آزاد کشمیرقانون سازاسمبلی کے
انتخابات میں پیپلزپارٹی آزاد کشمیرنے کامیابی حاصل کرلی ہے جبکہ سیاسی
جماعتوں نے ایک دوسرے پردھاندلی کے الزامات لگائے ہیں ،پولنگ کے دوران
مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان تصادم،ہنگامے اورفائرنگ کے
واقعات میں 3افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ،آزادکشمیراورپنجاب کے مختلف
علاقوں میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے کارکنوں میں زبردست تصادم ہوا، جس میں
ڈنڈوں اورلاٹھیوں کاآزادانہ استعمال ہواجبکہ ہوائی فائرنگ بھی کی گئی،
کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگائے، لاہور میں پریذائیڈنگ افسر
کواغوا کرلیا گیا جبکہ کارکنوں کے درمیان جھگڑے کے بعدشہرمیں پولنگ ملتوی
کردی گئی،لیگی کارکنوں نے گلبرگ میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرراجہ
ریاض کی گاڑی کاگھیراؤ کرلیا اور ان کے میڈیاایڈوائزرپرتشددکیا،ایل اے 17
پونچھ عباس پورمیں نامعلوم افرادنے پولنگ اسٹیشن پرحملہ کرکے توڑپھوڑکی اور
ریٹرننگ افسرکے دفترکوآگ لگادی جس کے بعد پولیس اورفوج کو طلب کرلیا گیا ،
مظفرآبادمیں پیپلزپارٹی کے امیدوار عبدالرشید نامعلوم افرادکی فائرنگ میں
بال بال بچ گئے ،گجرانوالہ اور لالہ موسیٰ میں جعلی ووٹ ڈالنے پررکن قومی
اسمبلی تصدق مسعود سمیت 80افرادکے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا۔یہ ایک تلخ
حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلیوں کی تاریخ یہاں انتخابات
کروانے کی روایات جتنی پرانی ہے اگرچہ پاکستان میں بہت سے لوگ 1977 میں
پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے عام انتخابات کو ہی شفاف،
منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کہتے ہیں لیکن ایسا کہنا بھی ناانصافی ہی
ہے۔1970 میں دھاندلی بعداز انتخابات یوں ہوئی کہ ان میں اکثریتی طور پر جیت
کر آنیوالی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے بزور طاقت روک دیا
گیا۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً ہی بعد انتخابات میں دھاندلی
کا جھرلو محمد علی جناح کی زندگی میں ہی پھرنا شروع ہو گیا تھا جب دادو ضلع
کے انتخابات میں جی ایم سید بمقابلہ قاضی محمد اکبر تھے۔لیکن موجودہ دہائی
کے ہو نیوالے انتخابات جن میں پرویز مشر ف کے اپنے ہی متعارف کرائے ہو ئے
شہری اداروں کے انتخابات اور اس کے بعد 18فروری 2008 کے جمہوری انتخابات کے
بعد آزاد کشمیر انتخابات میں دھاندلیوں کی خبریں فیلڈ مارشل ایوب خان کے
دنوں میں بنیادی جمہوریتوں عرف بی ڈی نظام میں فاطمہ جناح کے خلاف انتخابی
دھاندلیوں کی یاد دلاتی ہیں جب انتخابی دھاندلی پاکستان میں سیاسی ثقافت کے
جزو لاینفک کے طور پر متعارف کروائی گئی تھی۔ جب گلاب کے پھول اور لالٹین
کے مقابلے میں جھرلو،گلاب کے حق میں پھیرا گیا تھا۔ایوب خان کی حمایتی
کنونشن لیگ کو آپ آج کی ق لیگ ہی سمجھیں۔
انہی دنوں کے بعد سے مسلم لیگ کو ایک ایسی بیوہ کہا گیا جس کا عقد ثانی ہر
دور کے فوجی آمر کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کا دور آتا ہے اور
پاکستان میں1977 کے قبل از وقت انتخابات میں وزیرِاعظم کے خلاف جماعت
اسلامی کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو کاغذات نامزدگی داخل کروانے سے
پہلے سرکاری سرپرستی میں اغوا کر لیا گیا۔ کیا اگر مولانا جان محمد عباسی
کو اغوا نہیں کیا جاتا تو وہ لاڑکانہ میں بھٹو سے جیت جاتے 1977 کے
انتخابات کے موقع پر حزب مخالف نے بھٹو حکومت پر زبردست دھاندلیوں کے
الزامات لگائے۔ ملک میں بنیاد پرست، مذہبی اوربائیں بازو اور کچھ این ڈی پی
اور تحریک استقلال جیسی’لبرل‘ جماعتوں کے اتحاد ’قومی اتحاد‘ کی تحریک نے
گلی کوچوں میں تحریک چلائی جسے فوج اور دوسرے ریاستی اداروں نے کچلنے کی
کوشش کی۔بہت سے مقامات پر قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے کارکن زبردست تشدد
میں ملوث پائے گئے جن میں کراچی، فیصل آباد، لاہور اور حیدرآباد شامل ہیں
اور یہ شہر فوج کے حوالے کر کے ایک طرح کا منی مارشل لاء نافذ کردیا گیا جس
نے جنرل ضیاء الحق کو پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا بہانہ فراہم کیا
جو بھٹو کی معزولی اور بعد میں ان کی پھانسی پر منتج ہوا۔جنرل ضیاء الحق کے
ملک میں نوے دن کے اندر انتخابات کروا کے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل
کر جانے کا وعدہ گیارہ سال تک محیط ہو گیا۔ ضیاء الحق دو دفعہ انتخابات
کروانے کا وعدہ کر کے مکر گئے۔آخر کار انہوں نے اپنے آپ کو منتخب کروانے
کیلیے ریفرنڈم کروایا جس میں بقول جنرل ضیاءالحق اور ان کی ہم رکاب میڈیا
کے ننانوے فی صد ووٹ پڑے۔ا ن کے ریفرنڈم کے ڈبے بھرنے کیلے بیلٹ پر ٹھپے
لگانے والوں میں جہاں انتخابی عملے کے لوگ شامل تھے تو وہاں خفیہ ایجنیسوں
کے اہلکار اور ریٹرننگ افسر بھی اور ایسے مقامی سیاستدان بھی جو آج کل
پیپلز پارٹی سمیت حزب مخالف اور حزب اقتدار کے بڑے بڑے نام ہیں۔
پاکستان میں انتخابات میں ہرسال انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا
جاتا ہے جس سے نہ صرف انتخابی عمل مشکوک نظر آتا ہے بلکہ ملک میں قائم
جمہوریت کے نام پر سیاسی نظام پر بھی اعتماد ختم ہو تا نظر آتا ہے ملک میں
ہر دور میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ تو بلند کیا جاتا رہا ہے مگر
انتخابی عمل شفاف کیوں نہیں۔اگر ملک میں انتخابات ہی شفاف نہیں ہوں گے تو
پھر جمہوریت، جمہوری عمل کی باتیں محض ڈھونگ ہیں۔ اگر انتخابی نتائج اسی
طرح طاقت اور بے ایمانی کے ذریعے عوام کی رائے کا قتل کرتے ہوئے تشکیل دینے
ہیں تو انتخابات کا ڈھونگ رچانے ہی کیا ضرورت ہے ؟ گر ایک ارب سے زائد
آبادی کے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں انتخابات پرامن اور شفاف طریقے سے
ہوسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں بھی یہ مرحلہ شفاف طریقے سے
انجام دیا جا سکے۔ |