کیا آپ نے وہ ویڈیو دیکھی ہے جس میں سعودی عرب سے آنے
والی آکسیجن پر ریلائنس کا لیبل لگایا جارہا ہے؟ پہلے بی جے پی والے
کانگریس کے کاموں کا کریڈٹ لیتے تھے پھر امبانی نے یہ کھیل شروع کیا اور اب
آر ایس ایس بھی یہی کرنے لگا اسے کہتے ہیں ’خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ
پکڑتا ہے‘ یعنی انسان اپنے ہم مشرب ساتھیوں کی نقل کرتا ہے ۔ ویسے
ہندوستانی سیاست میں کمل اور سنترے کی روح تو یکساں ہے مگر ہئیت ایک دوسرے
سے خاصی مختلف ہے۔ ایک نے بگلا بھگت کی مانند سفید شال اوڑھ رکھی ہے اور
دوسرا نارنگی رنگ میں نہائے ہوئے ہے۔ ان دونوں کے درمیان استاد اور شاگرد
کا رشتہ ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ گرو رو گڑ رہ گیا اور چیلا شکر بن گیا
ہے۔ اس لیے کمل پرتو سنترے کا کوئی اثر تو نہیں ہورہا ہے مگر سنترہ ضرور
کمل کا رنگ پکڑنے لگا ہے۔ اس کی مثال سنتروں کے شہر اور آرایس ایس کے گڑھ
ناگپور میں سامنے آئی۔ وہاں سے یہ خبر اڑائی گئی کہ سنگھ کے قدیم کارکن ۸۵
سالہ نارائن راو دابھاڈکر نے کسی نوجوان کے لیے اپنا بستر قربان کردیا اور
تین دن بعد گھر پر انتقال کرگئے۔
آر ایس ایس نے یہ بیان جاری کیا کہ نرائن راو کو جب اسپتال میں لایا گیا
تو ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں ۔ اسپتال میں داخلے کی لوازمات مکمل ہونے کے
بعد انہوں نے ایک عورت کو اپنے 40 سالہ شوہر کے لیے بستر اور آکسیجن کی
خاطر روتے گڑگڑاتے دیکھا۔ اس کے بچے بھی رو رہے تھے یہ دیکھ کر دابھاڈکر نے
اسپتال کے عملے سے کہا اگر کوئی بستر خالی نہ ہو تو ان کا مختص شدہ بستر اس
عورت کے شوہر کو دے دیا جائے ۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا دابھاڈکر کے داماد
اور ڈاکٹروں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ انہیں علاج کی ضرورت ہے اور
دوبارہ بستر کا ملنا یقینی نہیں ہے ۔ دابھاڈکر نے اپنی بیٹی سے کہا مجھے
واپس جانا چاہیے میں اپنے حصے کی زندگی جی چکا۔ بیٹی نے باپ کے درد کو
محسوس کیا اور دھاباڈکر رضامندی سے گھر آکر تین دن بعد فوت ہوگئے۔
اسپتال کے ڈاکٹر شیلو چمورکر اور دیگر عملے نے اس دعویٰ کے ہر شق کی تردید
کردی ۔ ان کے مطابق دابھاڈکر خود چل کر آئے اور انہیں ۵بج کر ۵۵ منٹ پر
اسپتال میں داخل کرلیا گیا ۔ اس کے بعد ان کے رشتے داروں کو بتایا گیا کہ
اگر طبیعت بگڑ جائے تو بڑے اسپتال میں منتقل کرنا پڑے گا۔ دوگھنٹے بعد رشتے
دار لوٹے داماد امول پاچپور ڈاکٹروں کی مرضی کے خلاف دستخط کرکے مریض کو لے
گیا ۔ اس وقت اسپتال کے اندر ۴ بستر خالی تھے ۔ اس طرح کسی کے رونے دھونے
اور قربانی دینے کی کہانی اپنی موت آپ مرگئی۔ دابھاڈکرکے دستخط کرنے کا
معاملہ بھی غلط ہوگیا ۔ اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ نارائن دابھاڈکر کے
رشتے دار گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر ان کا علاج کرانے کے بجائے ڈاکٹروں
کی رضامندی کےخلاف انہیں گھر لے گئے ۔ اوپر سے اپنی سفاکی یا بخالی کو
چھپانے کے لیے قربانی کی کہانی بنادی ۔ بیٹی شیفالی ویدیاویڈیو نکال رہی ہے
اور داماد یہ کہہ کرراہِ فرار اختیار کررہا ہے کہ وہ کوویڈ پوزیٹیو ہونے کے
سبب کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہے حالانکہ فون پر بات کرنے میں کورونا آڑے
نہیں آتا۔
آر ایس ایس کے نظریات تو ہمیشہ سے زہریلے رہے ہیں لیکن اس طرح گھٹیا
اشتہار بازی وہ پہلے نہیں کرتا تھا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آر ایس ایس
والے بی جے پی کو ریاکاری سے منع کرتے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہ خود اس جھوٹ
اور فریب کے کھیل میں ملوث ہونے لگے ہیں ۔ اس نازک صورتحال میں بی جے پی کا
کیا حال ہے اس کے بارے میں خود آر ایس ایس دہلی شاخ کی انتظامیہ کے رکن
راجیو تُلی کا ٹوئٹر پر بیان دیکھ لینا کافی ہے ۔ تُلی نے اس مشکل کی گھڑی
میں بی جے پی کے غائب ہوجانے پر پھٹکار لگائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں دہلی میں ہر
طرف آگ ہی آگ ہے لیکن کیا دہلی والوں نے بی جے پی (دہلی) کو کہیں دیکھا
ہے؟کہاں ہیں’ دہلی کے لیے بی جے پی ُکا نعرہ لگانے والے لوگ ؟ انہوں نے
سوال کیا کہ کیا اس کی صوبائی شاخ کو تحلیل کردیا گیا ہے؟
راجیو تُلی آر ایس ایس دہلی کے سابق سربراہ رہے ہیں مگر جب ان سے متعلق بی
جے پی کےصوبائی صدر سے آدیش گپتا سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بڑی بے
نیازی سے جواب دیا کہ وہ کسی تُلی اور اس کے ٹویٹ کی بابت کچھ نہیں جانتے۔
بی جے پی کے ایک ریاستی رہنما نے راجیو تُلی کی تائید میں کہا کہ ایک وہ
مددگار تنظیم کے طور پر دہلی میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ دہلی کی عدالت نے ہم
سے بہتر طریقہ پر سرکار کو گھیرا ہے۔ ایک رہنما کا کہنا تھا دہلی کی بی جے
پی شہر کے میونسپل کارپوریشن پر قابض ہے ۔ اسے چاہیے تھا شادی ہال یا اسکول
جیسی سہولیات کو ان لوگوں کے لیے استعمال کرتی جن کے گھروں میں قرنطینہ کی
سہولت موجود نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدمت کی بنیاد پر انتخاب جیتنے کے
زمانے لد گئے۔ اب تو سوشیل میڈیا پر جھوٹ پھیلاکر اور عوام کے جذبات کو
بھڑکا کر الیکشن جیتا جاتا ہے اور بی جے پی اسی میں مصروف ہیں ۔ وہ لوگ
آئے دن اروند کیجریوال سے استعفیٰ مانگنے میں لگے ہوئے ہیں اور ریاستی
حکومت کا تعاون کرنے کے بجائے اس کی ٹانگ کھینچ کر چتاوں پر اپنی سیاسی
روٹیاں سینک رہے ہیں ۔
آر ایس ایس کے قومی رہنماوں کو ایسے میں آگے بڑھ حکومت کے کان اینٹھنے
چاہیے مگر الٹا وہ اس کے دفاع میں مصروف ہے۔ آر ایس ایس کے نئے جنرل
سکریٹری اور وزیر اعظم کے دوست دتاتریہ ہوس بولے نے لوگوں سے ہندوستان
مخالف اورتخریبی قوتوں کی سازشوں سےہوشیار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے دعویٰ
کیا کہ ایسی طاقتیں کووڈ -19کی دوسری لہر کی وجہ سے پیدا شدہ ناخوشگوار
حالات کا فائدہ اٹھاکر ملک میں منفی اورعدم اعتماد کا ماحول بنا سکتی
ہیں۔ایسے میں عوام کو تخریبی طاقتوں کی سازشوں سے محتاط رہنا چاہیے۔ ایک
ایسی صورتحال میں جبکہ لوگ اسپتال سے لے کر شمشان تک میں پریشان ہیں ہوس
بلے سماج میں مثبت ماحول اور امید بنائے رکھنے کا پروچن دے رہے ہیں ۔ انہںا
پتہ ہونا چاہیے کہ خالی خولی باتوں سے حالات نہیں بدلتے اور اس محاذ پر
سنگھ اور اس کی سرکار بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
ہوس بلے نے محض بیان بازی پر اکتفاء کرنے کے بجائے مثبتیت کی مہم چھیڑنے کا
بیڑہ اٹھایا ہے ۔ یہ دراصل افیون کی گولی یا اسٹی روئیڈ دے کر عوام کو خوش
فہمی میں مبتلا کرنے کی سعی ہے۔ اس کا مقصد حکومت پر ہونے والی تنقید کی
جانب سے توجہ ہٹا سرکاری کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے۔ اس کام میں
سرکاری مشنری پہلے ہی مصروف ہے لیکن اب آر ایس ایس بھی لیپا پوتی کے کام
میں شامل ہوگئی۔ بی جے پی صدر سمیت بھی عوام کی خدمت کرنے کے بجائےاپنی
پیٹھ ٹھونکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آرایس ایس ٹی وی پر سادھو سنتوں اور
صنعتکاروں کو لاکر پانچ روزہ تقریری مقابلہ منعقد کرکے ماحول سازی میں جٹ
گئی ہے۔ لو گ آکسیجن کے لیے در بدر مارے پھر رہے ہیں انہیں اسپتال میں
بستر اور دوائی نہیں مل رہی بلکہ حدتویہ ہے کہ حکومت آخری رسومات کی خاطر
لکڑیاں فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوگئی ہے۔ گنگا ندی میں لاشیں تیر رہی ہیں
اور آر ایس ایس میدانِ عمل میں اتر کر خدمت کرنے کے بجائے پروچن سنا رہا
ہے۔ آر ایس ایس کواب اپنا نام بدل کر راشٹر سیوک سنگھ کے بجائے سرکار سیوک
سنگھ رکھ لینا چاہیے۔ آزادی سے قبل یہ لوگ انگریزوں کی سیوا کرتے تھے اب
بی جے پی کی سیوا کررہے ہیں۔ لوگوں نے ان کا اصلی چہرہ دیکھ لیا ہے ۔ ویڈیو
پر خوشنما نظر آنے والے چہرے عملی میدان میں بے حد پھسڈی ثابت ہوئے ہیں
۔عوام نے ان کو باہر کا راستہ دکھانا طے کرلیا ہےاب سارا دارومدار عوام کی
یادداشت پر ہے ۔
|