روبرو ہے ادیب: عطرت بتول نقوی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریرو ملاقات: ذوالفقار علی بخاری
عطرت بتول نقوی صاحبہ ان ادیبوں میں سے ہیں جن کے لفظوں کی مہک ان کی شخصیت کی مانند دلفریب ہے اورلکھتی ہیں توخوب پذیرائی حاصل کرتی ہیں۔ اپنے ہم عصر ادیبوں میں اپنے اسلوب کی بنا پرانفرادیب بھی رکھتی ہیں۔
ان کے حوالے سے محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ نے کیا خوب لکھا ہے کہ: "سنجیدہ،متین،مہذب،خوش مزاج،نرم خوعطرت بتول آپی جو ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ محبت اور دوستانہ انداز میں ملتی ہیں، ان کی یہ خوبیاں صرف ان کی ذات کا حصہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی جھلک ان کی کہانیوں میں بھی نظر آتی ہے۔ جن کی ذات میں یہ تمام خوبیاں ہوں بچوں کے لئے با اخلاق کہانیاں وہی لکھ سکتا ہے۔ آپ ایسی کہانیاں لکھتی ہیں جن میں بچوں کو بالکل اپنے گھر جیسا ماحول ملتا ہے،جیسے بہن بھائیوں کا پیار اور پیارے پیارے جھگڑے، سہیلیوں کا خلوص اور دوستی،پالتو جانوروں سے محبت و ہمدردی،والدین کا احترام، دادا دادی کی نصیحتیں اور نماز روزے کی تلقین۔"
ہماری آج کی مہمان یہی ہردلعزیز لکھاری ہیں، ان سے ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔
سوال: سب سے پہلے توآپ یہ بتائیں کہ آپ خواتین کی آزادی کے حوالے سے بات کرنے والوں کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟ جواب: عورت کی آ زادی کی بات کرنے والے اگر اس آ زادی کی بات کرتے ہیں جس میں عورت کو عزت واحترام حاصل ہوگا ، اس پہ تشدد وزیادتی نہیں کی جائے گی ، اس کو تعلیم کے مواقع حاصل ہوں گے یعنی وہ آ زاری جو ایک انسان کا حق ہے کہ اس پر جبر نہ کیا جائے اسے فضول رسومات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے تو ایسی آ زادی کی بات کرنے والوں کو میں بہت اچھی نظر سے دیکھتی ہوں ۔
سوال:ہمارے ہاں خواتین کو ادبی میدان میں خاطر خواہ کیوں نہیں سراہا جاتا ہے؟ جواب:ایسی بات نہیں ہے اُردو ادب اور شاعری میں بہت سی نامور خواتین موجود ہیں جن کی قابلیت پہ کسی کو شک نہیں اور ان کے کام کو بہت پذیرائی ملی ہاں کہیں اگرصنفی امتیاز برتا جاتا ہے تو اسے پسندیدہ عمل نہیں سمجھا جاتا ۔
سوال: سب سے پہلے کس نے لکھنے پر حوصلہ افزائی دی تھی اور یہ بھی بتائیں کہ اولین تحریر کی اشاعت پر کیسا محسوس ہوا تھا؟ جواب:میری اولین تحریر ،، ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے ،، پوسٹ گریجویٹ کالج سمن آباد کے کالج میگزین ، فکر تاباں ، میں شائع ہوا تھا جس کو اساتذہ نے بہت پسند کیا تھا اور اس کے کافی عرصے بعد جب ،جنگ ،، میں کہانیاں اور مضامین شائع ہونے شروع ہوئے تو سب گھر والوں نے حوصلہ افزائی کی۔ اولین تحریر کی اشاعت پر بہت اچھا محسوس ہوا تھا کیونکہ اسے اساتذہ نے سراہا تھا محترمہ ڈاکٹر ناہید قاسمی اردو ادب کی استاد تھیں اور محترمہ فہمیدہ عبادت ہیڈ آ ف دی ڈیپارٹمنٹ تھیں ، جبکہ والد صاحب نے مضمون بہت پسند کیا اور انعام دیا تھا۔
سوال:آپ کی زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ کون سا ہے؟ جواب:میری زندگی کا خوشگوارلمحہ وہ تھا جب شادی کے چار سال بعد اللہ تعالٰی نے ماں کے درجے پر فائز کیا اور میرے گھر ننھی پری کی آمد ہوئی۔
سوال:آپ کے خیال میں ادب،ادیب اورمعاشرے کا آپس میں کتنا گہراتعلق ہے؟ جواب:ادب ادیب اور معاشرے کا آ پس میں بہت گہرا تعلق ہے ادیب معاشرے میں پائی جانے والی ناہمواریوں ، ناانصافیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ، وہ جو بھی لکھتا ہے اس کے زمانے کی معاشرت کی جھلک تحریر وں میں پائی جاتی ہے۔ آپ غالب کے خطوط اٹھا کر دیکھیں اس زمانے کے معاشرے کی کیسی تصویر کھینچی ہے ، اسی طرح ایک ادیب معاشرے کی اخلاقیات بھی سدھار سکتا ، ظلم وجبر کے خلاف اپنی آ وازحکمرانوں تک پہنچا سکتا ہے۔ اور جہاں تک ادب کا تعلق ہے وہ معاشرے پر اثر انداز ہوسکتا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے میں باشعور افراد موجود ہوں اور شعور بیدار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں
سوال: ا اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتائیں کیسے شروع ہو، آج تک کا سفر کیسا رہا ہے؟ جواب:ادبی سفر کی ابتدا تو مطالعہ میں دلچسپی رکھنے سے ہی ہوتی ہے بہت چھوٹی عمر سے ہی بچوں کے رسائل پڑھنے سے دلچسپی ہوگئی تھی ، بچوں کی دنیا ، نونہال ، تعلیم و تربیت گھر میں آتے تھے وہ باقاعدہ پڑھنے سے اردو بہتر ہوتی گئی اور اسکول میں ان بچوں کے مقابلے میں جن کے گھر میں مطالعہ کا زوق نہیں تھا کارکردگی اچھی ہوتی تھی پرائمری کلاسز سے لے کر میڑک تک جب بھی مضمون لکھا وہ اساتذہ نے پسند کیا اور پوری کلاس کو پڑھ کر سنایا ۔اسی طرح کالج میں داخلہ کے بعد کالج لایبریری سے بہت سے بڑے نامور ادیبوں کی کتابیں پڑھیں کئی کے اقتباسات اب بھی ڈائری میں محفوظ ہیں۔ مجھے یاد ہے فرسٹ ایرمیں کالج لایبریری سے قرت العین حیدر کا ، آ گ کا دریا ، ایشو کروا رہی تھی اتفاق سے پرنسپل صاحب راؤنڈ پر تھے کہنے لگے آ پ ابھی یہ کتاب نہ پڑھیں بڑی کلاسز میں جانے کے بعد پڑھیے گا ابھی ذہن الجھنے کا خطرہ ہے میں نے کہا سر میں نے اس کا بہت نام سنا ہوا ہے ، کہنے لگے ٹھیک ہے پڑھ کر ڈسکس کیجے گا ، یہ ناول آ ج تک میرا پسندیدہ ہے۔ بس اسی طرح کتابیں اور باقاعدگی سے اخبارات وغیرہ پڑھتے رہنے سے لکھنے کا زوق بھی پیدا ہوا اور جب تحریر یں شائع ہونی شروع ہوئیں تو بہت اچھا لگا اور یہ سفر خوشگوار رہا جو آ ج تک جاری ہے۔
سوال: آپ کے بچپن کی کوئی خا ص یاد، جو قارئین کو بتا نا چاہیں؟ جواب:جیسا کہ میں نے ذکر کیا بہت چھوٹی کلاسز سے بچوں کے میگزین پڑھنے شروع کر دیئے تھے جوہر ماہ گھرآ تے تھے اسی زمانے میں بڑوں کے رسائل بھی آ تے تو ایک دن میں والدہ کا رسالہ زیب النساء اسکول بیگ میں چھپا کر لے گئی تھی وہ ٹیچر نے پڑھتے دیکھ لیا اور مجھ سے چھین لیا اور ڈانٹا اس کے بعد بہت دنوں تک مجھے توقع رہی کہ شاید واپس کر دیں گی لیکن انہوں نے نہیں کیا اسکے بعد اگلی کلاس میں جانے کے بعد بھی انہیں دیکھ کر رسالہ یاد آ جاتا تھا اور پھر اگلی کلاس میں بچوں کا ایک چھوٹا سا ناول ، نمک حرام وزیر ، پڑھ رہی تھی وہ بھی ٹیچر نے چھین لیا تھا لیکن وہ کچھ عرصے بعد واپس مل گیا تھا۔ سوال:آپ کی اب تک کتنی کتب /تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں؟ جواب:میری تحریریں تو کافی منظر عام پر آ چکی ہیں ، مضامین ، انشائیہ ، افسانچہ ، افسانہ سب لکھا بچوں کی کہانیاں تقریباً سو سے زائد لکھیں کتاب ایک ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
سوال:آپ کی نظر میں قارئین کی پذیرائی اور ایوارڈز کی کتنی اہمیت ہے؟ جواب:قارئین کی پزیرائی سے ہی خوب سے خوب تر کی طرف سفر جاری رہتا ہے اور اگر لکھنے والے کے پیش نظر مقصد ہو تو اسے ایوارڈز وغیرہ کی اتنی پروا نہیں ہوتی ملنے پر خوشی تو ہوگی لیکن یہ یہی منزل نہیں ہوگی وہ اپنی دھن میں تخلیق میں مگن ہوگا۔
سوال:آپ نے ابھی تک کس اُردو لکھاری/ادیب کو خوب پڑھا ہے،کتنا متاثر ہوئی ہیں؟ جواب:اگر آ پ اردو ادب کی بات کر رہے ہیں تو میری اس میں شروع سے ہی دلچسپی رہی ہے نویں کلاس میں میں نے فیض احمد فیض کی شاعری کی کتاب ،، زنداں نامہ ،، اور احمد ندیم قاسمی کی ،، ر م جھم ،، پڑھ لی تھی اور فرسٹ ایئر میں جب قرآتلیعن حیدر کا مشہور ناول ،، آ گ کا دریا،، پڑھا تو وہ مجھے بےحد پسند آ یا اور پھر اس کے بعد میں نے ان کے بہت سے افسانے اور ناولز پڑھے ، میرے بھی صنم خانے ، کارجہاں دراز ہے ، گردش رنگ چمن ، فصل گل آئی یا اجل آئی ، کوہ دماوند ، چاندنی بیگم ، سیتا ہرن ، ان کے یہ سب ناول میں نے پڑھے ہیں کئی کے اقتباسات مجھے یاد ہیں اور کئی کے ڈائری میں لکھے ہیں۔ جہاں تک بچوں کے ادب کا تعلق ہے اس میں سب بہت اچھا کام کررہے اور سب ادب اطفال سے مخلص ہیں بچوں کے رسائل نکل رہے ہیں کتابیں شائع ہو رہی ہیں نئے اور پرانے ادیب سب اچھا لکھ رہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ بچوں کے ادب کا مستقبل روشن ہے۔ آ جکل کے سب لکھنے والوں کے علاوہ میں نے الف لیلہ کی کہانیاں بچپن میں بہت پڑھی ہیں اب بھی پڑھتی ہوں تو بہت اچھی لگتی ہیں ، ان میں علی بابا چالیس چور میں کھل جا سم سم کاطلسم اب بھی بڑا خواب ناک سالگتاہے پھر سند باد جہازی وغیرہ اس کے علاوہ لوک کہانیاں جواب بھی سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں بہت پسند ہیں۔
سوال: ایک اچھے لکھاری /ادیب میں کن خصوصیات کا ہونا ضروری ہے؟ جواب:ایک اچھے ادیب کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ اس کا مطالعہ بہت وسیع ہو اسے روزانہ اخبارات کا مطالعہ کرنا چاہیے جنرل نالج کو بڑھانا چاہیے ہسٹری کے مشہور واقعات کا علم ہونا چاہیے ، سیاحت کرنی چاہیے ، اگر بچوں کے لیے لکھ رہے ہیں تو ان کی نفسیات جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے۔
سوال: کتب سے محبت کیسے بڑھائی جا سکتی ہے؟ جواب:اس کے لیے والدین کو بہت چھوٹی عمر سے اس طرف لانا چاہیے کیونکہ بچپن کے نقش انمٹ ہوتے ہیں چھوٹی چھوٹی دلچسپ کہانیاں سنانی چاہیے خوشنما سرورق والے رسائل انھیں دینے چاہئیں کوشش کرنی چاہیے کہ رات سونے سے پہلے انھیں کوئی دلچسپ کہانی سنائیں جس میں کوئی غیر محسوس سا اخلاقی پیغام ہو اور گھر کا ماحول لکھنے پڑھنے والا بنائیں اس طرح مسلسل کوشش سے بچے اس طرف آ ئیں گے۔
سوال: آپ کی نظر میں ماضی اورحال کا بہترین افسانہ نگار کون ہے اورکس وجہ سے ہے؟ جواب:دیکھیے ، ماضی میں تو افسانہ نگاروں میں بہت بڑے نام ہیں ، عصمت چغتائی ، سعادت حسن منٹو ، خدیجہ مستور ، حاجرہ مسرور ، احمد ندیم قاسمی ، اشفاق احمد ، بانو قدسیہ ، الطاف فآطمہ ، رضیہ فصیح احمد ، انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر ، یہ سب اور ان کے علاوہ بھی بہت بڑے نام ہیں سب نے بہت اچھا لکھا لیکن قرۃ العین حیدر کا اپنا الگ مقام اور انفرادیت ہے اور اردو ادب میں سب عینی آ پا کے مقام کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ آ پ نے پوچھا ہے کیوں تو میری ناقص رائے میں شاید عینی آ پا کا گہرا تجزیہ ، ریسرچ ، مشاہدہ کی گہرائی ، تاریخ پہ عبور ، وسیع مطالعہ ، منفرد اسلوب اور سب سے بڑھ کر ان کا بلند تخیل زمانہ حال میں بھی بہت اچھے افسانہ نگار ہیں ، سب بہت اچھا لکھ رہے ہیں ، طاہرہ اقبال ، نیلم احمد بشیر ، سلمں اعوان ، محمد جاوید انور ، علی اکبر ناطق ، یہ سب اور دوسرے بہت سے۔
سوال:کس طرح سے بچوں کو رسائل وجرائد اورکتب بینی کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟ جواب:اس کے لیے انفرادی طور پہ سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اسکول اور کالجز میں لائبریریز ہوں کتب بینی کا پریڈ ہو اساتذہ اچھی کتب متعارف کروائیں طلبا سے اس پر بات کریں، گھر وں میں والدین اچھی کتابیں پڑھنے کا شعور پیدا کریں اور سب سے زیادہ کتاب چھپوانے کے عمل کو سعستا اور آ سان بنایا جائے۔
سوال: کچھ ”پر ی گل“ کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کیجئے۔ جواب:میری کتاب پری گل میں 54 کہانیاں اور ایک ناولٹ ہے ، ناولٹ اس کتاب کے علاوہ کہیں شائع نہیں ہوا جبکہ کہانیاں 2009 ء سے لے کر اب تک مختلف اخبارات اور میگزینز میں شائع ہوتی رہی ہیں اور اب انہیں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے، ناولٹ کی کہانی یوں ہےکہ اس میں ایک بچی پری گل کو سلیمانی ٹوپی مل جاتی ہے جسے پہن کر وہ کسی کو نظر نہیں آ تی اور سب کے اصلی چہرے دیکھ لیتی ہے بس ایسے ہی یہ کہانی آ گے بڑھتی ہے ، اس کتاب میں محرمہ ، ناہید قاسمی صاحبہ ، محترمہ سعد یہ قریشی اور محترمہ تسنیم جعفری کی رائے شامل ہے جبکہ محترمہ غلام زہرہ نے فمیلی میگزین میں اس پر تبصرہ لکھا ہے اور بہت اچھا تعارف کروایا ہے۔
سوال:ہمارے ہاں حقیقت پسندی کے رجحان کا حامل ادب کیوں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا ہے؟ جواب:غالباً بیسوی صدی میں پریم چند نے حقیقت نگاری کا آغاز کیا تھا ، اصل میں رومانیت اور حقیقت نگاری دونوں کو پیش کرنے والوں کا اپنا اپنا حلقہ پسندیدگی ہے ایسا نہیں ہے کہ حقیقت نگاری کو با لکل پسند نہیں کیا جاتا ، بہت سے ادیبوں نے ظلم و جبر کو یا پھر دیہی معاشرے کو اس کے حقیقی خدوخال کے ساتھ پیش کیا ہے اور انہیں پذیرائی ملی ہے اور اسی طرح رومانیت کو بھی۔
سوال:خواتین کس طرح سے خود کو مضبوط بنا کر اپنے خواب پورا کر سکتی ہیں؟ جواب:تعلیم کے ذریعے ، تعلیم کے ذریعے ہی انھیں شعورآ ے گا انھیں اپنے حقوق کے بارے میں علم ہوگا اور وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہیں بلکہ نئی نسل کی ا چھی تربیت کر سکتی ہیں۔
سوال: اپنے قارئین کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟ جواب:زندگی بہت مختصر ہے ، سب کے ساتھ مخلص رہیں ، اخلاق بلند رکھیں ، سوچ بلند رکھیں۔ ۔ختم شد۔ |