فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور امت کی مجرمانہ خاموشی

ایسی صورتحال میں دل کا پھٹ جانا، آنکھوں کا خون رونا اور مسلم امہ کا ماتم کرنا جائز ہے جب انبیاء کی سرزمین، ارض مقدس، قبلہ اول اور کئی تہذیبوں کو اپنی آغوش میں سمیٹنے والا فلسطین لہو لہان ہے اور مسلم امہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہو ۔ استعمار ، صیہونیت، جنونیت اور بربریت کا نشان اسرائیل آئے روز کسی نہ کسی بہانے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کے نئے باب رقم کرتا ہے جسکا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے ۔ اسرائیل اسی تخم پر خار کا نتیجہ ہے جو آج سے کئی دہائیوں پہلے مغربی سامراج نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد 1948 میں اسلام کے قلب میں بویا تھا ۔ پہلی جنگ عظیم اور عثمانیوں کی شکست کے بعد فلسطین پر برطانوی قبضہ ہوگیا تھا جسے بعد میں بلفورڈ ڈکلیئریشن نامی 66 الفاظ کے ایک مکتوب کے ذریعے یہودی ریاست قرار دیا گیا ۔ آہستہ آہستہ وہاں کے باشندوں کو بے دخل کر کے پوری دنیا سے یہودی لا لا کر بسائے گئے اور 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں القدس الشریف سمیت زیادہ تر حصے پر اسرائیلی قبضہ ہوگیا جو بدقسمتی سے ابتک موجود ہے ۔ یوں تو مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و ستم اسکے قیام سے ہی جاری ہے مگر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں غاصب ریاست اپنی بربریت اور جنونیت کی انتہا کو پہنچتی ہے ۔ سال 2014 کے رمضان المبارک میں بھی غزہ پٹی پر وحشیانہ بمباری کرکے سیکنڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا جبکہ اس بار بھی مقدس مہینے میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت عید کے دنوں میں اور اب بھی جاری ہے ۔ تادم تحریر اسرائیلی حملوں اور فضائی بمباری سے 144 فلسطینی شہید اور کئی زخمی ہیں ۔ اسرائیل مزید حملوں کا اعلان کر رہا ہے مگر خواب خرگوش میں مست عالمی برادری سمیت کسی مسلم ریاست کو بھی اتنی توفیق نہیں کہ وہ اسرائیل کو لگام دیں ۔ کیا اقوام متحدہ تو کیا مغربی نام نہاد لبرل قوتیں سب ہی چپ کا روزہ رکھے بیٹھتی ہیں ۔ اپنوں کا حال بھی کچھ اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ پاکستان سمیت کئ مسلم ممالک صرف زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا رہےہیں ۔ خدا معلوم 58 اسلامی ممالک کہاں چھپے بیٹھے جبکہ بڑے زور و شور سے بنائے جانے والا 40 ملکی اتحاد بھی ہاتھی کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے ۔ صرف حماس اور حزب اللہ ہی ایرانی مدد اور اپنے محدود وسائل کے ساتھ اسرائیلی بربریت کا جواب دینے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ کیا مسلم ممالک امریکی دباؤ سے پریشان ہیں؟ کیا ان کی حمیت و غیرت جواب دی چکی ہے؟ کیا عرب لیگ صرف اجلاسوں کے لئے وجود میں لائی گئی تھی؟ صرف مذمتی بیانات اور گفتن، نشستن، برخاستن کی روایت کب ختم ہوگی؟ کب تک ہم ایسی عالمی برادری کے احترام میں خاموش رہیں جسکا ضمیر مردہ ہوچکا ہے؟ کیا ملک و معیشت ملت سے بڑھ کر ہے ؟ کیا کوئی غیرت مند رہنما نہیں جو فلسطینی ماں ، بہن، بیٹیوں کی پکار پر لبیک کہے؟ کیا سفارتی تعلقات اپنے بھائیوں کے خون سے زیادہ عزیز ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو مجھ سمیت ملت کے ہر فرد کی زبان پر جاری ہیں ۔ کیوں پاکستان، ترکی، ایران اور عرب ممالک عملی میدان میں آکر اقدام نہیں اٹھاتے ۔ مٹھی بھر اسرائیل آنکھیں دکھا دکھا کر فلسطینیوں کے خون کی ہولی کھیل رہا ہے مگر اسکے ادراک کے لئے امت کے بڑے بڑے نام اندھے پن کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ حضور اکرم (ص) نے صرف ایک صحابی کے قتل کی افواہ پر بدلہ لینے کے لئے بیعت رضوان کی تھی مگر ہزاروں فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کا محاسبہ کرنے والا کوئی نہیں ۔ رب جانتا ہے کہ یہ شعلہ بیانی نہیں بلکہ امت کے حقیقی جذبات کی ترجمانی و عکاسی ہے ۔ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد ایٹمی ملک ہے مگر ہم بھی روایتی مزمتوں سے آگے نہیں بڑھ رہے ۔ کمزور معیشت کا رونا رونے والے ہمارے رہنما یہ بھول جاتے ہیں کہ نہ بدر میں مسلمان زرودولت میں ڈوبے ہوئے تھے اور نہ ہی 65 کی جنگ میں ہماری معیشت سونا اگل رہی تھی مگر جب بھی کسی نے مسلمانوں کو للکارا ہم ڈٹ گئے پر افسوس کہ اب ایسا نہیں ہے ۔ اگر عالم اسلام نے یونہی سردمہری اور غفلت کا مظاہرہ کرنا ہے تو نہ بڑے بڑے بجٹ خرچ کرکے فوجیں رکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ایٹم بم و میزائل ۔ پھر فلسطین بھی جانے دیں اور کشمیر بھی ۔ او آئی سی کو بھی دفن کر دیں اور 40 ملکی اتحاد کا بھی فاتحہ دلوا دیں ۔ شاید ایسی ہی صورتحال کے لئے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا ۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے تو باقی نہیں ہے

اگر ایسا نہیں ہے اور ذرا سی بھی قومی غیرت باقی ہے تو خدارا! اٹھ جائیں عملی میدان میں اسرائیل کے خلاف اقدام کے لئے ، اپنے دین ، اپنے ایمان اور اپنے بھائیوں کی حفاظت کے لئے ۔ اپنے اجداد کے کارناموں پر فخر کرنے والے کچھ ایسا تو کر جائیں کہ انھیں بھی سنہری الفاظ میں یاد کیا جائے ۔ وگرنہ دنیا یونہی مظلوموں کے خون سے سیراب ہوتی رہے گی اور خدانخواستہ اسوقت فلسطین ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام زیر عتاب ہوگا ۔
 
Babar Ayaz
About the Author: Babar Ayaz Read More Articles by Babar Ayaz: 19 Articles with 16221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.