہل مہرنے کہا کہ مرکز آکسیجن مختص
کرنے کی ہدایات نہیں مان رہا ہے تو مودی کے وکیل تشار مہتا نے ڈانٹ کر جواب
دیا ، ’مجھے میری ذمہ داری پتہ ہے۔ مجھے بہت کچھ معلوم ہے لیکن میں کچھ کہہ
نہیں رہا ہوں۔ آپ کسی شکایتی بچے کی طرح سلوک کرنا بند کریں ‘۔ یہ بلاوجہ
کی دھمکی تیم کیونکہ مقدمہ والے دن آکسیجن بحران کے سبب روہنی کے جئے پور
گولڈن اسپتال میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 20 مریضوں کی موت ہو چکی تھی ۔
اسپتال انتظامیہ نے بتایا تھا کہ انہیں مختص آکسیجن کا کوٹا شام کے بجائے
نصف شب میں ملا اس لیے مریضوں کو نہیں بچایا جا سکا۔دہلی کے بترا اسپتال نے
کورٹ میں گہار لگائی تھی کہ ہردن 8ہزار لیٹر آکسیجن کی ضرورت ہے، لیکن وہ
کسی طرح ۶6ہزار لیٹر میں کام چلا رہے ہیں۔اسپتال نے عدالت کو بتایا کہ اس
دن انہیں صرف 500 لیٹر آکسیجن ملی۔ عآپ کا وکیل اگر شکایتی بچہ ہے تو
اسپتال کے یہ ذمہ فاران کون ہیں ؟
تشار مہتا نے دہلی کے وکیل سے یہ بھی کہا کہ ’ ہم انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں۔‘
انہیں یہ نصیحت اپنے مؤکل بی جے پی کو کرنی چاہیے جو کیجریوال کو نااہل
قرار دے کر استعفیٰ طلب کررہی ہے اور اس پر عمداً قتل کا مقدمہ دائر کرنے
کی دھمکی دے رہی ہے ۔ عدالت کے اندر جب مرکزی سرکار کو پھٹکارہ جاتا ہے تو
اسے سرکاری وکیل سر جھکا کر سن لیتا ہےلیکن پریس کا نفرنس میں بی جے پی
والے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو بلا وجہ موردِ الزام
ٹھہراتے ہیں جبکہ یہ خالصتاً مرکز کی ناکامی ہے۔ عدالت میں مرکزی حکومت کے
وزیر صحت اپنے حلف نامہ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ایم کیئر فنڈ سے وہ 8
کارخانے لگانے کا ارادہ رکھتی تھی اس میں سے صرف ایک لگ سکا 30 اپریل تک
مزید چارلگ جائیں گے۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا جنوری اور فروری میں کورونا
کے کیس میں کمی کے سبب کام دھیما پڑ گیا ۔ ایسے میں وزیر صحت ہرش وردھن کو
استعفیٰ دینا چاہیے جو اتفاق سے دہلی کے ہیں ۔
2019 میں اگر وزیر اعظم انتخاب ہار جاتے تو اب بی جے پی والے چندرا چندرا
کرکہتے کہ مودی جی کے ڈر سے چین دبک کے بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ اگر وزیر اعظم
ہوتے تو لال آنکھ کر دیکھتے، اور چینی ڈراگن دم دبا کر’یہ تو اکھیوں سے
گولی مارے‘ گاتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ۔ کورونا سے نمٹنا تو ان کے دائیں ہاتھ
کا کھیل ہوتا ۔ وہ ایسی چائے بناکر پلاتے کہ کورونا کے مریض بغیر ویکسین کے
اچھے ہوجاتے ۔ امریکہ کی ہمت نہ ہوتی کہ ہندوستان کے لیے ویکسین کے اجزاء
بھیجنا بند کرے بلکہ کورونا کی کیا مجال تھی کہ وہ بھارت ماتا کی پاون
دھرتی پر قدم رکھتا ۔ یہ تو بعد والوں کی منحوسیت سے قوم اتنی بڑی مصیبت
میں گرفتار ہو گئی اور آکسیجن کی کمی ہوگئی ۔ مودی جی تو ونڈ ٹربائن میں
سے پانی کے ساتھ آکسیجن بھی الگ کرلیتے جیسا کہ انہوں نے ڈنمارک کی کمپنی
ویسٹاس کے سی ای او سے بات چیت میں بتایا تھا ۔ افسوس کہ مودی جی ہارنے کے
بجائے جیت گئے اور ان کے بھرم کا غبارہ پھوٹ گیا ۔ کورونا نے ٹرمپ کو تو
اقتدار سے محروم کرکے امریکیوں کا بھلا کردیا لیکن ہندوستانی اس معاملے
ویسے خوش قسمت نہیں رہے۔ خیر وزیر اعظم نے کم ازکم اس بار اپنے نو ’من کی
بات‘ کو تو کورونا پر مرکوز کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے رادھا کن ناچتی ہے؟
ویسے مثل مشہور ہے ’نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی‘۔
|