کتب بینی سے بے رخی اور نئی نسل ۔

میں اکثر شہر کی سڑکوں پر جب نکلتا ہوں تو مجھے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کتابوں کے ایسے اسٹال لگے ہوئے ملتے ہیں جو نایاب کتابوں کا زخیرہ لیکر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں ان میں سے بے شمار ایسے بھی ہوتے ہیں جو فٹ پاتھوں پر کپڑابچھاکر کتابوں کو بیچ رہے ہوتے ہیں ، جنھیں سستی اور پرانی کتابیں خریدنے کا شوق ہوتا ہے وہ لوگ اکثر ایسے ہی مقامات کا ر خ کرتے ہیں مگر خریداروں کی بہت ہی کم تعداد ان اسٹالوں پر موجود ہوتی ہے ،فٹ پاتھوں پر کتابوں کے ان ڈھیروں کو دیکھ کر ایسے میں ایک دانشور کا قول فوری میرے زہن میں آتاہے کہ"جب جوتے شیشے کی الماریوں میں رکھ کر بیچے جائیں اور کتابیں فٹ پاتھ پر بکتی ہوں تو سمجھ لو کہ اس قوم کو علم کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے ۔ـ" خیر یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ 23اپریل دنیا بھرمیں کتابوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے پاکستان میں بھی یہ دن جیسے تیسے منایا جاتا ہے کیونکہ بہر حال ہمارے یہاں بھی کتاب پڑھنے اور کتابوں سے محبت کرنے والوں کی ایک خاطر خواہ تعداد موجود ہے جبکہ پاکستان میں کتابوں کی ایک مناسب تعداد میں اشاعت بھی ہوتی ہے، اس سال کتابوں کے عالمی دن کے موقعہ پر ایک انتہائی خوشگوار واقع ہوا جب بلدیہ عظمیٰ کراچی نے کتابوں کے مطالعہ کوفروغ دینے کیلئے فریئر ہال میں پہلی ـ’’دیوار علم‘‘ قائم کی یہاں پر مختلف موضوعات اور علوم پر اردو انگلش اور سندھی زبان میں کُتب رکھی گئی ہیں اور یہ کتابیں بلا کسی معاوضے کے شہری مطالعے کے لئے حاصل کرسکتے ہیں بد قسمتی سے ہمارے ہا ں مطالعہ کا رجحان عمومی طور پر بہت کم ہے دنیا میں دیگر اقوام کے مقابلے میں ہمارے ہاں گھروں میں لائبریری بنانے اور کتب بینی اور مفید معلوماتی خزانے سے استفادہ کرنے کی شرح بہت کم ہے، جسکی ایک بڑی وجہ کم شرح خواندگی اور کمزور قوت خرید ہے اس کے ساتھ ساتھ اب جبکہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی لوگوں میں انٹر نیٹ ، فیس بک ، واٹس اپ، اور دیگر الیکڑانک میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان ہے اسی وجہ سے کتابوں کی اشاعت کے معاملے میں ہمارے پاس وہ صلاحیت موجود نہیں ہے جو مغرب والوں کے پا س ہے نہ ہی مطالعہ اور نہ ہی اشاعت میں ، اسکے علاوہ کا غذ کی قیمت بڑھنے کے بعد کتابوں کی طباعت اور اشاعت کا سلسلہ بھی کم ہوگیا ہے عوامی سطح پر لائبریریوں کی شدید عدم موجود گی اور سرکاری سطح پر کتب بینی کے فروغ کی کوششیں نہ ہونا ،مصنفین اور پبلیشرز کی حوصلہ افزائی نہ کرنا انہیں سہولیات اور وسائل کی عدم فراہمی بھی مطالعے کے رجحان میں کمی کا سبب ہیں ۔اقوام متحدہ کے زیلی ادارے یونیسف کی جنرل کونسل نے 1995؁ میں فرانس میں اجلاس کے دوران 23اپریل کو ’’ ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹس ڈے ‘‘ منانے کا فیصلہ کیا تھا اور رواں صدی کے آغاز پر اس روزدنیا کے کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارلحکومت بھی قرار دیا جانے لگا ہے یہاں دنیا کے مختلف علوم و فنون کے شعبوں پر مفید اور معلوماتی کتب عام دستیاب ہیں جبکہ کئی اورہم موضوعات پر صدیوں پرانی کتابیں اور موجودہ دور میں جدیدتحقیق کے بعد لکھی گئی کتابیں سرکاری اور مطالعے کے شائق حضرات کی ذاتی لائبریریوں میں موجود ہوتی ہیں یہ کتب خاص طور پر طالب علموں کیلئے مفید معلومات کا خزانہ ہیں اور جدید ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے کتب خانوں سے استفادہ کیا جاتا ہے لیکن اس دن کو کتاب ڈے کے طور پر منانے سے بڑے پیمانے پر کتاب کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے اور مطالعہ کی حوصلہ افزا ئی کی جاتی ہے اور یقیناً اس دن کو منانے کے فیصلے سے ان ممالک میں بھی کتب بینی کو فروغ دینے اور فروغ علم میں مدد ملی ہے جہاں مطالعہ کا رجحان کم ہے کراچی میں دیوار علم کا قیام یقینا کراچی میں مطالعے اور کتاب کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کریگا کیونکہ کتابیں تاریخ ، تہذیب و ثقافت اور علم کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہیں اور جو قومیں کتب کے مطالعے کا ذوق رکھتی ہیں وہی ترقی کی منازل بھی طے کرتی ہیں دیکھا جائے تو دنیا کے وہ ممالک جن میں سب سے زیادہ کتابیں شائع ہوتی ہیں، ان میں چین ، امریکہ ، برطانیہ، جاپان، روس، فرانس ، جرمنی ، بھارت اور ایک اسلامی ملک ایران بھی شامل ہیں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اگر ہم یہ مطالعہ بھی کریں کہ کس ملک کے لوگ ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے مطالعہ میں صرف کرتے ہیں تو سب سے پہلے انڈیا کے لوگ ہیں جو ہفتہ میں 10گھنٹے 42منٹ مطالعہ کرتے ہیں جبکہ تھائی لینڈ کے عوام9گھنٹے 24 منٹ چین کے لوگ 8 گھنٹے فلپائن کے عوام7 گھنٹے 36 منٹ مصر کے لوگ 7گھنٹے 30 منٹ ذیک رپبلک کے عوام 7 گھنٹے 24 منٹ سوئیڈن کے شہری 7 گھنٹے 6 منٹ فرانسیسی 6 گھنٹے 54 منٹ ہنگری کے لوگ 6 گھنٹے 48 منٹ جبکہ سعوی عرب کے لوگ بھی 6گھنٹے 48 منٹ مطالعہ میں صرف کرتے ہیں۔جبکہ وطن عزیز میں بچوں میں کتب بینی یا مطالعے کا رجحان تو پہلے ہی کم تھا اس پر موجودہ انٹرنیٹ کے زمانے میں تو بچوں کے تفریح مقاصد بھی انٹرنیٹ سے پورے ہور ہے ہیں لہٰذا مطالعہ کا رجحان اور بھی کم ہوکر رہ گیاہے۔یہ بات نہیں ہے کہ پاکستان میں اچھے لکھنے والے لوگوں کی کمی ہے بلکہ اب ہمارے یہاں کتابیں پڑھنے والو ں کی بہت کمی ہوگئی ہے، جیسا کہ میں اوپر بیان کرچکاہوں کہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جن میں کتابوں کی اشاعت ہوتی ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کتابیں شائع تو ہوتی ہیں مگر فروخت نہیں ہوتیں،کہتے ہیں کہ کتاب سے بہتر کوئی دوست نہیں ، مگر ہمارے یہاں کتاب دوستی کی بجائے انٹرنیٹ سے دوستی زیادہ فائدہ مند سمجھی جاتی ہے۔ لائبریوں میں موجود کتابوں پر لگی دھول اور مٹی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ہمیں مطالعے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،پاکستان میں بہترین کتابوں کے نام وررائیٹر ز کی ایک بہت بڑی تعدادموجود ہے جن میں سے کچھ حیات ہیں تو کچھ دنیاسے چلے گئے ہیں مگر ان کی دینی و دنیاوی اور مختلف موضوعات پر لکھی گئی تحریروں سے پوری دنیا نے ہی فیض اٹھایا ہے، اب تونئے نئے لکھنے والے بھی اس میدان میں قدم جما چکے ہیں مگر ان کی تعداد بہت ہی کم ہے ،جہاں تک نوجوان نسل کی کتابوں سے دوری کا معاملہ ہے تو یہ دکھ اکثرانہیں وارثت میں ہی ملا ہوتاہے یعنی جو لوگ کتابوں سے دوستی نہیں رکھتے اور مطالعے سے دور بھاگتے ہیں ان کے ہم اگر پس منظر میں جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ایسے اکثرلوگوں کے والدین یااساتذہ کرام خود بھی کتاب بینی کا شوق نہیں رکھتے ہونگے یعنی خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر ہی رنگ پکڑتاہے ،لہذا اس کا بہتر حل تو یہ ہی ہے کہ اس میں حکومت خود بھی ایک بڑا کردار اداکرسکتی ہے یعنی سرکاری سطح پر لائبریریوں کا قیام اور کتاب کلچر کو فروغ دینے کیلئے مناسب اور ضروری وسائل کی فراہمی پر حکومت کو توجہ دیناہوگی، اس کے علاوہ مخیر حضرات کوبھی اسمیں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے جبکہ والدین اور اساتذہ کرام کے کردار پر تو ہم بات کرہی چکے ہیں کہ اگر والدین کو مطالعے کی باقاعدہ عادت ہوگی تو پھر بچوں میں بھی شوق پیدا ہوگا اگر والدین خود انٹر نیٹ ، فیس بک اورواٹس ایپ میں مصروف رہیں گے تو بچوں کو بھی کتابوں اور مطالعے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی والدین کو چاہئے کہ مطالعے کی عادت اپنائیں اور بچوں کو بھی اس کا عادی بنائیں تاکہ آپ کا بچہ کتاب سے دوستی کرکے معاشرے کا ایک مفید شہر ی بن سکے۔
 

Muhammad Naeem Qureshi
About the Author: Muhammad Naeem Qureshi Read More Articles by Muhammad Naeem Qureshi: 18 Articles with 16913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.