روبرو ہے مدیر: محمد جعفر خونپوریہ

تحریر و ملاقات: ذوالفقار علی بخاری

پاکستان میں ادب کے حوالے سے چند افراد اورادارے خوب کام کرکے اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں، اگرچہ اُن کو بھرپور طور پر سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہے تاہم اس کے باوجود ادب کے لئے اپنی زندگی وقف کر دینا ایک قابل ستائش عمل ہے۔
آج آپ کی ملاقات ایک ایسے ادیب سے کروا رہے ہیں جنہوں نے جب قلم کو تھام کر ادب کی دنیا کا رخ کیا تو پھر اسی کے ہو گئے اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ صاحب اپنے قول و فعل سے کے بھی دھنی ہیں کہ جب کہا وہ کرنے کی بھرپور سعی کی ہے۔

بچوں کے ادب کے لئے سالوں سے خدمات سرانجام دینے والے محمد جعفرخونپوریہ صاحب بے حد ملنسار، مخلص اورشفیق مزاج کے حامل انسان ہیں،اپنی دل چسپ باتوں سے دل موہ لینے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں اور ادب کی دنیا کے سرد وگرم حالات سے بھی بخوبی واقف ہیں۔

آج کل ماہ نامہ گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ کے مدیر ہیں اور بڑی محنت سے ادب اطفال میں اپنی ذمہ داری کو سرانجام دے رہے ہیں۔

ان سے ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے۔


سوال: ”گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ“نکالنے کا خیال کیسے آیا؟

جواب: گزشتہ سال ہمارے عزیز دوست ظفر احمد خان کی برسی کے موقع پر پرسی کلب کراچی میں الطاف پاریکھ نے اس خواہش کااظہار کیا تھا کہ کوئی ایسا کتابی سلسلہ شروع کرنا چاہیے جو ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ کے ادیبوں کو پھر سے یکجا کردے کسی گلدستے کی طرح، اس کی مہک سے ادب نگری میں بہار آجائے، اس خیال کے تحت گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ کا آغاز کیا گیا اور اب اللہ کے فضل سے اس گلدستے کی مہک ادب نگری میں پھیلتی جارہی ہے.



سوال: آج کے دور میں جب بچوں کے رسائل کے محدود قارئین ہیں تو رسالہ شائع کرنا گھاٹے کا سواد نہیں ہے؟

جواب: بلکل گھاٹے کا سودا ہے ۔۔۔ لیکن ! کیونکہ ہم تجارتی بنیاد پر یہ کام نہیں کررہے بلکہ سوشل ورک کے طور پر ہم ادب کے لیے اپنی خدمات پیش کرہے ہیں ۔۔۔ اس لیے گھاٹے کا احساس نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔ اس پر فتن دور میں ہم کسی ایک بچے تک بھی صحیح ادب کو پہنچا سکے تو یہ ہی ہمارے لیے اعزاز کادرجہ ہوگی۔



سوال: آپ کے تجربات کیا کہتے ہیں کہ رسائل کیوں بند ہو جاتے ہیں، اس حوالے سے آپ کے تجربات کیا ہیں؟
جواب: رسالے کے بند ہونے کی تین وجوہات ہیں:

پہلی یہ کہ بچوں کے ادب کی ناقدری ۔۔۔۔ رسالہ بکتا ہی نہیں ہے ۔۔۔ بکتا اسلیے نہیں کہ ریڈر شپ نہیں ہے وجہ اس کی بہت ساری ہیں لیکن ایک بڑی وجہ موبائل اور انٹر نیٹ کی یلغار ہے،والیدین اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگا موبائل دلا کر فخر محسوس کرتے ہیں ایک وقت میں ہزار دوہزار کا پیزا تو خریدا جاسکتا ہے لیکن پچاس روپے کا رسالہ خریدتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے ۔۔۔۔ وجہ وہی کہ وہ سمجھتے ہیں اس رسالے کو پرھنے سے بچے کو کیا حاصل ہوگا ۔۔۔۔ اس سے زیادہ معلومات تو انٹرنیٹ سے حاصل ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

دراصل ہمارے معاشرے میں پروفیشنل ازم کے تحت استاد کی اہمیت ختم کردی گئی ہے لہذا کتاب کی حثیت بھی ختم ہوگئی ۔۔۔۔ یہ بات کوئی نہیں سمجھتا کہ استاد کے وجود کے بغیر کتابوں سے دوستی ممکن نہیں ۔۔۔۔ اب استادوں کی جگہ پروفیشنلز ہیں ۔۔۔۔۔ طالب علموں کی جگہ بھی پروفیشنلز نے لے لی ہے ۔۔۔۔ اب استاد اور شاگرد معاشرے سے ناپید ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔ اس لیے علم وادب سے بھرپور کتاب جو کھبی قیمتاً بھی انمول تھی آج ارزاں ہو کر رہ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔

دوسری وجہ بھی انتہائی درجے کی ناقدری ہے، پاکستان میں موجود سینکڑوں مصنوعات بنانے والی کمپنیاں ٹی وی کے گھٹیا ڈراموں اورپروگراموں کو تو اسپانسر کرسکتے ہیں ۔۔۔ گھٹیا قسم کے شوبز کے میگزین کو تو اشتہارات دیے جاسکتے ہیں لیکن بچوں کا ادب پروان چڑھے یہ انہیں منظور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

تیسری بہت بڑی وجہ بھی یہ ناقدری ہے رسالہ کسی ایجنٹ کو دیا جائے تو شہر بھر میں تقسیم کرنے کے وہ اخراجات طلب کرتے ہیں، رسالہ بکے نہ بکے اسے غرض نہیں کیونکہ ان کو تقسیم کے اخراجات پہلے ہی مل چکے ہوتے ہیں ۔۔۔ان سب کے بعد ایک ماہ تک اسٹال پر سخت دھوپ میں رکھے رکھے جب رسالے کی واپسی ہوتی ہے تو اسکا جلا سرورق اور اکڑا ہوا کاغز دیکھ کر پبلشر کے حوصلے کی کمر ٹوٹ چکی ہوتی ہے چناچہ وہ بے چارہ رسالے کو بند کرکے اپنی کمر کو سیدھا کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے




سوال: ادب اطفال کے رسائل کو اشتہارات کیسے مل سکتے ہیں؟

جواب: فی زمانہ تومشکل ہی لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ البتہ جو بڑے ادارے ہیں جیسے ہمدرد وغیرہ تو وہ اپنے بجٹ سے رسائل کی اشاعت برقرار رکھتے ہیں انفرادی طور پر ایک ہی رسالہ ہے، انوکھی کہانیاں جو پچھلے بیس بائیس سال سے تسلسل سے چھپ رہا ہے اللہ تعالیٰ محبوب الہی کو استقامت عطاء کرے کہ وہ اسی طرح ادب کی خدمت کرتا رہے.



سوال:ادب اطفال کی سرپرستی کے لئے کیا سرکاری اشتہارات بے حد ضروری ہیں؟
جواب: اشتہارات ضروری نہیں ہیں البتہ کسی بھی صورت میں سرپرستی لازمی ہونی چاہیے.





سوال: بچوں کو کس طرح سے رسائل کی جانب مائل کیا جا سکتا ہے؟
جواب: والدین اور اساتذہ کے زریعے ۔۔۔۔۔ اسکے علاوہ ہر رسالہ کچھ ایسے انعامی اور ترغیبی سلسلے شروع کرے جو بچوں اور نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کریں اور وہ مجبور ہو جائیں رسالہ خریدنے پر...



سوال: ہمارے ہاں نئے لکھاریوں کو کیا بھرپور مواقع دیے جا رہے ہیں؟
جواب: بچوں کے ادیبوں کے حوالے سے تو یقینناً حوصلہ افزائی کی جارہی ہے انوکھی کہانیاں، نوعمر ڈائجسٹ اور گلدستہ ٹوٹ بٹوٹ اپنے لکھنے والوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔۔۔۔۔ نوعمر ڈائجسٹ نےایک قدم آگے ہوکر معاوضہ کا بھی اعلان کیا ہے جو بچوں کے ادب میں خوش آئند ہے...



سوال:آپ کو کب خیا ل آیا کہ لکھنا چاہیے، لکھنے سے رسائل شائع کرنے تک کا سفر کیسا رہا ہے؟
جواب: جب اظہار جذبات نے سماعتوں کے دروزے مقفل پائے تو قلم کے رستے قرطاس پر بکھر گئے اور ہمیں ادیب کی سند عطاء کردی ۔۔۔۔ میرے لکھنے کے سفر کو ہماری ایک اردو کی ٹیچر اور میرے عزیز ترین دوست جاوید الرحمن خان (ابن شہباز خان ) نے وسعت دی، جاوید ادب کے حوالے سے میرا باضابطہ استاد محترم بھی ہے اس کا تفصیلی زکر تو انشاء اللہ آپ میری آب بیتی میں ملاحظہ کرینگے جو جلد ہی شائع ہو رہی ہے...





سوال: آپ کا بچپن کیسے گذار،کچھ یادیں بتائیں؟
جواب: بچن سے میری دوستی کتابوں سے ہی رہی ہے میں عام بچوں کی طرح کبھی کھیل کود میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی میرے کوئی دوست تھے ۔۔۔۔۔ ایک دوست جاوید الرحمن تھا جس کے سنگ ادبی سرگرمیاں چلتی رہتیں تھیں...



سوال: آپ کا عملی اورعلمی سفر کیسا رہا ہے، کچھ قارئین کے لئے بتائیں کہ کن مشکلات سے واسطہ رہا ہے؟
جواب: علم سے مراد نصابی علم ہے تو میں نے بی اے کیا ہوا ہے عمل سوائے اسکے کچھ بھی نہ رہا کہ ادب سے وابستگی کے بعد کسی اور درپر جانے کی کوشش ہی نہیں کی....



سوال:آپ کی زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ کون سا ہے؟
جواب: جب کسی کے دست شفقت نے محبت کو اجاگر کرکے پیار کے جذبات کو مقید قلب کیا اور پیار جو خون کی طرح رگ وپے میں سرایت کرگیا ۔۔۔۔ وہ ایک لمحہ زندگی کا حاصل رہا جو آج بھی شمع زندگی کو روشن رکھے ہوئے ہے....



سوال:آپ کے خیال میں ادب،ادیب اورمعاشرے کا آپس میں کتنا گہراتعلق ہے؟
جواب: کسی بھی زبان اور معاشرے سے ادب کو نکال دیا جائے تو اس معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے گا ۔ کیونکہ ادب معاشرے کا عکس ہوتا ہے ۔ ادب سے کردار کی تعمیر ہوتی ہے۔اور ادب ہی ہے جوسیاسیات، معاشیات ،اخلاقیات ، مذہبیات پر اثر انداز ہوتا ہے، ادب ہی ہے جو معاشرے کے اتار چڑھاؤ میں معاون ہوتا ہے...

لیکن بد قسمتی سے وطن عزیز میں ادب کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خاص کر بچوں کے ادب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جوکہ بچوں کی اخلاقی اور جرات مندانہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے....



سوال:والدین کے حوالے سے کوئی یاد جو آپ بتانا چاہیں؟
جواب: والدین اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور یہ اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں والدین کی خدمت کا موقع دیا لیکن ہم ایسے نااہل ہیں کہ اللہ تعالی کے دیے ہوئےایسے نادر ونایاب موقع کا بھر پور استفادہ نہیں کرپاتے اور جب والدین میں سے کوئی ایک یہ دونوں ہم سے بچھر جاتے ہیں تو سوائے کف افسوس کے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا، محض ان کی یاد ہی ہوتی جو ہمیں احساس دلاتی رہتی ہے کہ ہماری دعا کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے ۔۔۔ میرے والد صاحب تو نہیں رہے البتہ والدہ حیات ہیں لیکن ان دنوں انکی طبعیت خاصی ناساز ہے آپ سب سے درخواست ہے کہ ان کی صحت یابی کے دعا ضرور کریں کہ انہیں جلد از جلد صحتیاب کرے اور ان کا سایہ تادیر ھم پر قائم رکھے آمین....




سوال: آپ کی زندگی کا اہم ترین سبق کیا ہے؟
جواب: فضول کے حصول کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے زندگی کو اپنے اور دوسروں کے لیے کار آمد بنایا جائے...



سوال:کسی بھی کام سے مخلص ہونا کیا کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے؟
جواب: بلکل خلوص تو کامیابی کی سیڑھی سے اسے ہٹا دیا جائے تو پستی سے بلندی تک کا سفر شروع ہی نہیں ہوسکتا...



سوال: آپ کی ادبی زندگی کے دل چسپ واقعات کونسے ہیں؟
جواب: ادبی لحاظ سے میری دوستی جاوید الرحمٰن (ابن شہباز خان ) عبدالعزیز عزمی مرحوم اور فیصل ملک سیلم سے رہی ۔۔۔ اکثر جب ملاقات ہوتی تو رات کے وقت صدر میں جاوید نہاری پر نہاری کھانا، ایک دوسرے پر جملے اچھالنا، شرارتیں کرنا اور لڑنا جھگڑنا نوجوانی کی ایسی دلچسپ یادیں ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بھولی داستان پھر یاد آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظر کے سامنے گھٹا سی چھاگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کےمصداق یادی ماضی عذاب ہے الہی تک کا سفر شروع ہوجاتا ہے...




سوال:ادب اطفال کے رسائل کی کوئی تنظیم بنا دی جائے تو کیا ادب اطفال کابھرپور فروغ ممکن ہو سکتا ہے؟
جواب: با لکل اسکی اشد ضرورت ہے آل پاکستان چلڈرن میگزین ایسوسی ایشن کی بنیاد یہاں کراچی میں ہم نے رکھ دی ہے، اس سلسلے میں بنیادی امور پر کام شروع کردیا ہے، بہت جلد اسکا تعارفی پروگرام کرینگے اور انشاء اللہ اس ضمن میں جلد ہی پورے پاکستان میں بچوں کے رسائل کے پبلشر سے ملاقات کریں گے اس پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونے کی درخواست کرینگے ۔۔۔۔۔۔ اگر ساتھیوں نے ساتھ دیا تو بہت جلد آپ مثبت تبدلیاں محسوس کرینگے....



سوال:نئے لکھاریوں کو نامور ادیبوں کی جانب سے بے حد کم حوصلہ افزائی ملتی ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب:میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے ہر ادیب اپنے جونیر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔۔۔۔ اگر رابطے میں فاصلے حائل نہ ہوں ۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کا سفر کسی نہ کسی طرح تاحال جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا انشاء اللہ



سوال: بطور مدیر آپ کو کن شکایات کا سامنا زیاہ کرنا پڑا ہے؟
جواب: رسالہ نہ ملنے کی شکایت ہمشہ رہی ہے....



سوال: اخبارات و رسائل نکالنے کے تجربات کیسے رہے ہیں؟
جواب: اخبارات کا تجربہ غیر معمولی دلچسپ اور خاصہ کامیاب رہا ۔۔۔۔۔۔ کٹھن اور دو دھاری تلوار کی مانند خطرناک بھی ۔۔۔۔البتہ رسالے کا تجربہ گرمیوں کی تپتی دھوپ میں جیسے کوئی ٹھنڈی چھاؤں والا درخت مل جائے ۔۔۔۔۔۔ تو جوسکون ملتا ہے وہیی رسالہ چھاپنے کے بعد محسوس ہوتا ہے....

اخبار بے چینی فراہم کرتا رسالہ سکون بخش ہے ۔۔۔۔۔ یہ میرے تجربات ہیں سب کا مجھ سے متفق ہونا ضروری نہیں.....



سوال: نئے لکھاریوں کو کیا اہم مشورے دینا چاہیں گے؟
جواب: دینی اور تاریخی کتب کا مطالعہ کثرت سے کریں تاکہ معاشرے کی تشکیل میں آپ کاجو کردار ہے قلم کے محاز پر وہ بخوبی اور احسن طریقے سے ادا ہوسکے....



سوال: ایک اچھے لکھاری میں آپ کن خصوصیات کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں؟
جواب: مثبت اور تعمیری سوچ جو دین اسلام کی عکاس ہو بہترین ادب کی تخلیق کی ضامن ہے....




سوال: آپ کس لکھاری سے بے حد متاثر ہیں؟
جواب: اپنے ساتھی لکھاریوں میں جاویدالرحمٰن خان (ابن شہباز خان)، فیصل ملک سلیم، ابن آس محمد، ظفر احمد خان مرحوم اور عبدالعزیز عزمی مرحوم کے علاوہ شہاب شیخ مرحوم بھی بہت زبردست لکھاری رہے ہیں....

سینئرز میں اشتیاق احمد ، مظہر کلیم اور محی الدین نواب ، انکے علاوہ کرشن چندر اور شاعروں میں ساحر لدھیانوی نے بہت متاثر کیا...



سوال: آپ کی نظر میں بڑا ادیب کون ہوتا ہے؟
جواب: بڑا ادیب وہ ہوتا ہے جو اگرچہ کم لکھے لیکن اس کی تحریر پڑھنے والے میں مثبت تبدیلی کا باعث ہو۔۔۔۔۔




سوال: کیا ادیبوں کی آپس کی چپقلش کے نئے لکھاریوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
جواب: یقینناً ہوتے ہیں ۔۔۔۔


سوال: اُردو زبان کی ترقی وترویج کے لئے کیا اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب: کچھ بھی نہیں ہم اپنی قومی زبان سے مخلص ہوجائیں ۔۔۔۔۔ اور سیاسی گروپ بندیوں سے نکل کر ایک مسلم پاکستانی قوم بن جائیں تو اردو خود بخود ترقی کرجائے ۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو کمتر سمجھتے ہوئے شرمندہ ہوتے ہیں اور انگریزی بولتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ آپ اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ والدین اپنے بچوں کو مہنگے سے مہنگے انگلش میڈیم اسکول میں پرھانا اپنی شان سمجھتے ہیں....

اردو میڈیم کے نام سے ہی انکے حلق کرواہٹ گھل جاتی ہے ۔۔۔۔ جب تک ہم اس احساس کمتری اور زہنی غلامی سے نہیں نکلیں گے، اردو کی حثیت سوتیلے بچے جیسی رہ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اردو کا حق ادا نہیں کرپارہے ۔۔۔۔۔۔۔ باقی جو کچھ بھی ہے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ہمارے ہر قول فعل اور عمل میں تضاد ہے ہم پکے سچے پاکستانی نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنے مادی مفادات میں اسقدر آگے نکل چکے ہیں کہ نہ ہم مکمل تیتر رہے اور نہ ہی بٹیر.....




سوال:چھوٹے بچوں کے ادب پر بھرپور کام نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب: معاشرے کی بے حسی ، مادیت کی طرف مائل سوچ جو ظالمانہ حد تک حاوی ہوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔ لوگ نفسانفسی کا شکار ہیں ایسے میں بھرپور تو کیا واجبی قسم کا کام بھی نہیں ہو پارہا ۔۔۔ اور یہی ہماری نادانی ہے ۔۔ ہم اپنے آپ میں مگن ہوکر اپنے ہی بچوں کی زہنی تربیت سے غافل ہوچکے ہیں ۔۔۔ اور اس غفلت کا خمیازہ ہماری کتنی نسلیں بھگتیں گی کوئی اندازہ نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنے بچوں کو جہالت کی اندھیری وادیوں میں دھکیلنے کے ذمے دار ہیں ۔۔۔۔۔بچوں کے ادب کا استحصال ہم سب کو بہت مہنگا پرنے والا ہے....



سوال: آپ اپنی زندگی میں کن کاموں کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں؟
جواب: دین کا ہر کام قابل فخر ہے اور میری خواہش ہے کہ علم دین کے طالب علم کی حثییت سے باقی زندگی بھی گزرے اور زندگی کا اختتام بھی بحثیت علم دین کے طالب کے ہو ،ایمان کی سلامتی اور کلمے کے ساتھ......



سوال: آپ کیا چاہتے ہیں کہ آپ کو تاریخ میں کن الفاظ سے یاد رکھا جائے؟
جواب:ویسے تو ابھی تک کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ لوگ یاد رکھیں ۔۔۔۔۔ تاریخ میں یاد رہنے والی بات کا تو زکر ہی کیا ۔۔۔ اگر کبھی کسی نے محبت سے یاد کرلیا تو یہی ہماری کامیابی ہوگی۔۔۔۔۔



سوال: ادب سے وابستہ افراد کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب: ادب سے وابستہ افراد خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے انہیں ادب سے نوازا ہے یہ اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے ۔۔۔۔ اسکی کی حفاظت کریں اور زندگی میں جو ان کا ادبی کردار ہے اسے پورے خلوص سے ادا کریں کہ نسلوں کی آبیاری ان کی ذمے ہے....

آپ کے قیمتی وقت کا بے حد شکریہ۔

۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522471 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More