بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کلیم اﷲ
وزیراعظم عمران خان سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کے
دورہ پر ہیں۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات پر مبنی باہمی تعاون
کو فروغ دینے کے لیے پاک سعودی سپریم کوآرڈینیشن کونسل کے آغاز کا اعلان
کیا گیا ہے جس کی سربراہی وزیراعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد مشترکہ طور
پر کریں گے۔ پاکستانی وزیراعظم کے برادر ملک پہنچنے پر تاریخی استقبال کیا
گیاجبکہ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان اور محمد بن سلمان کی خصوصی ملاقات
ہوئی جس میں تمام کثیر القومی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت جاری رکھنے پر
اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے دوران
متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں جن میں آزادی
سلب کرنے والی سزائیں پانے والے قیدیوں کے اور انسداد جرائم کے شعبوں میں
تعاون سے متعلق معاہدے شامل ہیں۔اسی طرح منشیات، نشہ آورادویہ اور کیمیکل
کی غیرقانونی حمل ونقل (ٹریفک) کے خاتمے کے سمجھوتے اور سعودی محکمہ مالیات
(ایس ایف ڈی) اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان توانائی ، پن بجلی کی
پیداوار ، انفرا اسٹرکچر ، ٹرانسپورٹ ، مواصلات اور آبی وسائل کی ترقی کے
منصوبوں کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کی غرض سے فریم ورک مفاہمت کی یاد
داشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔پاک سعودی تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو دونوں
ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین
تجارتی تبادلے میں ترقی کے لیے مشترکہ دلچسپی حاصل رہی اور اس پر مسلسل کام
ہوتا رہا۔ سال 2017ء میں تجارتی تبادلے کا حجم 12 ارب ریال رہا۔ اس دوران
میں پاکستان جانے والی برآمدات میں معدنی مصنوعات اور مختلف کیمیائی
مصنوعات اہم رہیں جب کہ پاکستان سے درآمد شدہ اشیاء میں اجناس، ملبوسات،
گوشت، چائے، کافی اور مصالحہ جات نمایاں رہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت سعودی عرب میں تقریبا 400
پاکستانی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ان کمپنیوں کے
بنیادی سرمائے کا حجم 35 کروڑ ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ کمپنیاں مملکت
میں تعمیرات، سول انجینئرنگ، کیمیائی مواد، معدنیات اور انفارمیشن
ٹیکنالوجی کے سیکٹروں میں کام کر رہی ہیں۔ دوسری جانب گذشتہ پانچ برسوں کے
دوران پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم ایک ارب ڈالر تک
پہنچ چکا ہے۔ یہ سرمایہ کاری توانائی، پٹرولیم، کیمیکلز، مالی اداروں،
بینکنگ، زراعت، انفارمیشن ٹکنالوجی، ڈیری مصنوعات اور انسانی وسائل کی ترقی
کے سیکٹروں میں کی گئی۔ علاوہ ازیں سعودی ویژن 2030ء کے اہداف مختلف شعبوں
بالخصوص معیشت اور سیاحت میں پاکستان کے ساتھ تعاون مضبوط بنانے کے حوالے
سے مطابقت رکھتے ہیں۔معروف سعودی تجزیہ کار الجبیری کا کہنا ہے کہ مملکت
سعودی عرب ترقیاتی امداد اور مختلف سیکٹروں اور انفراسٹرکچر کے لیے کئی
ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ اور ان پر عمل درآمد کے ذریعے پاکستان کے روشن
اور تاب ناک مستقبل میں تعاون کا خواہاں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی وبا
کے منفی اثرات کے باوجود 2020ء کے دوران میں سعودی عرب اور پاکستان کے
درمیان تجارتی تبادلے کا حجم 2.322 ارب ڈالر رہا۔ سعودی عرب اب بھی پاکستان
کو برآمدات بھیجنے والے چار بڑے ممالک میں سے ہے۔ ان برآمدات میں تیل کی
مصنوعات، پلاسٹک اور کیمیکلز وغیرہ اہم ترین ہیں۔ اسی طرح گذشتہ سال
پاکستان سے درآمدات حاصل کرنے والے ممالک میں سعودی عرب کا 12 واں نمبر
رہا۔ ان درآمدات میں اجناس (چاول)، گوشت، مصالحہ جات اور ٹیکسٹائل نمایاں
ترین ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کا سلسلہ پاکستان کے قیام
سے سات برس قبل اپریل 1940ء سے شروع ہوا جبکہ قیام پاکستان کے بعد ان
تعلقات میں تعاون اور دوستی کے نئے اْفق روشن ہوئے۔ پاکستان اسلامی ممالک
میں سعودی عرب کے قریب ترین حلیفوں میں سے ہے۔ سعودی عرب ان اولین ممالک
میں سے ہے جنہوں نے پاکستان کی خود مختاری اور اس کی سرحدوں کو تسلیم کیا۔
دونوں ممالک اسلامی تعاون تنظیم کے دو بنیادی اور اہم ارکان میں سے
ہیں۔گذشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تعلقات
مختلف شعبوں میں "تزویراتی شراکت داری" کی سطح تک ترقی پا چکے ہیں۔سال
2018ء میں پارلیمانی انتخابات میں کامابیابی کے بعد بطور وزیر اعظم عمران
خان نے پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ اسی طرح سال 2019ء میں وہ
چار مرتبہ مملکت کے دورے پر گئے۔
وزیراعظم کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران دوطرفہ تعاون کے تمام پہلوؤں کا
احاطہ کیا گیا ہے۔اس دوران کئی معاہدے ہوئے ہیں۔ برادر ملک پاکستان کو"
سعودی ڈویلپمنٹ فنڈ سے،500 ملین ڈالر کی رقم فراہم کرے گا۔ اس رقم کو
پاکستان میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، آبی وسائل کی ترقی اور ہائیڈرو پاور
ڈویلپمنٹ کیلئے خرچ کیا جائے گا۔دونوں فریقین کا ویژن 2030ء کی روشنی میں
ممکنہ سرمایہ کاری کے مواقع پر تبادلہ خیال ہوا۔ توانائی، سائنس،
ٹیکنالوجی، زراعت اور ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق
ہوا۔ دونوں فریقین نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششوں کو جاری
رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کسی مذہب، قومیت، تہذیب یا نسلی
گروہ سے وابستہ نہیں، فلسطینی عوام کے تمام جائز حقوق، بالخصوص حق
خودارادیت اور آزاد ریاست کے مطالبے کی حمایت، شام اور لیبیا کے مسائل کے
سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔دونوں ممالک نے یمن تنازع کے جامع سیاسی
حل کی کوششوں کی حمایت اعادہ کرتے ہوئے سعودی عرب کی سرزمین پر اہم تنصیبات
اور شہریوں کے خلاف بیلسٹک میزائلوں اور ڈرون حملوں کی مذمت کی اور تیل
برآمدات اور توانائی کی فراہمی کے استحکام کو لاحق خطرات پر شدید تشویش کا
اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم نے سعودی ولی عہد کو بھی دورہ پاکستان کی دعوت دی
ہے جس پر جلد ان کی وطن عزیز آمد متوقع ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا دورہ
سعودی عرب ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات
میں کمزوری کا پروپیگنڈا مکمل طور پر دم توڑ گیا ہے۔ بین الاقوامی قوتوں کی
ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح دونوں ملکوں کے مابین اختلافات کو ہوا دی
جائے لیکن پاک سعودی عرب دوستی ہر آزمائش میں الحمداﷲ پورا اتری ہے اور
دونوں ملکوں کے تعلقات دن بدن اور زیادہ پروان چڑھے ہیں۔ حقیقت ہے کہ
پاکستان اور سعودی عرب دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور ان کی
دوستی ان شاء اﷲ مضبوط و مستحکم رہے گی۔
|