ابلیس جب رب ذولجلال کی نافرمانی کا مرتکب ہوا تو اسکے
بعد اس نے ہمیشہ کیلئے راہ حق پہ چلنے والوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھائی جس
کیلئے اسےایک منظم شیطانی فوج درکار تھی ،وقت گزرنے کیساتھ ساتھ شیطان نے
اپنی فوج تشکیل دینی شروع کردی جس کو حزب الشیطان کہتے ہیں یاد رہے یہ حزب
الشیطان،حزب اللہ یعنی اللہ کی فوج کے مقابلے میں بنائی گئی حزب الشیطان دو
طرح کی مخلوق پہ مشتمل تھی، مرئی اور غیر مرئی۔
غیر مرئی وہ ہیں جو نظر نہیں آتے اور مرئی وہ جو نظر آتے ہیں اور شیطان کی
مرئی یعنی نظر آنے والی فوج اہل یہود ہیں جبکہ حزب اللہ میں غیر مرئی فرشتے
اور مرئی اللہ کے مؤمن بندے ہیں۔
یہاں جو بات توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ اہل یہود ازل سے ہی خود کو تمام غیر
یہودیوں (خواہ کسی بھی مذہب سے ہوں ) سے زیادہ افضل سمجھتے ہیں ۔
چونکہ سب سے پہلی اسلامی کتاب تورات انہی پہ نازل ہوئی تو یہ تب سے دوسرے
تمام انسانوں کو حقیر اورخود کو برتر اور افضل سمجھتے تھےحتی کہ بعد میں
آنے والی کتب اور رسولوں کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھی حضرت موسی کلیم اللہ
سے حضرت عیسی روح اللہ تک 1400 سال تک بلا تعطل انبیاء آتے رہے لیکن یہ
ہدایت نہ پا سکے یہی وجہ ہے کہ بالآخر حضرت مسیح علیہ سلام کے قاتل ٹھہرے ۔
سن 71ء میں جب رومی بادشاہ قسطنطان اعظم نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تو اس
نے اہل یہود کو مسیح علیہ السلام کا قاتل ہونے کیوجہ سےخوب مارنا پیٹنا
شروع کیا ،ہیکل سلیمانی کو گرا دیا اور انہیں بھی قدس سے بھگا دیا پھر ان
مکاروں نے دنیا میں جہاں جگہ ملی وہیں پناہ لے لی۔
عرب میں بنو قینقہ، بنو نظیر اور بنو قریظہ کے نام سے انہوں نے قبائل قائم
کیے، بعدازاں نبئ رحمت ﷺکی بعثت کے انہوں نے ان کیخلاف ریشہ دوانیاں شروع
کر دیں جوکہ ایک بہت مفصل اور الگ موضوع ہے جس میں میثاق مدینہ کا معاہدہ ،
قریش کو ہر وقت مسلمانوں سے جنگ پہ ابھارنا وغیرہ شامل ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ اہل یہود نا صرف خود پسند بلکہ بہت بڑے انتشار پسند بھی
ہیں ، حضرت عثمان رض کی خلافت کے دوران عبداللہ بن صباح نامی ایک یہودی نے
مسلمانوں میں ایک چنگاری لگا دی کہ خلافت تو حضرت علی رض کا حق ہے جو بنو
ہاشم یعنی محمد ﷺ کے قبیلے اور خاندان سے ہیں جبکہ یہ عثمان رض تو بنو امیہ
سے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں جو انتشار پھیلا اور امت مسلمہ کو جو
زخم لگا آج بھی اس سے خون رس رہا ہے جو کہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
اہل یہود کا دنیا میں کوئی مستقل ٹھکانہ اور قدر و منزلت نہیں تھی پھر یوں
ہوا کہ 711 ء میں فاتح اندلس طارق بن زیاد جب جنگ کیلئے اندلس کے ساحل پہ
اترے تو انکو راستہ بتانے میں رہنمائی یہودیوں نے کی اور جیساکہ اہل یہود
عیسائیوں کے ہاتھوں بری طرح پیٹتے رہے ہیں تو کچھ اسطرح انہوں نے اپنا بدلہ
لیا بہرحال جب اندلس فتح ہوگیا تو طارق بن زیاد نے ان پہ رحم کیا اور انکو
بھی عزت کیساتھ وہاں رہنے دیا اور یہی وہ سنہری دور تھا جسے بعض یہودی مؤرخ
Golden era of diaspora بھی کہتے ہیں اس دوران انہوں نے خوب وسائل اور طاقت
جمع کرنی شروع کی وقت گزرنے کیساتھ ساتھ جب مسلمانوں کا اقتدار اندلس سے
ختم ہوا تو یہودیوں نے اسوقت تک عیسائیت میں بھی چنگاری لگا دی تھی جو اتنی
بھڑکی کہ عیسائی مذہب سے بھی ایک فرقے نے جنم لیا اورکیتھولک یعنی پوپ کے
تسلط والے عیسائی مذہب کو توڑ کر ایک نیا فرقہ جسے white anglo saxon
protestant یا WASP کہتے ہیں نکال دیا اور اس فرقے کے نزدیک یہودیوں کو بہت
معزز اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ فرقہ سب سے زیادہ برطانیہ میں
پایا جاتا ہے جو کہ بعد میں پوری دنیا میں پھیل گیا بعد ازاں انہیں
Protestant عیسائیوں کی مدد سے یہودیوں نے مزید طاقت اور دولت جمع کرنی
شروع کردی اور ہر طرح سے انکی حمایت بھی حاصل کرلی۔
حضرت عمر رض نے جب بیت المقدس فتح کیا تھا تب سے ہی یہودیوں کو صرف زائرین
کی حیثیت سے وہاں جانے کی اجازت تھی مستقل طور پہ رہنے کی اجازت نہیں تھی
جس کی پاسداری بعد میں جس جس نے بھی بیت المقدس فتح کیا خواہ وہ عیسائی ہوں
یا مسلمان سب نے کی حتی کہ سلطنت عثمانیہ اپنے آخری ادوار میں جب کھوکھلی
اور مقروض ہوچکی تھی تب بھی یہودیوں اور WASP عیسائیوں کے دباؤ کے باوجود
عثمانی خلیفہ نے یہودیوں کو وہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی ۔
جنگ عظیم اوّل کےبعدسلطنت عثمانیہ کااثر و رسوخ صرف ترکی تک محدود ہوگیا
تھا اور فلسطین میں برطانوی افواج داخل ہوچکی تھیں اور یہودیوں نے1917ء میں
Balfour Declaration کے ذریعے برطانوی حکومت سے فلسطین میں آباد ہونے کا حق
حاصل کرلیا تھا، آخر کیونکر وہ یہ حق حاصل نہ کر پاتے جبکہ نا صرف انہیں
عیسائیوں کی حمایت حاصل تھی بلکہ وہ انکی طاقت اور دولت پہ ایک منظم کنٹرول
حاصل کرچکے تھے جسے قلندر لاہوری اقبال علیہ رحمہ کی باکمال بصیرت نے 1908ء
میں برطانیہ میں قیام کے دوران بھانپ لیا تھا:
“تیری دوا جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے”
اس کے بعد فلسطین میں یہودی آباد ہونے لگے اور وہاں کے باسیوں سے زمینیں ،
مکانات منہ مانگے داموں سے بھی زیادہ قیمت پہ خریدنے لگے دولت کی کمی تھی
نہیں کیونکہ Zionist بنیادی طور پہ بہت بڑے بینکر تھے جو پوری دنیا کو تگڑے
سودی قرضے دیتے تھے، جو زمینیں خریدیں نہ گئیں وہاں قبضے کیے اور کہیں
عدالتوں میں جھوٹے استغاثے پیش کرکے زمینیں ہتھیا لیں بالآخر 1948ء کو
اسرائیل وجود میں آیا جسے ہم نے الحمدللہ آج تک تسلیم نہیں کیا یہاں ایک
توجہ طلب بات یہ بھی ہے ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ کسی بھی بیماری کا توڑ اس
سے پہلے بھیج دیا جاتا ہے تو پاکستان کا اسرائیل سے ایک سال پہلے وجود میں
آنا محض اتفاق نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی مصلحت ہے۔
جب اسرائیل قائم ہوا تو اسکے قبضے میں آدھا یروشلم یعنی مغربی یروشلم آیا
تھا جبکہ مشرقی یروشلم مسلمانوں کے پاس ہی تھا 1966 ء میں ہونیوالی عرب وار
کے نتیجے میں اسرائیل کو مشرقی یروشلم بھی مل گیا جس میں مسجد اقصی اور
قبتہ الصخری ہیں۔
اس فتح کا جشن پیرس میں منایا گیا جس میں اسرائیلی وزیراعظمDavid
Ben-Gurionنے کہا کہ ہمیں عربوں سے کوئی خطرہ نہیں اگر خطرہ ہے تو صرف
پاکستان سے ہے۔
یہودیوں میں بھی اقسام پائی جاتی ہیں ایک سیکولر یہودی ہیں جو کہتے ہیں خود
بھی امن سے رہو دوسروں کو بھی رہنے دو جوکہ آجکل فلسطینیوں کی حمایت کے پلے
کارڈز اٹھائے نظر آتے ہیں اور دوسرے zionist یہودی جو گریٹر اسرائیل کا
خواب رکھتے ہیں جسکےمطابق وہ کہتے ہیں کہ عرب ہمارا ہے ہمارے اجداد کا
علاقہ ہے جیساکہ اوپر تین قبائل کا ذکر کیا اس میں انکی اولین ترجیحات مصر
ڈیلٹا کا علاقہ ، صحرائے سینا ، کوہ تور ، بچا کچا فلسطین ،مدینہ تک پورا
عرب ، عراق ، شام اور ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ یہ سب گریٹر اسرائیل کے
پلان میں شامل ہے علاوہ ازاں جو آجکل فلسطین میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہ
مسجد اقصی اور قبتہ الصخری کو مسمار کرکے دوبار ہیکل سلیمانی third temple
بنانے کا خواب رکھتے ہیں جس کیلئے وہ پہلےفلسطینیوں کا خاتمہ یعنی ethnic
cleansing کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تاکہ مزاحمت کرنے والا کوئی نہ ہو ،
یاد رہے یہ حزب الشیطان (اہل یہود)فسادی، متکبر اور مکار تو ہیں لیکن
مردمیدان کبھی نہیں تھے، ہیں اور نہ ہونگے۔
اب نظر ڈالتے ہیں کہ امت مسلمہ خواب غفلت سے کب بیدار ہوگی تو ایک بات بڑی
واضح ہے کہ عربوں کیلئے تباہی ہے بندہ بچشم خود چار عرب ممالک بشمول سعودی
عرب میں رہ کر دیکھ چکا ہے جہاں کا دفاعی نظام امریکہ کے قبضے میں ہے وہ
پوری طرح انکے نرغے میں آچُکے ہیں اور عرب منہ پھیر کر پیٹھ دکھا چکے ہیں
اور جو بھی پیٹھ پھیرےانکے لیے اللہ کا پیغام بھی واضح ہے:
وَاِنۡ تَتَوَلَّوۡا يَسۡتَـبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡۙ ثُمَّ لَا
يَكُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَـكُم•
اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ
تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے•
ایک بات ذہن نشین رہے کہZionist movement کے سب سے بڑی حمایتی برطانوی تھے
لیکن موجودہ وقت میں یہ سہرا امریکہ سامراج کے سر پہ سجا ہوا ہےجو کہ ہر
طرح سے اسے سپورٹ کرتے ہیں حالیہ واقعات کے دوران امریکی نائب صدر کا ٹویٹ
بھی آیا We support Israel ۔
اس وقت عام مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کا خون خول رہا ہے کہ پاکستان
دفاعی طور پر مضبوط ہونے کا باوجود فلسطین کی مدد کیوں نہیں کررہا تو اس
معاملے میں میری اور آپکی رائے میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے لہذا اس تفصیل می
جائے بغیر یہ جان لیں کہ جلد یا بد دیر پاکستان حرکت میں آئے گا جوکہ
اسرائیل جیسے ناسور کو بڑھنے سے روکنے کیلئے مرہم ثابت ہوگا اور اسکے نتیجے
میں جو جنگ رونما ہوگی اسے بعض جگہوں پہ “الملحمتہ العظمی“ یعنی تمام جنگوں
سے بڑی جنگ کہا جاتا ہے ۔
اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّيۡطٰنِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ•
اور سن رکھو کہ شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے •
اللہ عزوجل امت مسلمہ اور اسکے حکمرانوں کو اجتماعی توبۃ النصوح، جزبۂ جہاد
، مقامات مقدسہ کی حفاظت اور حزب اللہ کو حزب الشیطان پہ فاتح ہونے کی
توفیق عطاء فرمائے، آمین یارب العالمین
|