تمام مہینوں کاسردار،ماہِ رمضان اپنی برکتیں اور رحمتیں
سمیٹ کر آخر ہماری زندگیوں سے رخصت ہو گیا،اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں میں
بار بار اس ماہ کو لائے اور ہمیں اس کی برکتوں اور رحمتوں کو سمیٹنے کی
توفیق دیتا رہے۔آمین
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں ایک خاص نظام قایم کیا ہے،جس کے مطابق تمام
چیزیں یکساں اور برابر درجے کی نہیں ہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات کو
بعض مقامات پر،بعض اوقات کو بعض اوقات پر،بعض دنوں کو بعض دنوں پر،بعض
راتوں کو بعض راتوں پراور بعض مہینوں کوبعض مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی
ہے۔بیت اللہ میں نماز پڑھناایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔[بخاری،
ابن ماجہ]مسجدِ نبویﷺ میں نماز پڑھنا پچاس ہزارنمازوں کے برابر ثواب رکھتا
ہے۔[مسند احمد ابن حنبل]عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہو
جاتاہے۔[مسلم، ترمذی]شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔[سورہ قدر] رمضان
تمام مہینوں کا سردار ہے۔[معجم کبیر طبرانی]اس میں نیکیوں کا ثواب ستر گنا
تک بڑھا دیا جاتاہےاوراس ماہ میں کی گئی نفل عبادات ،دیگر ایام کے فرضوں کے
برابر ثواب رکھتی ہے۔[ابن خزیمہ]
یہ سب خدا کی رحمت ہے،جو اپنے بندوں پر بارش کے قطرات کی طرح برستی ہے۔ غور
طلب یہ ہے کہ دیگرمہینوں کے مقابلے میں اس ایک ماہ کو اتنی فضیلت سے آخر
کیوںنوازا گیا؟ذرا سی توجہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے
بندوں پر نہایت ہی کریم ہے،وہ جانتا ہے کہ میرے بندے سال بھر مشقت برداشت
نہیں کر سکتے،اس لیے اس نے صِرف ایک مہینے کو روزوںاور مخصوص احکامات کے
لیے چُنا اور سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حلال روزی اور حلال کھانے پینے
کی اجازت دے دی۔سال میں ایک مہینے کے روزے اسی لیے فرض کیے گئے جیسا کہ
ارشاد ربانی ہے؛ (رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں،بندوں کی) اس امیدپر کہ
شاید وہ متقی اور پرہیزگار بن جائیں![سورہ بقرہ]یعنی اگر اس ایک ماہ میں
انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول کی کامل اتباع کر لی،اس مبارک
مہینے میں خدا و رسول کا حکم سمجھ کر حلال چیزوں سے رُک گئے، تو اب یہ امید
کی جا سکتی ہے کہ باقی گیارہ مہینے خدا و رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں سے
بھی رُک سکیں گے۔
لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے! ہم نے تو یہ سمجھ لیا کہ اس ایک
مہینے میں چوکچھ نیکی ہو سکے کرلو،اس کے بعد اللہ اللہ خیر سے اللہ ۔یاد
رکھیے ایسا کرنا خود رمضان المبارک کی ناقدری کرنا ہے، اس لیے کہ رمضان
المبارک کا مہینہ تو ہمیں تقوے کا سبق سکھانے آیا تھا، اس کے گزرتے ہی اس
سبق کو بھول جانا ہرگز درست نہیں۔ فقط ایک ماہ چند رسمی عبادتوں کے کر لینے
سے ہم تمام تر ذمّے داریوں سے آزاد نہیں ہو سکتے! ’رمضان کے عبادت گزاروں‘
کو سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام
پر عمل کرنا لازم ہے،یہ نہیں کہ ستائیس رمضان یا چاند رات ،یا عید کی نماز
تک اللہ اللہ کرکے اس کے بعدسنیما ہال میں جابیٹھیں،مسجدوں کو خیرباد کہہ
دیں،جمعہ جمعہ نماز پڑھنے کو کافی سمجھیں۔یہ تو نہایت مہلِک شیطانی دھوکہ
ہے۔
نماز ہردن رات میں پانچ وقت فرض ہے،لیکن کیا کیجیے ! رمضان میں تراویح اور
تہجد پڑھنے والے بھی نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو غیررمضان میں فرض نمازوں کی
بھی پروا نہیں کرتے۔شاید انھیںشیطان یہ فریب دیتا ہے کہ اب تو تیرے گناہ
معاف ہو چکے،’طاقت بھر رمضان میں عبادت بھی کر چکا، رمضان بھر کے روزے بھی
رکھ لیے، مہینے بھر تراویح بھی پڑھی، اب ذرا دنیا کے کام کاج سنبھال۔پہلی
بات تو یہ سوچنے کی ہے کہ ہم رمضان میں کتنی عبادت کرتے ہیں؟ تراویح کی
جلدی جلدی کچھ اُٹھک بیٹھک یا کھانے کا نظام دوپہر اور رات کی بجائے صبح و
شام کو کرنے کے سوا ہماری زندگی میںکیا تبدیلی آتی ہے؟اگر ایمان داری کے
ساتھ اپنے معمولات کا جائزہ لیں،تو معلوم ہوگا کہ ہمیں رمضان بھر رمضان
رمضان چِلّانےکے سوا کچھ حاصل نہیں۔
رمضان ہماری زندگیوں میں خوش گوار انقلاب لانے،اللہ تعالیٰ سے کمزور ہوچکے
ہمارے رشتے کو مضبوط کرنے ،ہمارے گناہوں کو جلاکر خاکستر کرنے،ہمارے سینوں
میں غریبوں اوربھوکوں کے درد کا احساس پیدا کرنے ۔۔کے لیے آیا تھا، رمضان
ہمیں یہ سبق دینے کے لیے آیا تھا کہ جس طرح ہم رمضان میں حلال روزی سے
اللہ تعالیٰ کے حکم کی خاطر مقررہ وقت میں رُکے رہے،اسی طرح سال کے باقی
گیارہ مہینے بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے رُکے رہیں۔جس طرح
روزے کی حالت میں ہم نے اپنی بیوی سے جنسی خواہش پوری نہیں کی،اسی طرح سال
کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی کسی حرام جگہ میں اپنی شہوت پوری نہ کریں۔جس
طرح ہم رمضان میں نیند کے غلبے کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بستہ
کھڑے رہے،اسی طرح رمضان کے علاوہ، جب اللہ تعالیٰ کا منادی ہمیں آواز
دے،تو بستروں سے اٹھ کھڑے ہوں!رمضان ہمیں یہ پیغام دینے آیا تھاکہ جس طرح
ہم رمضان میںرات ودن اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے،اسی طرح ہماری پوری
زندگی اللہ تعالیٰ کی یاد میں بَسرہو،لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جس طرح آج
کے نام نہاد طلبا کتابوں کی طرف رُخ کرنا پسند نہیں کرتے،ایسے ہی ہم رمضان
کے بعد مسجد کا رُخ کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور
انعام کے طور پر نہیںبلکہ ایک تہوار کی طرح گزارتے ہیں،اسی لیے ہمیں رمضان
المبارک کے گذرنے کے بعد اس کا سکھایا ہوا سبق یاد نہیںرہتا، جب کہ رمضان
کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اختتام پر زندگیوں کا رُخ صحیح ہو جائے۔رمضان میں
ایک ماہ تک تقوے کا کورس کرنے والوں کو اگر اس کے گزرنے کے بعد اُس کا
سکھایا ہوا سبق یاد نہ رہے، تو گویا یہ پورا کورس ہی بے فائدہ رہا۔اس لیےاب
رمضان المبارک تو گزر گیا،لیکن ہمیں اس کا دیا ہوا سبق یاد رکھنے کی ضرورت
ہے ،اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں کو قبول فرمائے،ہماری تراویح کو قبول
فرمائے،ہماری نیکیوں کو قبول فرمائےاور ہم سب کو صحیح سمجھ نصیب
فرمائے۔آمین
[مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیرکٹر ہیں]
|