یوم باب الاسلام
(shabbir Ibne Adil, Karachi)
ہر سال 10رمضان المبارک کو یوم باب الاسلام منایا جاتا ہے۔ اسی دن سن 92ہجری کو سندھ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑی اور سندھ کو باب الاسلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ صدیوں بعد یہی واقعہ قیام پاکستان کا سبب بنا۔
ایک دفعہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ ”پاکستان کی پہلی بنیاد اس دن رکھی گئی تھی جب محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا“۔وہ دس رمضان المبارک 92ہجری مطابق 28اکتوبر 711ء کا دن تھا کہ اروڈنزدروہڑی ضلع سکھر کے مقام پر راجہ داہر کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ فتح سندھ اسلامی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔یہ دیکھ کر دنیا حیرت زدہ ہوجاتی ہے کہ ایک 17سالہ نوجوان چند ہزار جانبازوں کو ساتھ لے کر دور دراز کا سفر طے کرکے ہندوستان کی اجنبی سرزمین میں داخل ہوتا ہے اور اس کے سامنے یہاں کے بڑے بڑے راجوں، مہاراجوں کی بے پناہ مادی قوت بے بس ہو کر رہ جاتی ہے۔ محمد بن قاسم کے پاس محدود وسائل تھے۔مختصر سی جماعت تھی اور راستہ نہایت دشوار گزار، مگر اس باکمال سپہ سالار اور عظیم فاتح نے اسلام دشمنوں کو نہ صرف اقتصادی اور مادی لحاظ سے فتح کیا، بلکہ ان کے دل و دماغ بھی اسلام کے لئے مسخر کرلئے۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم 75ہجری کو طائف(سعودی عرب)میں پیدا ہوئے اور یہیں بچپن کا زمانہ گزرا۔جب حجاج بن یوسف عراق کے گورنر مقرر ہوئے تو اس نے تقضی خاندان کے بڑے بڑے لوگوں کو مختلف عہدوں پر فائز کیا،انہی بڑے لوگوں میں محمد بن قاسم کے والد قاسم بھی تھے۔جو بصرہ کے گورنر مقرر کئے گئے۔حجاج بن یوسف کو بچپن ہی میں محمدبن قاسم کی صلاحیتوں اور جرأت مندی کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔جب محمد بن قاسم کو شعور ہوا تو حجاج بن یوسف نے 90ہجری میں ان کو کردوں کے مقابلے کے لئے بھیجا، جنہوں نے ایران میں بغاوت کردی تھی۔اس وقت محمد بن قاسم کی عمر 15سال تھی۔انہوں نے کردوں کو شکست دیکر بغاوت کا خاتمہ کردیا،جس سے ان کی شہرت ہوئی اور وہ اس قابل سمجھے جانے لگے کہ یہ ایک باکمال سپہ سالار اور عظیم فاتح ہے۔
بنو اُمیہ کے دور حکومت میں بعض عرب تاجر سری لنکا (لنکا) میں وفات پاگئے تو وہاں کے راجہ نے ان کی یتیم لڑکیاں، بیوہ خواتین اور خلیفہئ وقت کے لیے بیش بہا تحائف مشرقی صوبوں کے گورنر حجاج بن یوسف کے پاس بحری جہازوں میں روانہ کئے۔ سندھ کے ساحل کے قریب ان جہازوں کو بحری قزاقوں نے لوٹ لیا۔ یہ عرب بندرگاہوں،جنوبی ہند اور سری لنکا میں قائم عرب تجارتی اداروں کے مابین ہمیشہ رکاوٹ کا باعث بنتے اور مال تجارت کی باقاعدہ آمد و رفت میں مشکلات پیدا کرتے تھے۔ حجاج بن یوسف جو کہ عہد اُموی میں بصرہ کا گورنر تھا۔جب قزاق پکڑ دھکڑ کررہے تھے تو قیدیوں میں سے ایک لڑکی نے حجاج بن یوسف کو دہائی دی۔لیکن ڈاکوؤں نے کوئی پرواہ نہ کی۔اس قافلے کے لوگوں کے ذریعے جب یہ فریاد اور دہائی حجاج بن یوسف تک پہنچی تو اس نے ولیدبن عبدالمالک سے حملے کی اجازت مانگی۔ ولید نے حجاج کو اجازت دے دی۔حجاج نے حملہ کرنے سے پہلے راجہ داہر کو خط لکھا،لیکن اس نے ٹال دیا اور کہا کہ یہ سمندری ڈاکوؤں کا کام ہے۔حجاج بن یوسف نے یہ سن کر ایک لشکر عبید اللہ نجھان سلمی اور بعدازاں ہدیل بن طھفہ کی سربراہی میں دیبل روانہ کیا اس معرکے میں عبیداللہ ابی نجھان شہید ہوگئے اور بعدازاں بدیل بن طھفہ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ان مجاہدین کی شہادت نے حجاج بن یوسف کے غصے میں اضافہ کردیا اور اس نے محمد بن قاسم کی سربراہی میں قافلہ روانہ کیا۔اس وقت ان کی عمر 17سال تھی۔اس لئے بعض لوگوں نے ضرور اس انتخاب پر انگشت نمائی کی ہوگی،لیکن حجاج بن یوسف کا یہ انتخاب ہر لحاظ سے درست تھا۔بعد کے واقعات نے ثابت کردیاکہ محمد بن قاسم کا بہتر انتخاب وقت کا اہم اور قابل قدر فیصلہ تھا۔محمد بن قاسم 6ہزار سوار لے کر خشکی کے راستے دیبل پہنچا، کیونکہ یہی وہ مقام تھا، جہاں جہاز کو لوٹا گیا تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو گرفتار کرکے بے عزت اور رسوا کیا گیا تھا۔ محمد بن قاسمؒ اور راجہ داہر کے سپاہیوں کے ساتھ معرکہئ کفر و اسلام 10 رمضان المبارک بروز جمعے کو ہوا اور بہت ہی مختصر وقت میں اسلام کی قوت کفر پر غالب آگئی۔ محمد بن قاسم نے دیبل شہر کا محاصرہ کیا اور یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا، مگر کوئی قابل ذکر کامیابی سامنے نہ آئی۔بالآخر العروس نامی ایک منجینق سے کام لیا گیا جسے 500آدمی چلاتے تھے اور شہر فتح ہوگیا۔ سندھ فتح ہونے کے بعد اسے باب الاسلام بننے کا شرف حاصل ہوا۔ دیبل،نیرون کوٹ (حیدر آباد)،الور وغیرہ کی فتح کے ساتھ محمد بن قاسمؒ کے قدم ملتان تک چلے گئے۔محمد بن قاسمؒ نے مفتوح عوام اور رعایا سے روا داری اور حسن سلوک کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ ان کی جان و مال کا تحفظ کیا گیا۔ مذہبی رسوم کی مکمل آزادی دی گئی۔ برہمنوں اور بدھ مت کے پجاریوں کے ساتھ مثالی سلوک کیا گیا۔ محکمہئ مال کے عہدے داروں سے مخاطب ہوتے ہوئے محمد بن قاسمؒ نے کہا: ”عوام اور حکومت کے حصہ ہائے پیداوار کے تعین میں دیانت داری سے کام لیا جائے اور اگر ریاست کا حصہ وصول کرنا ہو تو انصاف کے ساتھ وصول کیا جائے۔ عوام کے ادا کرنے کی اہلیت کے مطابق ان سے محاصل کی تشخیص کرو،باہم اتفاق رکھو اور ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو،تاکہ ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا نہ ہو“۔ محمد بن قاسم صرف فاتح ہی نہ تھا، بلکہ ایک مبلغ بھی تھا،کیونکہ اس نے عوام کو ایک بہت بڑے ظالم اور جابر شخص سے نجات دلائی،حتیٰ کہ راجہ داہر کا لڑکا مسلمان ہوگیا۔سندھ کے باشندے اپنی سابقہ دشمنانہ کارروائی کی وجہ سے مسلمان فاتحین سے انتہائی سخت برتاؤکی توقع رکھتے تھے، لیکن انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ محمد بن قاسم نے ہر خاص و عام کے لئے معافی کا اعلان کیا۔کسی نوع کی آزادی پر پابندی نہ لگائی گئی۔حتیٰ کہ شہر کا نظم و نسق بھی ہندوؤں کو سونپ دیا۔دیبل کا عامل ایک پنڈت کو بنایا گیا جو قبل ازیں جیل خانے کا محافظ تھا۔ہندوؤں کے وظیفے اور ان کی جائیدادیں محفوظ رہیں، بلکہ ان کو سرکاری خزانہ سے امداد دی گئی۔پجاریوں کے واجبات بھی بدستور قائم رہے او رکسی بھی شخص کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ برّصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مسلم حکومت کا قیام درحقیقت اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا اور زریں باب ہے۔ سندھ کی فتح سے برّصغیر میں مسلمانوں کو ایک اوّلین مقام میسر آیا۔عرب مجاہدین اس ملک میں آباد ہوئے اور ان میں بعض نے مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں،جو بعد میں پُررونق شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں تبدیل ہوگئے۔ سندھ میں مسلم حکومت بنو امیہ کے زوال تک قائم رہی۔ فتح سندھ سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ثقافتی روابط کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ عربوں کی اہم ترین علمی دریافت یہ تھی کہ انہوں نے اعشاری اعداد کا نظام رائج کیا اور جب یہی نظام اہل یورپ کے پاس پہنچا تو اسے عربوں کے عددی نظام کا نام دیا گیا۔
تقریباً پون صدی کے بعد بغداد میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دور حکومت میں مسلم ثقافت کی ترقی ہوئی۔ علم نجوم پر ہندوستانی کتابیں مثلاً مدہانتا جسے اہل عرب ”عاص سندھ ہند“ کا نام دیتے ہیں،عربی زبان میں ترجمہ کی گئی۔ اسی طرح آیورویدک کتابوں پر مشتمل ادویات کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔سندھ میں مسلم حکومت کے قیام نے سندھ اور ارد گرد کے علاقوں میں اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے راستہ ہموار کیا۔ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کا حق تسلیم کیا گیا۔ ان کی عبادت گاہوں کو بالکل نہ چھیڑا گیا۔ انہیں اپنے شخصی قوانین کے نفاذ، مذہبی اداروں، مقامی اور قومی معاملات پر اپنا نظم و نسق قائم کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا۔ سندھ اور ملتان نے عرب سیاحوں،ادیبوں اور مبلّغین اسلام کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ان لوگوں نے اپنی سرگرمیوں کے دائرے کو پنجاب،بلوچستان تک کے علاقے میں پھیلایا جو آنے والے بعد کے دور میں سندھ میں مسلمان مبلّغین اورعلماء کے لیے پرکشش ثابت ہوا۔ عربوں کے ہاتھوں سندھ اور ملتان کی فتوحات سے جنوب مشرقی ایشیا کے ساحلی علاقوں میں بعض عرب آباد ہوئے۔جب کہ بعض عرب مسلمان فتح سندھ سے قبل مالا بار اور سری لنکا کے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی میں عربوں کی بحری تجارتی شاہ راہ بنگال کے ساحل کے ساتھ واقع تھی۔غرض کہ برّصغیر میں اسلام کی نشر و اشاعت کی کہانی حقیقتاً ان لاتعداد مجاہدین، اولیاء اللہ اور صوفیائے کرامؒ کی رہین منت ہے، جنہوں نے خدمتِ انسانیت اور دین کی اشاعت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں۔ لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں دو اہم عوامل نے ان مقدس بزرگوں کا ساتھ دیا۔ایک تو ہندومت میں ذات پات کے گروہی نظام نے جو عربوں کی آمد سے قبل یہاں کے معاشرے میں رائج تھا اور جن پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا۔ دوسرے ان بزرگ انسانوں کی اپنی سادہ طرزِحیات، نیک اور قابل تقلید زندگی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ یہاں کے ذات پات کے غیر منصفانہ نظام نے ہندوؤں کو ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ طبقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ چنانچہ ان لاکھوں مصیبت زدہ عوام کے لیے اسلام امید کا پیغام لے کر اس خطّے میں وارد ہوا، جس کی روشنی سے سرزمین ہند کے کفار متاثر ہوئے اور اپنا صدیوں پرانا مذہب چھوڑ کر حلقہئ اسلام میں داخل ہوئے اور یہی درحقیقت اسلام کے توحید و مساوات کا پیغام تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|