آج کل کورونا کی تازہ لہر نے پوری دنیا میں تباہی
مچائی ہوئی ہے۔ دنیا کا شائد ہی کوئی ملک ہو جو اس مہلک وائرس سے متاثر نہ
ہوا ہو۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور بھارت میں بھی یہ وبا
خوفناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ
بھارت میں آکسیجن کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔
ہندوستان میں یومیہ 3ہزار سے زائد افراد کورونا کے باعث زندگیا ں ہار رہے
ہیں۔دوسری جانب پاکستان میں بھی کورونا کیسز میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو
رہا ہے اور آکسیجن کی کمی کا مسئلہ سر اٹھانے لگا ہے۔اسی تناظر میں 4رکنی
تکنیکی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو پاکستان سٹیل ملز کا دورہ کر کے آکسیجن
پلانٹ کی صورتحال کا جائزہ لے گی۔ٹیکنکل ٹیم سٹیل مل کے آکسیجن پلانٹ کی
قیمت کا اندازہ بھی لگائے گی۔تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ آیا اس آکسیجن پلانٹ سے
پاکستان میں کورونا مریضوں کو آکسیجن کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان سٹیل کاافتتاح اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو
نے 30 جون 1973ء کو کیا۔یہاں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 70کی دہائی
میں روس کے تعاون سے تعمیر ہونے والی پاکستان سٹیل ملز نے 80 اور 90 کی
دہائیوں میں خوب منافع کمایا مگر پاکستان سٹیل آج ایک مکمل غیر فعال ادارہ
بن چکا ہے اوراس کی پیداواری صلاحیت صفر ہوچکی ہے ۔
یاد رہے کہ 2015سے بند اس سٹیل مل نے 2000 سے 2007 تک مشرف دورِ حکومت میں
20 ارب روپے منافع کمایا تھا مگر 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد
یہ منافع اچانک خسارے میں تبدیل ہوگیا۔ آصف زرداری کی حکومت کے پہلے سال
2008 میں ہی سٹیل ملز 26 ارب روپے کے خسارے میں چلی گئی۔غیر جانبدار مبصرین
کے مطابق ضیاء الحق کے مارشل لا کا دور سٹیل ملز کی تاریخ کا سنہرا دور
تھا۔ ادارے میں 25 ہزار تک ملازمین کام کرتے تھے اور سب کو بروقت تنخواہ کی
ادائیگی ہوتی تھی وہ بھی بمعہ الاؤنس اور بونس، ’ایسا کبھی نہ ہوا کہ
تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ملک میں پبلک سیکٹر میں چلنے والے بینکوں سے قرضہ
لے کر پاکستان سٹیل کو تقریباً 25 ارب کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔ پاکستان
سٹیل ملز کراچی کی سب سے پرائم لوکیشن یعنی پورٹ قاسم انٹر نیشنل پورٹ، مین
نیشنل ہائی وے اور مین نیشنل ریلوے لائن کے بیچ میں موجود ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان سٹیل ملز 90 کی دہائی کے اوائل تک اپنی مکمل صلاحیت پر
کام کر رہی تھی اور 95 فیصد کی اوسط پیداوار اختیار کر کے سالانہ 10 لاکھ
ٹن سٹیل کی پیداوار حاصل کر رہی تھی ۔ اس چلتے ہوئے ادارے کو بھی ملک دشمن
حکمرانوں نے سازشوں کے ذریعے 10 جون 2015ء کو گیس روک کر مکمل طور پر اس کا
پیداواری عمل روک دیا۔ پاکستان سٹیل ملز تب سے اب تک بند ہے۔ اس کے ساتھ
آکسیجن پلانٹ جو کہ تقریباً 15 سے20 ہزار کیوبک فٹ روزانہ آکسیجن پیدا کرتا
رہا ہے ۔ادارے کی ضروریات کے بعد ہزاروں کیوبک فٹ آکسیجن کراچی میں موجود
پبلک سیکٹر کی ہسپتالوں کو سلنڈروں کے ذریعے مفت فراہم کرتا رہا ہے اور
پاکستان سٹیل ملک کا واحد ادارہ ہے جو لیکوئڈ آکسیجن بھی تیار کرتا ہے۔
پاکستان سٹیل نے تقریباً 4000 ایکٹر زمین مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ نیشنل
انڈسٹریل پارک کو دی ہے جس میں نجی شعبے کی سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ملک کا
سب سے بڑا کار بنانے کا ادارہ پاک سوزوکی اور یاماہا موٹرز بھی ہیں۔
اس کے ساتھ روڈ اور دیگر انفراسٹرکچر کے ساتھ پاکستان سٹیل کا این ایل سی
کے بعد بہت بڑا ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں تقریباً 850 گاڑیاں اور 200
کے لگ بھگ ہیوی لوڈنگ ڈمپر اور بلڈوزر ہیں اور ان کی رپیئرنگ کیلئے ورکشاپس
بمعہ ماہر مکینک اور اپنا ریلوے ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود
ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان سٹیل نے پورٹ قاسم پرخام مال کے باہر سے آنے والے
جہازوں کیلئے ایک ’گودی (Jetty)‘ بھی موجود ہے۔
جس سے مختلف ملکوں سے آنے والے بحری جہاز ربغیر کسی ٹرانسپورٹ کے اپنی
کنویئر بیلٹ کے ذریعے تقریباً 7 کلومیٹر سفر طے کرکے پاکستان سٹیل کے مختلف
ڈپارٹمنٹ میں ان لوڈ ہوتے ہیں۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان
سٹیل پتھر خام مال سے سٹیل بننے کے عمل میں فضلہ اور بائی پراڈکٹ مختلف
انڈسٹریوں کو بیچتا رہا ہے۔
جس سے ادارے نے اربوں روپے کمائے ہیں۔ اس قسم کے اور مختلف بائی پراڈکٹ
پاکستان سٹیل کے علاوہ اس ملک میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان سٹیل
کی تعمیر سے تکمیل تک کے تمام اخراجات 25 ارب بشمول سود مختلف بینکوں کو نہ
صرف ادا کئے بلکہ ٹیکس کی مد میں ملکی خزانے کو سینکڑوں اربوں کا فائدہ
پہنچایا۔
واضح رہے کہ اس وقت کراچی سٹیل ملز کی قیمتی زمین، گودی، رہائشی کالونی،
سات کلومیٹر کا کنویئر بیلٹ، بنا ہوا سامان اور (2008ء کے مارکیٹ نرخوں کے
مطابق)تقریباََ 22ارب روپے کا بکھرا ہوا لوہا موجود ہے۔ غلط پالیسیوں
اوروقت کے ساتھ ساتھ جس تکنیکی تبدیلی اور جدت کیلئے اس کو اپ گریڈ کرنے کی
ضرورت تھی وہ نہ کرکے موجودہ سٹیل ملز کو جس طرح تباہ کیا گیاہے اس کو اب
عہد حاضر سے مطابقت پیدا کرنے کیلئے ایک اندازے کے مطابق 100 ارب روپے کی
سرمایہ کاری درکار ہے۔بہر کیف اس بات کی محض امید ہی کی جا سکتی ہے کہ پاک
سٹیل ملز کا عہد شباب لوٹ آئے اور آکسیجن کی کمی کا حالیہ بحران ہی پاکستان
سٹیل ملز کی تعمیر نو کا باعث بن جائے۔
|