عید،،سب ماؤں ،،کے نام

لوگ کہتے ہیں کہ عیدآتی ہے توساتھ خوشیاں لاتی ہیں لیکن ہمارے ساتھ عیدکایہ معاملہ ذرہ مختلف ہے۔جب بھی یہ عیدآتی ہے توہمارے سوئے ہوئے غم پھرسے تازہ اورجڑنے والے زخم دوبارہ سے کھلنے لگتے ہیں۔ویسے جس گھرمیں ماں نہ ہواس گھرمیں کیاعیدہوگی۔۔؟2014میں والدہ محترمہ کی ہمیشہ کیلئے جدائی سے لیکرآج تک ان سات آٹھ سالوں میں ہم نے ایک بات سیکھی اوراپنی آنکھوں سے دیکھی ہے کہ اگرماں نہ ہوتوپھرعیدکیا۔۔؟اپناگھربھی پھرگھرنہیں رہتا۔عیدواقعی خوشیوں کاایک موقع اورمرحلہ ہوتاہے۔یہی وہ دن ہے جس دن بچوں کوکھل کرہنسنے،کھیلنے،کودنے،اچھلنے اورشرارتیں کرنے کانہ صرف پوراکاپوراموقع اورٹائم ملتاہے بلکہ بڑوں کی جانب سے مکمل آزادی بھی ملتی ہے۔شہروں میں تواتنانہیں لیکن گاؤں اوردیہات میں عیدوالے دن گلی،محلوں اودکانوں کے ساتھ بیابانوں میں بھی رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس بچے ہی بچے نظرآتے ہیں۔ اب کاحال تونہیں معلوم مگرہماراوالاحال بڑاشانداراورجاندارہوتاتھا۔عیدسے پندرہ بیس دن پہلے ہماری عیدکے لئے تیاریاں شروع ہوجاتی تھیں۔ہم توبچے تھے گاؤں اورعلاقے کی سطح پرتوکوئی اڈھیرعمرکا شخص بھی ایسانہ ہوتاجوعیدکااستقبال نہ کرتا۔ان دنوں خواتین گھروں کی آرائش وزیبائش میں لگ جاتیں۔بڑے عیدکے لئے کپڑوں،جوتوں اوردیگرسامان کی خریداری میں مشغول ہوجاتے اورہم بچے بڑوں وبزرگوں کی نیندیں حرام اورسکون غارت کرکے،،عیدآنے والی ہے،،کے ماٹوپرریہرسل شروع کردیتے۔عیدکی خوشیوں میں ہم اس قدرمگن ہوتے تھے کہ آسمان سرپراٹھائیں یانا۔لیکن پورے علاقے اورگاؤں کوہم ضرورسرپراٹھالیتے تھے۔وہ بھی کیادن تھے۔نہ کوئی کرونااورنہ کوئی رونا۔قدم قدم پرخوشیاں ہی خوشیاں ہوتی تھیں۔اب توہرطرف یاکرونا ہے یاپھررونا۔اس وقت اتنی سہولیات بھی نہ تھیں۔بجلی کی جگہ لالٹین استعمال ہوتاتھا۔گاڑیوں کی جگہ خچراورگدھوں سے کام چلایاجاتاتھا۔اس وقت سیمنٹ سے بنے یہ لینٹروالے مکان تھے اورنہ ہی سنگ مرمرسے آراستہ وپیراستہ یہ عالیشان محل اورتاج محل۔اس دور میں توتنکوں سے بنی ایسی جھونپڑیاں اورمٹی سے بنے ایسے زبردست چبوترے تھے کہ جومکان وگھرکم اورچڑیوں کے جالے وگھونسلے زیادہ نظرآتے تھے۔ کسی کے پاس لیپ ٹاپ تھااورنہ ہی کہیں کوئی موبائل۔سومیں سے کسی ایک گھرمیں موجودٹی وی اورٹارچ پرہی پورے علاقے اورگاؤں کاگزاراچلتاتھا۔شارجہ کپ کے سنسنی خیزمیچ اورعینک والاجن جیسے جادوئی ڈرامے ایک چھت اورایک چائے کپ کے چس میں بیٹھ کردیکھے جاتے تھے ہمیں آج بھی وہ دن یادہیں جب گاؤں میں کوئی ٹی وی نہ ہونے کی وجہ سے شارجہ کپ کے میچ اورعینک والاجن کے نستوروزکوٹے کوقسط واردیکھنے کے لئے ہم ندی پارکرکے پھوپھی کے گھرجایاکرتے تھے۔پورے علاقے اورگاؤں میں دویازیادہ سے زیادہ چاربیل ہوتے تھے مگرسارے علاقے اورگاؤں والے انہی دویاچاربیلوں پرہل چلاتے تھے۔میں اورتم یامیرااورتیرا کااس وقت کوئی رواج ہی نہیں تھا ۔ایک گھروجھونپڑی میں کھاناپکتااوراپنے وبیگانے سب ملکر کھاتے۔ہرگھرمیں چینی ہوتی اورنہ ہی ہرگھرمیں چکن۔مکئی کی روٹی،لسی ،خالص گھی،دودھ اورساگ۔کھانے میں یہ چندسادہ سی چیزیں تھیں لیکن ان کی طاقت اورتاثیرآج کی اس بازاری سریے اورسیمنٹ سے بھی زیادہ بہت زیادہ تھیں۔آج کے مقابلے میں اس وقت بظاہران گاؤں اورعلاقوں میں کچھ نہیں تھالیکن جوخوشیاں،جوچین اورجوسکون اس دورمیں تھا۔واﷲ وہ چین،وہ سکون اوروہ خوشیاں آج دنیاکی ان ساری نعمتوں اورسہولیات کی موجودگی میں بھی نہیں۔چنددن پہلے ایک قریبی عزیرماسٹرمحمدیاسرکے چھوٹے بھائی اورڈاکٹرروح الامین کے بھتیجے محمدحنظلہ جو ذہنی طورپرکچھ معذوراورمجذوب تھے کی نمازجنازہ میں شرکت کے لئے اچانک گاؤں جاناپڑا۔ویسے پہلے سال یادوبعدگاؤں کاچکرلگتالیکن اس باررمضان المبارک میں یہ ہماراگاؤں کاتیسراچکرتھا۔حنظلہ کی نمازجنازہ میں شرکت کے بعدپانچ دن تک گاؤں میں رہناپڑا۔ان پانچ دنوں میں اپنی ان پرانی یادوں کوپھر سے تازہ کرنے کاموقع ملا۔وہ گلیاں وہ محلے۔وہ ندیاں وہ چشمے۔وہ سکول وہ مسجد۔وہ گراؤنڈ،میدان وہ قبرستان۔وہ کھیت وہ پہاڑ۔اسی لئے توشاعرکوکہناپڑا۔کبھی عرش پرکبھی فرش پر،کبھی ان کے در،کبھی دربدر۔غم عاشقی تیراشکریہ ،ہم کہاں کہاں سے گزرگئے۔واقعی ہم گاؤں میں کہاں کہاں سے نہیں گزرے۔خالہ زادبھائی پیرخالدقاسمی نے بھی گاؤں میں پڑاؤکے دوران ماضی کے کئی باب کھولنے کی کوشش کی۔عیدپرہم سب اکٹھے ہوتے۔مائیں ہمارے لئے نئے کپڑوں،جوتوں،ٹوپی،واسکٹ،رومال اوردیگرسامان کاپہلے سے بندوبست کردیتی تھیں۔ابھی عیدمیں ہفتہ باقی ہوتاتھاکہ درزی سے ہم اپنے کپڑے لاکرالماری میں سنبھال کررکھ لیتے تھے۔دن بھرکھیل کوداورشرارت سے چکناچورجسم لئے اکثرچاندرات کوہم کچن میں ہی کسی کونے خراٹے مارنے لگتے لیکن جب صبح ماں اذان کے فوراًبعدجگاکرچارپائی سے نیچے اتارتی تویہ دیکھ کرہم دنگ رہ جاتے کہ ہمارے ہاتھ بھی دلہن کی طرح سرخ اورچمک رہے ہوتے تھے۔دنیاجب سوجاتی تھی توہماری ماں اس وقت ہمارے ہاتھوں پرمہندی لگاتی۔عیدکی صبح آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی پہلی نظرماں پرپڑتی جوکپڑے ہاتھ میں لئے ہمارے پیچھے پیچھے آتی۔یہ گاڑی آپ کے لئے ،یہ پستول بھی آپ کاہے۔ماں کے ہاتھوں میں کھلونے دیکھ کرعیدکے دن پھرہماری ڈبل عیدہوتی۔بچپن سے جوانی تک کے سفرمیں ہم بہت کچھ بھول چکے ہیں لیکن ماں کی یہ یادیں ہم چاہتے ہوئے بھی نہیں بھول سکتے۔یوں توجب بھی ہم گھرمیں داخل ہوتے ہیں توگھرکے مین دروازے پرجہاں ماں ہمارااستقبال وانتظارکرکے ہاتھ اورماتھے کوچومتی ماں کی یادروزتڑپاتی اورترساتی رہتی ہے لیکن ہرسال اس طرح عیدکاموقع جب بھی آتاہے توپھرالف سے ی تک ماں سے متعلق وہ تمام پرانی یادیں اورباتیں ایک ایک کرکے اس طرح سامنے آجاتی ہیں کہ پھردل کودلاسہ دینے کاکوئی طریقہ اورعلاج بھی کارگرثابت نہیں ہوتا ۔آپ خودسوچیں ۔عیدسرپرہے۔عیدآنے کی خوشی میں باہرلوگ اچھل کودرہے ہیں۔بچے پٹاخے اڑارہے ہیں۔ہمارے سامنے بجلی کی تارپربیٹھاطوطابھی شائدعیدکی خوشی میں ٹاں ٹاں کررہاہے لیکن عیدوخوشی کے اس موسم میں بھی ہم ماں کی یادوں اورباتوں سے دل بہلاکرآنسوؤں کوروکنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ہفتہ پہلے ماں کی قبرکے سرہانے بیٹھ کران آنکھوں کو ہم نے ململ کے گیلے کپڑے کی طرح اس لئے نچوڑا تھاکہ دل کوکچھ قرارآجائے لیکن اب،،عید،،کی وجہ سے وہی آنکھیں اور گریبان آج پھربھی ترہیں۔عیدباالکل سرپرہے۔لوگ واقعی عیدپر خوشیاں منائیں گے۔کوئی ماں کی گودمیں سراورکوئی ماں کامبارک ہاتھ اپنے سرپررکھ کرخوشیوں پرخوشیاں انجوائے کریں گے۔کوئی ماں کے ہاتھوں بنے کپڑے پہنیں گے توکوئی ماں سے ملنے والی عیدی پرعش عش کراٹھیں گے۔کوئی ماں کے ہاتھوں لگنے والی مہندی کی سرخی دیکھ کردل دل میں باغ باغ ہوں گے توکسی کاماں کے مبارک اورپیارے چہرے کی باربارزیارت کرکے ایمان تازہ ہوگا۔۔سوچتے ہیں اس حال میں ہماراکیاہوگا۔۔؟اس کاجواب شائدکہ آپ کے پاس بھی نہ ہو۔کیونکہ یہ آپ کوبھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ماں کے بغیرکسی کاکچھ نہیں ہوتا۔ماں ہے توہردن عیدہے۔۔ورنہ اگرماں نہیں توپھرکوئی عیدبھی نہیں۔اس لئے ہم ایسے ہزاروں ولاکھوں ،،عید،،ان عظیم،،ماؤں،،کے نام کرتے ہیں جوآج بھی کسی کی عید۔۔کسی کی جنت۔۔کسی کی خوشی۔۔کسی کی چین۔۔کسی کاسکون ۔۔کسی کے دل کی سروروقراراورکسی کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔۔اﷲ کریم سب کی ماؤں کوزندہ وسلامت رکھیں اورہمارے سمیت جن کی مائیں بھی ان سے روٹھ چکی ہیں ۔اﷲ رمضان المبارک کی برکت سے ان کی کامل مغفرت فرمائے اورانہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام نصیب فرمائے ۔آمین یارب العالمین
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.