مکس سیاسی چاٹ

جس میں سبھی سیاسی پھل حسب ضرورت موجود ہیں سب سے پہلے شہباز کی پروازناموس رسالت کی بات تو تاریخ کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور راکھ میں دبی چنگاری کی مانند ہو گئی اور کسی صورت مذاق سے کم نہیں
قارئین کو عید کے بعد اس اُمید کے ساتھ خوش آمدیدکہتے ہوئے خوشی محصوص ہورہی ہےکہ وہ اپنی معاشی نقصان کے باوجود برائے نام ہی مگر غیر روائتی عید گزارنےمیں کامیاب ہو گئے ہیں اور موت سےبچنے کی خاطر کیے گئے اقدامات کسی حد تک کامیاب ہو گے اور اب سبھی دوبارہ اپنے اپنے کاموں میں پوری ایمانداری اور تن دہی سے اپنے معاشی نقصان کی بھرپائی کے لئے کوشاں ہوں گے اورگزیشتہ حالات و واقعات کے بوجھ کو سمیٹ کر اپنے قارئین کی نظر مکس سیاسی چاٹ پیش کر رہا ہوں جس میں سبھی سیاسی پھل حسب ضرورت موجود ہیں سب سے پہلے شہباز کی پرواز جس کو انصاف کی دیوی نے مہربان ہو کربسلسلہ علاج بیرون مملک جانے کی اجازت دی مگریہ بھول گئی کہ اس نے جس کی ضمانت دے کر باہر بھیجا تھا وہ بھی علاج کی غرض سے باہر گیا تھا اور آج تک واپس نا آیا اورحکومتی حربہ اس کے التوا کاباعث بنا ہوا ہے الغرض اب دوبارہ موصوف نے اسی دیوی سے استدا کی درخواست دائرکی ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے لیکن جو بھی ہو دونوں صورتوں میں شکست قانون کی اور آئینی مملکت کی ہے اور ایک زوردار طمانچہ دونوں انتظامی اداروں کے اس نظام کو چلانے والوں کے منہ پر ہے جو ان کو دیکھائی تو نا دے گا مگر گونج بن کر سنائی ضرور دیتا رہے گا کہ جس نظام میں عوام الناس کی زندگیاں گزرنے کے بعد فیصلے نہیں ہوتے کس طرح ایک ہی تاریخ میں بغیرحکومتی موقف کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت مل جاتی ہے تو60 سال سے زائد عمر افراد کو جیل میں قید رکھنے کا قانون چھوٹے چھوٹے جرموں میں قید لوگوں کوعلاج کے لئے ضمانت کیوں نہیں دیتا نا دواپنے گھر ہی میں قید کردو لیکن نہیں کیونکہ ہمارے قید خانوں میں بے شمار افراد سچ اور جھوٹ کے فیصلے سے قبل ہی گرفتار کر جیل میں بھجنے کا رواج عام ہے جو مقروض ملک پر بوجھ بھی ہے لیکن بوجھ کو برداشت کرنا نظام کی طاقت کا پتہ دیتا ہے اور رعائیہ پر خوف طاری رکھنے میں معاون بھی تو ہےاورچند کی روزی روٹی کا زریعہ بھی توبنا ہے جو انگریز کے دور سے چل رہا ہے اور چلتا جا رہا ہے اس لئے کوئی اس مذاق کو بند نہیں کرنا چاہتا لیکن ملک میں حکومت کرنے والوں کو اس بات پر سزا نہیں دی جاسکتی کہ اُنھوں نے ملک میں کوئی ایک ہسپتال نہیں بنوایا جہاں اُن اشرافیہ کاعلاج ہی ممکن ہو سکے اور جس نے ہسپتال کے نام پر اپنی تنظیم بنالی اور تنطیم کے نام پر حکومت اور پھر بھی ایک شخص علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت مانگ رہا ہےمنصف پابند سلاسل ڈال دیتا وقت کے حاکم کوبشرط کوئی افتخار چوہدری ہوتا یا نیثار احمد ہوتا کہ اس کا علاج پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا خیرقانون موت مختلف ہے ناموس رسالت کی بات تو تاریخ کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور راکھ میں دبی چنگاری کی مانند ہو گئی اور کسی صورت مذاق سے کم نہیں معلوم ہوتا کہ جس خؤبصورتی سے 24 نوجوانوں کے قتل عام کو پس پچھت ڈالا گیا اور بس یہ معاملہ صرف ایک شخص کیحد تک محدود کر دیا گیااور تنظیم کے لیڈر کی درخواست صرف یہ کہہ کر خارج کر دی گئی کہ تنظیم کالعدم ہےجبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اسی کالعدم تنظیم کو انتخابات میں حصہ لینے دیتی ہےانصاف کا تقاضہ انفرادی شخص کے وکیل کی حثیت میں درخواست جمع کروانے ہے جبکہ آئین پاکستان کے کسی تنظیم پر پابندی کا اعلان ہونے سے 15 یوم میں حکومتی وزیر نے پابندی کی سمری اعلی عدلیہ کو ارسال کرنا ہوتی ہے اور ساری قوم کو اب تو پتہ چل چکہ ہے کہ حکومت بار ہا اس تنظیم سے وعدے وعید کر کے امن بحای کے نام پر وعدہ خلافی کر چکی ہے اوراس 26 سال جوان کو قبل از احتجاج گرفتار کیا گیا اور بوقت سانحہ وہ زیرہراست تھا میں تو یہاں شہباز شریف سے ملتمس ہوں کہ وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں وہ درخواست ہی منظر عام پر شائع کر دیں کہ جس پر فوراًاجازت مل سکتی ہے تاکہ عوام مستفید ہو سکے اوراپنی جان جان آفرین کے سپرد کرنے سے قبل فیصلہ سن لیں ساتھ ہی ساتھ اپنی جان کی امان بھی ضروری ہے اور میرا ہرگز مقصد توہین نہیں ہےبلکہ مکس سیاسی چاٹ کی اہم ضرورت ہونے کی وجہ سے تحریر کرنا پڑ رہی ہے بلکہ اس چاٹ کا ایک اور اہم انگرڈینٹ چینی ہے جو ابھی تک ضمانت پر چل رہا ہے اس میں میرا کوئی قصور نا ہے کہ ساری سیاست ایوان سے نکل کرعدالت میں آکھڑی ہوئی ہے اورخواہ انصاف کدہ کا سیاسی معاملوں میں تاریخی فیصلےقابل اعتراض ہی رہے ہیں پھر بھی اچھے وقت کی نوید تک وقت گزارنے کا بہترین ذریعہ بھی یہی مقام ہے اب یہ بات الگ ہے کون کتنا جانتا ہےاس سیاسی چاٹ میں ذکر تو چوہدری برادرن کا بھی ہے جس میں سے ایک کے مقدمات کو ختم کر دیا گیا ہے اوربے جا بھرتیوں کے 2مرکزی مجرم جو پہلے ہی فوت ہو چکے ہیں مزید مقدمے کی پیروائی اورانصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور راولپنڈی رنگ روڈ میں کرپشن کے معاملے میں وزیر اعظم کی بروقت مداخلت سے حکومت کے ایک وزیر نے چور کی داڑھی میں تنکے کی کہاوت کوسننے بغیر ہی قبل از وقت اپنا رعب اور دبدبہ قائم کرنے کی غرض سے پریس کانفرنس کر ڈالی اورقسم اورعدالتی نوٹس کی دھونس دے کرخود کو سچا ثابت کردیا جبکہ ایک نے تا وقت رپوڑٹ و انکواری اپنے عہدے سے دستبرداری کا فیصلہ کردیا اختتام ایک کمشنر کے بھائی کی باز گشت بھی سُننے کو مل رہی ہےجبکہ معاملہ اصل نوازنے کا شروع ہوا لگتا ہے اور وزیر اعظم کا ازخود نوٹس اصل کہانی منظر عام پرکچھ مدت بعد ائے گئی کیونکہ ہمارے ہاں بعد از پراجکٹ کی کرپشن نہیں پکڑی جاتی تو قبل از وقت کے انکشاف سے کیا ہوگا پھر فلسطین پر ہونے والے ظلم و ستم کی قرارداد بروقت ایوان میں پیش کر دی گئی خواہ ایک حکومتی خاتون ممبر نےاسمبلی اجلاس میں قرآن کی آیت کواسرائیل کے حق میں ہی دلیل بنا کر پیش کر دیا ہے اور کشمیر پر سمجھوتے کی طرح فلسطینیوں کو اپنے موقف سے دستبرداری کا مشورہ دیتے ہوے لڑائی کو ختم کرنے اورحضور اور حضرت علی کے اقوال کا نام لے کردشمنوں کو دوست بنانے کی حدیث پیش کرنے کے باوجود تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا 21 مئی کو یوم القدس منانے کا اعلان اور سراج الحق صاحب کا یہود ونصارہ کے دوست بنانے کے خلاف حدیث کا حوالہ دونوں متضاد اور لا حاصل گفتگو ہے اب تو اس مقدمہ اس کا فیصلہ بھی کوئی ریاستی ادارہ ہی کر دے کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ یہود کو دوست رکھنا ہے کہ نہیں اور وزیرداخلہ کا بیان بے جا اور اپنی بند کلی کو کھولنے کے برابر ہے کہ 45 ملکوں کی متحدہ فوج مسلم امہ کی داد رسی کے لئے نہیں ہے صرف حکومتی اختلاف رائے کا منہ بولتا ثبوت اور امت مسلمہ سے غداری ہےیاایسا بیان قبل از وقت دینا صرف نااہلی کو ثابت کرتی ہے گزیشتہ روز چوھدری نثار کا حلف اٹھانا مملکت کے قانون پر بڑا سوال ہے شہباز شریف کا ممبران کے لئے پُر تکلف دعوت اور جہانگیر ترین کے عشائیہ پنجاب میں سیاسی ہلچل کی نوید ہےجس پر بند باندھنے کی حکومتی کوشیشیں جاری ہیں ۔
 
M.Qasim Saleem
About the Author: M.Qasim Saleem Read More Articles by M.Qasim Saleem : 9 Articles with 6093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.