یہاں کی قدیم زبان ’’مروبھاشا ‘‘ کے نام سے معروف ہے
تھرکی تاریخ سندھ دھرتی سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ اسےتہذیبی، ثقافتی اور
تاریخی حوالے سے منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ تھر کی زبان اور بودو باش سے لے
رسم و رواج تک منفرد ہیں۔سورج کی تپش، تپتی دھوپ اور گرم ہواؤں کی وجہ سے
یہاں ہر طرف خوف ناک سناٹا چھایا رہتا ہے لیکن برسات میں اس کے مناظر
انتہائی دل فریب ہوجاتے ہیں اور یہ قدرت کا حسین شاہ کار نظر آتا ہے۔
صحرائے تھر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، وہاں شعر و ادب اور موسیقی میں بھی
اپنی مثال آپ ہےاور روایتی سازوں پر یہاں کے لوک گیت دل و دماغ کو روحانی
تسکین بخشتے ہیں۔
اس ریگزار کو تھری زبان میں ’’کو مُردھر‘‘ یا ’’مروستھل ‘‘بھی کہا جاتا
ہے۔’’مُردھر‘‘ یا ’’مروستھل ‘‘کے نام کی وجہ سے صحرائے تھر کے لوگوں کی
زبان کو’’ مروبھاشا‘‘ کا نام دیا گیا۔ 778ء میں’’ کولیامالیا‘‘ نام کی ایک
کتاب میں اس وقت کی قابل ذکرزبانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں مُروبھاشا
بھی شامل ہے۔ 11ویں صدی میں ’’مروگجر‘‘ کی اصطلاح سننے میں آئی۔ لسانیات
کے ماہرین نے ضلع تھر پارکر کے ’’پارکری‘‘ لہجے کو اسی مروگجر سے مربوط
بتایا ہے۔ پارکر کے علاقے کو سندھ کی تہذیب و ثقافت کا علم بردار کہا جاتا
ہے۔ پارکر کی اہم ثقافتی پہچان اُن کی زبان ہےجو انتہائی شیریں اور نہیت ہی
قدیم ہے۔ ’’سارنگ‘‘ مروگجر کا خوبصورت شاعر ہے۔ اس نے تھر کے حسین پرندے
،مورسے متعلق ایک شعر کہا تھا، جسے آج بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔ اس کا
ترجمہ ہے،
’’اے مور تیری آوازشعرا کے دل میں اتر جاتی ہے جس طرح دلہن کی مانگ پھولوں
سے سجی ہوئی خوبصورت لگتی ہے، اسی طرح تیرے پرَ بھی دلکش ہیں۔ تیری دوستی
کالے بادلوں سے ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ قدرت نے یہ انعام تجھے کس وجہ سے
دیا ہے‘‘۔ مروگجر اور مروبھاشا کی طرح ریگستانی زبان کے لئے 15ویں اور
16ویں صدی میںپنگل اور ڈنگل کی اصطلاحات رائج ہوئیں۔برصغیر کی زبانوں پہ
تحقیق کرنے والےماہر لسانیات سرگیریسن نے سندھ کے ڈاٹ والے خطے کی زبان کو
پنگل اور ڈنگل کے دائرے میں شامل کیا ہے۔ ڈنگل کی اصطلاح سب سے پہلے 15 صدی
کے شاعر کشلابھ نے استعمال کی۔ لسانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈنگل ریگستانی
زبانوں میں شاعری کی ایک صنف ہے، اس میں رزمیہ شاعری کی جاتی ہے۔کچھ ماہرین
کا خیال ہے کہ یہ بولی نہیں چرواہوں اور کسانوں کا لہجہ ہے۔ تھر
کےدانشوروں، ادیبوں اور عالموں کا جھکاؤ پنگل کے طرف رہا ہے۔ یہاں کے
معروف لوک گیت راسوڑ پنگل میں لکھے ہوئے ہیں۔پارکری زبان میں ایک راسوڑا
ہے،
’’مانرا مٹھڑا بھلیں آویا ہوں تان کھڑی کراں منوار‘‘یہ راسوڑا گیت تھرکے
ریگزار میں آنے والے ہر شخص نے سنا ہے۔تھر پارکر درواڑی اور راجپوتی تہذیب
کا سنگم ہے، تھر پارکر کی علاقائی تاریخ کی طرح زبان کی تاریخ بھی قدیم
ہے۔یہاں کی علاقائی زبان میں پانچ ہزار سال پرانے سندھی اور دراوڑی زبانوں
کے الفاظ ملتے ہیں۔تھر پارکر، علاقائی لحاظ سے سات حصوں ڈاٹ، ونگو، کنٹھو،
کھاہوڑ، پارکر، سامروٹی اور وٹ پے مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان حصوں میں ہر
ایک کا اپنا لہجہ ہے، مگر مجموعی طور تھر پارکر میں بولی جانے والی زبان
کےتین لہجے ہیں۔ 1۔ سندھی تھری لہجہ، 2۔ پارکری لہجہ، 3۔ ڈاٹکی لہجہ۔ سندھی
تھری لہجے سے مراد وہ لہجہ ہے جو اپنے مخصوص الفاظ، اچار، کہاوتوں،
اصطلاحات کے ساتھ تھر میں بولا جاتا ہے۔ اس لہجے میں تھر کے بیلوں، درختوں،
گھاس کے ساتھ ہر جاندار و بے جان کا اپنا نام ہے۔انسانی ارتقا کے سفر کو
سمجھنے کے لئے کتنی ہی تاریخی کہاوتیں، سماجی و معاشی جائزے کے فقرے، الفاظ
کا مخصوص اچار اس لہجے کی خوبصورتی ٰہیں اس لہجے پے تحقیق کے حوالے سے بہت
کم کام ہوا ہے۔ سندھ کی کلاسیکل اور جدید شاعری میں اس لہجے کازیاد ہ
استعمال ہوا ہے۔ سندھ کے عظیم شاعر شاہ لطیف بھٹائی سے لے کر سچل سرمست،
نبی بخش قاسم اور شیخ ایاز جیسے نامور شعرا نے اپنی شاعری میں اس لہجے کے
کئی الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تھر کی دھرتی میں جنم لینے والے مشہور و معروف
شخصیات میں رائے چند ہریجن، مگھارام اوجھا، عبدالقادر جونیجو، عثمان
ڈیپلائی، ماٹھینو اوٹھو، ولیرام ولبھ، پروفیسر سائینداد ساند، پروفیسر
نوراحمد جنجھی، سہیل سانگی، سروپچند شاد، خلیل کنبھار، امر ساہڑ، دلیپ
کوٹھاری، نصیر کنبھار، سنبھوہمیرانی، عثمان ادیب، محمد ہنگورجو، خالد جوگی،
ناشاد سموں، ساگر خاصخیلی، حسن نوشاد، دوست محمد ڈیپلائی، علی اکبر راہموں،
حاجی محمد کنمبھر، امام آزاد جنجھی، گل گومانی، شنکر ساگر، پریم شوانی،
ارباب احسان، شھاب نھڑیو اور دیگر مقامی نامور تخلیق کاروں نے اس لہجے کو
اپنایا ہے۔ پارکری لہجہ کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں بولا جانے والا ایک
لہجہ ہے، پارکری لہجے کی عربی رسم الخط میں سندھی الف ب کے ساتھ چار حروف
مخصوص پارکری تلفظ شامل کر کے پارکری الف ب تیار کی گئی ہے۔ ۔1985ءمیں
سندھی نصاب کا پارکری ترجمہ ہوا ہے۔پارکری کے اہم شعرا میں سے ایک چندی رام
بھاٹ بھی ہے، جس کے بارے میں،نام ور سندھی دانش ور شیخ ایاز نے کہا تھا کہ
ان کے شعر نہیں، پتھرپر لکیریں ہیں، جو کبھی مٹ نہیں سکتیں، چندی رام کے
مشہور اشعار میں سے ایک شعر ہے کہ،’’ کارونجھر نی کور، مرین تو بھی مھلیں
نہیں، ماتھے ٹھوکے مور، ڈونگر لاگے‘‘۔ ڈاٹکی ایک لہجہ ہے یا مکمل بولی،
دونوں صورتوں میں ڈاٹکی کو تھر کے ریگستان میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔سندھ
کےمعروف لسانی ماہر ،ڈاکٹر غلام علی الانا نے ڈاٹکی کو سندھی زبان کا چوتھا
لہجہ قرار دیا ہے۔ ادیب ڈاکٹر عبدالجبار جونیجو اور ہدایت پریم نے اپنے
مشہور کتاب تھر جی بولی میں لکھا ہے کہ’’ ڈاٹکی کی اپنی ایک جداگانہ شناخت
ہے۔بعض ماہرین کے مطابق ، ڈاٹکی تھر کی اہم زبان ہے، جس کو ’’سوڈکی ‘‘بھی
کہتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری سروے مطابق ضلع تھر میں 54 فیصد لوگوں کی مادری
زبان ڈاٹکی ہے، 97 فیصد تھر کی آبادی ڈاٹکی سمجھتی اور بول سکتی ہے۔ضلع
عمرکوٹ میں 40 فیصد لوگوں کی مادری زبان ڈاٹکی ہے، 60 فیصد سے زیادہ آبادی
ڈاٹکی سمجھتی اور بول سکتی ہے۔ اسی طرح کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص،
ٹنڈوالہیار، سانگھڑ، بدین اورٹھٹھہ میں ڈاٹکی بولنے والےموجود ہیں۔ڈاٹکی پے
تحقیق کے حوالے سے سندھ کے بڑے اسکالر ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی خدمات
قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے اپنے کتاب ’’سندھی بولی ادب جی مختصر تاریخ‘‘ میں
لکھا ہے کہ ڈاٹکی کا بنیادی مخزن سندھی زبان ہے۔ تھر کا لوک ادب ثقافتی رنگ
کے ساتھ اپنے اصلی روپ میں موجود ہے۔ تھری لوک ادب کی کہانیوں اور شعر و
شاعری میں پریوں سمیت دیگر ماورائی مخلوق کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ ڈاٹکی کی
موسیقی بڑی درد بھری ہےاور لوک گیتوں میں سادگی کا حسین رنگ جھلکتاہے۔ لوک
گیت کسی ایک شاعر کی تخلیق نہیں بلکہ صدیوں کا ورثہ ہیں۔چارن، بھاٹ، بھان
اور منگنھار قبیلوں کا ڈاٹکی لوک ادب میں بڑا کردار ہے۔ ان کی وجہ سے یہ
ادب آج تک زندہ ہے۔ موروں کے دلربا رقص اور حب الوطنی کے عظیم کردار مارئی
کے داستان میں مھکتے ہوئے ڈاٹکی کے گیتوں کو مقامی گلوکاروں مراد فقیر،
مائی بھاگی، مائی ودھائی، موہن بھگت، استاد حسین فقیر، استاد شفیع فقیر،
صادق فقیر، فوزیہ سومرو، عارب فقیر، حیدررند، بھگڑو ناچیز، انب فقیر، مصری
ڈیپلائی، رجب فقیر، رفیق فقیر اور دیگر گلوکاروں نے پرسوز آواز میں گایا
ہےان گیتوں کو سننے والے کی دل کی دھڑکن سازوں کے لے اور گائیک کی آواز کے
زیروبم کے ساتھ تیز ہونے لگتی ہے۔ڈاٹکی میں جو پرانے ادب کے نمونے ملتے
ہیں، ان میں سڈونت سارنگا، ڈھولا مارو کے دوھے شامل ہیں۔ تاریخ نویسوں کے
مطابق سڈونت سارنگا کا قصا پاری نگر کے دوْر کا ہے، مگر شاعری کی بناوٹ سے
ظاہر ہوتا ہے کہ دوھے سومروں کے پہلے دوْر 11ویں صدی کے ہیں۔ 1226 ء میں
سودھا خاندان کے دور حکومت میں ڈاٹکی کو پذیرائی ملی۔ عربی رسم الخط میں
سندھی الف ب کے تعاون سے ڈاٹکی کی الف ب تیار کی گئی ہے۔ حروف کا تعداد 34
رکھا گیا ہے۔جس طرح گنے میں رس اور مہندی میں رنگ چھپا ہوا ہوتا ہے، اسی
طرح بولی کے کھیت میں کہاوتوں کا سٹائل حسن دکھاتا ہے۔ ڈاٹکی میں بہت ساری
کہاوتیں ملتی ہیں۔ ڈاٹکی سیکھنے کے کچھ کتاب شایع ہوئی ہیں۔ مگر اب تک
ڈاٹکی کا کوئی جریدہ نھیں نکلتا۔ ریڈیو پاکستان مٹھی پے دو ڈاٹکی کے
پروگرام ڈاٹی مانھجا دھول اور تھر ری سرہان روزانہ نشر ہوتے ہیں۔
|