تَنزیلِ قُرآن اور عُلماۓ روایت !! { 3 }

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ طٰہٰ ، اٰیت 1 تا 8 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
طٰہٰ 1
ماانزلنا
علیک القرآن
لتشقٰی 2 الّا تذکرة
لمن یخشٰی 3 تنزیلا ممن
خلق الارض والسمٰوٰت العلٰی 4
الرحمٰن علی العرش استوٰی 5 لہ ما فی
السمٰوٰت والارض وما بینھما وما تحت الثرٰی 6
وان تجھر بالقول فانہ یعلم السر واخفٰی 7 اللہ لاالٰہ
الّا ھو لہ الاسماء الحسنٰی 8
اے ھمارے پاکیزہ سیرت و ھدایت یافتہ رسُول ! ھم نے آپ پر یہ قُرآن بارِ جان بنا کر نازل نہیں کیا ھے بلکہ ایک بہارِ جان و متاعِ ایمان بنا کر نازل کیا ھے جس کا مقصدِ نزُول اُن لوگوں کے لیۓ ایک تازہ یاد دھانی ھے جن لوگوں کے دل خُدا خوفی سے خالی ہو چکے ہیں ، آپ کے دل پر یہ تَنزیل اُس رحمٰن کی طرف سے اُتاری گئی ھے جس رحمٰن نے اپنی قُدرت و قُوت سے پہلے زمین کو ہَموار کیا ھے ، پھر اِس زمین پر آسمانوں کو اُستوار کیا ھے اور پھر وہ اُس عرشِ مُعلٰی کی طرف مُتوجہ ہوا ھے جو سات آسمانوں سے بھی ایک بلند تر مقام ھے ، اِس لیۓ اِن آسمانوں کی وُسعت و بُلندی میں جو جو کُچھ ھے ، اِس زمین کی پَستی و گہرائی میں جو جو کُچھ ھے اور اِس زمین کی اِس مِٹی کے نیچے جس جس جہان میں جو جو کُچھ ھے وہ سب کُچھ اُسی مہربان خالق کی تخلیق ھے ، اگر آپ چاہیں تو بلند آواز میں اور چاہیں تو ایک دھیمی آواز میں بھی اُس سے اُس کی توجہ طلب کرسکتے ہیں ، وہ ارض و سما کی بلندی و پَستی سے ہر بلند و پَست کی ہر بلند و پَست آواز کو سُنتا ھے ، عالَم و اہلِ عالَم کا وہی ایک مُفرد و مُجرد اِلٰہ ھے ، اُس کے سوا یا اُس کے علاوہ عالَم و اہلِ عالَم کا کوئی اور اِلٰہ نہیں ھے اور اُس کے سارے ہی حسین نام اُس کے بہترین نام ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
امام بخاری نے سیدنا محمد علیہ السلام کو ایک چلّہ کش راہب کی صورت میں دکھانے کے لیۓ غارِ حرا کی جو خیالی کہانی وضع کی ھے اور اُس خیالی کہانی میں سیدنا محمد علیہ السلام کے اِس عملِ چلّہ کشی کے لیۓ "تحنث" کی جو خانہ ساز اصطلاح استعمال کی ھے عُلماۓ حدیث و شارحینِ بخاری اپنے مکتب میں اُس اصطلاح کی جو شرح و تفصیل بیان کرتے ہیں اُس پر ہمیشہ ہی وہ تقیّے کی ایک سیاہ چادر ڈال کر بیان کرتے ہیں تاکہ عامتہ المسلمین "تحنث" کا حقیقی مفہُوم جان کر بخاری کی ناؤ کو کسی اَلاؤ میں ہی نہ جھونک دیں لیکن ھم نے گزشتہ سطور میں "داشتہ آید بکار" کے طور پر اُس کی ایک مُختصر سی تفصیل بیان کردی ھے لیکن امام بخاری نے ورقہ بن نوفل کی وفات کے بعد سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کی بندش ، اُس بندش سے سیدنا محمد علیہ السلام کے دل میں پیدا ہونے والے اضطراب اور پھر اُس اضطرابِ دل سے مُضطرب ہو کر سیدنا محمد علیہ السلام کے بار بار خود کشی کے لیۓ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھنے کی جو جھوٹی کہانی سُنائی ھے اور اُس کہانی میں جو ایک خیالی منظر اُجاگر کیا ھے اور اپنے اُس خیالی منظر کو اُجاگر کرنے کے لیۓ "ینشب" کی جو اصطلاح استعمال فرمائی ھے اُس اصطلاح کے مذمُوم مفہُوم کو بھی عُلماۓ حدیث و شارحینِ بخاری شَب کی سیاہی کی طرح چُھپاکر رکھتے ہیں لیکن اُس کا علمی و حقیقی پس منظر یہ ھے کہ ینشب فعل مضارع کا صیغہ ھے اور عربی لُغت کی رُو سے اِس فعل کا مصدر "النشبة" ھے جس کا معنٰی کسی انسان کا اُس کام میں پَھنس جانا ہوتا ھے ھے جس کام میں پَھنس کر اُس انسان کا اُس کام سے باہر نکلنا مُمکن نہیں ہوتا ، اہلِ عرب اسی حوالے سے کہتے ہیں "النشبة بجالة" یعنی اُس نے اُس کو اپنے جال میں جکڑ لیا ھے یا پھر یہ کہتے ہیں کہ "نشب العظم فی حلقہٖ" یعنی اُس کے حلق میں ہَڈی پَھنس گئی ھے ، یا پھر یہ کہتے ہیں کہ "نشب الامر فلانا" کہ فلاں آدمی کام میں پَھنسا اور دَھنسا ہوا ھے اور یا پھر یہ کہتے ہیں کہ "نشب منشب سوء" فلاں انسان ایک پیچیدہ کام کی پیچیدگی میں پَھنس کر رہ گیا ھے ، یہ فعل ینشب جب باب "سمع یسمع" سے آتا ھے تو اِس کی خاصیت صحت و بیماری ، اور خوشی و غمی کی خبر دینا ہوتا ھے اور اِس باب کے تحت آنے والا یہ فعل جس انسان میں صحت و بیماری یا خوشی و غمی کی جس کیفیت کے موجُود ہونے کی خبر دیتا ھے اُس کی مخالف کیفیت کے موجُود نہ ہونے کی خبر بھی دیتا ھے ، یعنی اِس فعل سے ملنے والی خبر ایک ذُوجہتین خبر ہوتی ھے ، یعنی اِس کی بیماری کی خبر میں عدمِ صحت کی خبر ، غم کی خبر میں عدمِ خوشی کی خبر اور خوشی کی خبر میں عدمِ غم کی خبر بھی شاملِ خبر ہوتی ھے لیکن جب اِس باب کے تحت آنے والے فعل پر حرفِ نفی "لم" کا اضافہ ہوتا ھے تو بیماری و تندرستی یا خوشی و غمی وغیرہ کی خبر ظاہر کرنے والا یہ فعل نہ صرف یہ کہ کام کے وقت کا دورانیہ محدُود کر دیتا ھے بلکہ فعل حال کو فعل ماضی بھی بنا دیتا ھے اور پھر بیماری و تندرستی یا خوشی و غمی کا پیرایہِ اظہار یہ ہو جاتا ھے کہ بیمار نے تندرست ہونے میں ، مغمُوم نے خوش ہونے میں یا خوشی دینے والے نے غم دینے میں دیر نہیں لگائی ھے بلکہ بیماری انسان فورا ہی تندرست ہو گیا ھے مغموم انسان دفعتا خوش ہو گیا ھے اور خوشی دینے والے انسان نے اچانک ہی غم دے دیا ھے ، صاحبِ "المنجد" نے اِس اصول کے حق میں یہ دلیل پیش کی ھے کہ "مانشب او لم ینشب ان فعل" یعنی اُس نے ایسا کرنے میں دیر نہیں لگائی ، حدیثِ بخاری میں یہی فعل "ینشب" نفی جحد بہ لَم استعمال کیا گیا ھے ، اسی قاعدے کے مطابق استعمال کیا گیا ھے اور اسی نیت و ارادے کے تحت استعمال کیا گیا ھے اور چونکہ امام بخاری کا موضوعِ بحث چونکہ سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی اور آپ کو وحی سے حاصل ہونے والی مُسرت و خوشی ھے اِس لیۓ امام بخاری یا اُن کے بے راہ رَو راوی نے پہلے تو وحی کو ورقہ بن نوفل کی زندگی سے اور وحی کی مُسرت و خوشی کو سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کے ساتھ مُنسلک کیا ھے ، پھر ورقہ بن نوفل کی زندگی ، وحی کے نزُول اور سیدنا محمد علیہ السلام کی مُسرت و خوشی کے ختم ہونے کا اِن الفاظ میں اظہار کیا ھے { ثم لم ینشب ورقة ان توفی وفترة الوحی فترة حتٰی حزن النبی } یعنی پھر ورقہ بن نوفل کی موت نے اُس کو اُس کام سے نکالنے میں دیر نہیں لگائی جس کام میں وہ پَھنسا ہوا تھا اور اِس طرح نبی علیہ السلام پر آنے والی وحی مُنقطع ہوگئی اور نبی اکرم علیہ السلام غم سے نڈھال ہو گۓ لیکن بخاری کے ترجمان پہلے تو اپنے تقیّے کے جادُو سے اِس متنِ حدیث سے "لم ینشب" کے الفاظ غائب کرتے ہیں اور پھر اِس کا یہ بے ضرر سا ترجمہ کرتے ہیں کہ { اُس کے چند ہی روز بعد ورقہ گزر گۓ اور وحی کا آنا بند ہو گیا مگر سوال یہ ھے کہ اگر بخاری کی اِس اَکلوتی حدیث کے اِس اَکلوتے راوی کے شانوں پر شیطان سوار نہیں تھا تو اُس کو ورقہ بن نوفل کی موت اور سیدنا محمد علیہ السلام کی وحی کی بندش کو باہَم جوڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی لیکن حدیثِ بخاری کے اِس راوی نے اسی بات پر اکتفا نہیں کیا ھے بلکہ اُس نے اِس بات کا بھی دعوٰی کیا ھے کہ جب سیدنا محمد علیہ السلام کی وحی مُنقطع ہوگئی تو آپ نے کئی بار خود کشی کا ارادہ کیا اور آپ کئی بار پہاڑ کی چوٹی سے گر کر اپنی جان دینے کے لیۓ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے اور کئی بار جبریل آپ کو روکنے کے لیۓ آپ کے پاس آۓ لیکن آپ پھر بھی خود کشی کے ارادے سے باز نہیں آۓ حالانکہ آپ اُس قوم کے فردِ فرید ہیں جس قوم میں "العاقل تکفیہ الاشارہ" ہمیشہ سے ایک معروف قول رہا ھے ، ہو سکتا ھے کہ عقلِ بخاری کی رُو سے یہ نبی علیہ السلام کی تعریف و توصیف ہو لیکن عام انسانی عقل کے اعتبار سے یہ ایک کُھلم کُھلی توبیخ اور ایک کُھلم کُھلا تبرٰی ھے ، بخاری میں اِس حدیثِ تبرٰی کو دو طریقوں سے روایت کیا گیا ھے ، پہلے طریقِ روایت میں ابن شہاب عروہ کا حوالہ دیتے ہیں اور عروہ سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت کرتے ہیں اور دُوسرے طریقِ روایت میں زہری عروہ کا حوالہ دیتے ہیں اور عروہ سیدہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں ، بخاری کی اِس حدیث کے جس پہلے منظر کے پس منظر کی طرف ھم توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ ابن شہاب اور زہری ایک ہی شخص کے دو نام ہیں لیکن امام بخاری نے چونکہ اِس حدیثِ دروغ کو فروغ دینا تھا اِس لیۓ اُنہوں نے ایک فرد کو دو اَلگ اَلگ نام دے کر اپنے اِس مُحدثانہ دروغ کو فروغ دینے کے لیۓ اِس کا نصابِ شہادت بڑھایا ھے جو ایک بدترین علمی بد دیانتی ھے ، اِس حدیث میں ایک اور قابلِ غور بات یہ ھے کہ حدیث کا آغاز عروہ و سیدہ عائشہ کے نام سے کیا گیا ھے لیکن اثناۓ کلام میں جہاں سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی پر اَقدامِ خود کشی کا بُہتان لگانا مقصود تھا وہاں پر یہ الفاظ لاۓ گۓ ہیں کہ ہم تک خبر پُہنچی ھے ، یہ خبر کہاں سے پُہنچی ھے ، کس نے پُہنچائی ھے ، اِس کا اِس حدیث شریف میں کوئی ذکر نہیں ھے اور حقیقت بھی یہی ھے کہ یہ خبر کہیں سے آئی نہیں ھے بلکہ سیدنا محمد علیہ السلام کی نبوت و وحیِ نبوت کی نفی کرنے کی نیت سے یہ خبر دُشمنانِ وحی و نبوت نے بنائی ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559493 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More