اسرائیل سے نرم گوشہ رکھنے والا عالمی میڈیا جس کی صفوں
میں ہندوستان کے کئی اخبارات و چینلس بھی شامل ہوگئے ہیں حالیہ تصادم کے
لیے حماس کے راکٹ حملے کو ذمہ دار ٹھہراتےہیں ۔اس کے برعکس حماس کا دعویٰ
ہے کہ یہ کارروائی بیت المقدس میں مسلمانوں کی مقدس مسجد اقصیٰ پر ’اسرائیل
کی جارحیت اور دہشت گردی‘ کا انتقام ہے ۔ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس
اور فلسطینی شہریوں میں تازہ جھڑپوں کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب مشرقی بیت
المقدس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے وہاں بسنے والے فلسطینی خاندانوں کو
بیدخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح مسلمانوں کی قبلۂ اول یعنی مسجدِ اقصیٰ
اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ ماہِ رمضان میں پرتشدد جھڑپوں کا مرکز بن
گیا۔ مشرقی بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں کئی دنوں سے جاری مزاحمت کا
یہ تسلسل تھا۔ یہاں آباد فلسطینی خاندانوں کو یہودی آبادکاروں کی جانب سے
جبری بےدخلی کا سامنا ہے اور فلسطینی چونکہ مسلسل احتجاج کررہے ہیں جس
کوحفاظتی دستے کچلنے یا منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے حالات کشیدہ
ہیں۔
حماس کے راکٹ داغے جانے سے 27 دن قبل 13 ؍ اپریل کو اسرائیل کا قومی یادگار
دن تھا۔ یہ ملک بنانے کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجیوں کی
یاد میں منایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر اسرائیل کے صدر ریوون رولن پولس کے
ساتھ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوگئے۔ رمضان المبارک کی ابتداء میں یہ مسلمانوں
کو اشتعال دلانے کی ایک مذموم کوشش تھی۔ اس پر وہاں موجود لوگوں نے احتجاج
کیا اور بحث و مباحثہ ہوگیا ۔ بات جب مارپیٹ تک پہنچ گئی تو پولس نے لاوڈ
اسپیکر کے سارے تار کاٹ دیئے۔ اس کے بعد انتہاپسند قوم پرست یہودیوں نے یوم
ِیروشلم کے موقع پر جلوس نکال کر مسجد اقصیٰ میں آکر مذہبی رسوم ادا کرنے
کا اعلان کیا ۔ اس دن یروشلم کے غاصبانہ قبضے کا جشن منایا جاتا ہے۔
مسلمانوں نے ان کو روکنے کا فیصلہ کیا ۔ حکومت نے پہلے تو یہودیوں کو
سمجھایا کہ وہ مسلم محلوں میں نہ جائیں یا اپنی تعداد کم کریں لیکن وہ نہیں
مانے تو اس کے تین دن قبل جمعتہ الوداع کو نہتے مسلمان نمازیوں پر ربر اور
چھرےّ کی گولیاں برسا کر 180لوگوں کو زخمی کردیا ۔ اسرائیل کو توقع تھی کہ
اگر مسجد پر حفاظتی دستے تعینات کردیئے جائیں تو مسلمان گھروں میں دبک کر
بیٹھ جائیں گے اور جلوس اپنی من مانی کرسکے گا لیکن حماس نے ان دستوں کو
ہٹانے کے لیے ۶ بجے تک کا وقت دیا اور اس کے پورا ہونے پر راکٹ برسائے تو
کیا غلط کیا ؟ اور اس کے لیے اصل ذمہ دار کون ہے ؟
یہ تو خیر عارضی وجوہات ہیں لیکن اصل میں اس فساد کی بنیادی وجہ مشرق وسطیٰ
میں ناجائز طریقہ پر ریاستِ اسرائیل کا قیام ہے ۔ اس کا دوسرا سبب سنہ 1967
میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا
ناجائز قبضہ ہے ۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم
نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں اس عمل کو غیر قانونی قرار
دیتی ہیں تاہم اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ وہ یروشلم کو اپنا دارالحکومت
کہتا ہے ۔اسرائیل کی اس دھاندلی کو مسلمانوں نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا
کیونکہ ان کے نزدیک القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان اس کے لیے
مزاحمت کرتے رہے ہیں اور اس کو کچلنے کی خاطر اسرائیل بدترین مظالم کرتا
رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن
رائٹس واچ نے بھی اپنی تحقیق وتفتیش کے بعد اس بات کی گواہی دی ہے کہ
مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف اسرائیل نسلی
امتیاز اور ریاستی جبر و استبداد کے جرائم کاارتکاب کر رہا ہے۔
ہیومن رائیٹس واچ نے اپنی نئی رپورٹ میں اسرائیل پراپنے عرب شہریوں سمیت
مقبوضہ علاقوں کے ’فلسطینیوں پر’ یہودی تسلط‘ کو قائم رکھنے کی حکمت عملی
پر عمل درآمد کرنے کا الزام لگایا ہے۔ موجودہ دنیا کے اندر ریاستی حمایت
کے تحت نسلی امتیاز کی پالیسی کو انسانیت کے خلاف ایک جرم تصور کیا جاتا
ہے۔ "ہیومن رائٹس واچ" نے اپنی 213 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی
حکومت پر فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ جرائم کےجو ثبوت پیش کیے ہیں ان سے
ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل پچھلے چالیس سالوں سے فلسطینیوں کے خلاف ان جرائم
کا ارتکاب کرتا آرہاہے۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں گذشتہ چند برسوں
کے دوران مقامی عرب اور فلسطینی آبادی کے خلاف قتل وغارت گری، لوٹ مار اور
دیگر سنگین جرائم میں بہت اضافہ ہو ا ہے۔ ان علاقوں میں بسنے والے
فلسطینیوں کو دانستہ طورپر اور چن چن کر نشانہ بنایا جا تاہے۔ مقامی
فلسطینی تنظیموں کے رہنماوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور عمائدین کو شہید
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حال میں شہر ام الفحم میں اسلامی تحریک کے ایک سرکردہ رہنما الشیخ محمد
نجم کو نامعلوم مسلح افراد نے گولیوں سے شہید کر دیا۔ جنوری 2021ء کے دوران
دو اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ۔ اسلامی تحریک کے رہنما سلیمان
الاغباریہ کو 7؍ جنوری کے دن مسلح افراد نے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا۔
اس کے بعد یافا شہر میں عہدیدار الشیخ محمد ابو نجم کو شہید کر دیا گیا۔
گذشتہ کئی سال سے جاری اس غیراعلانیہ نسل کشی میں ہر ماہ کسی نہ کسی
فلسطینی کے شہید ہونے کی خبر آتی ہے۔ اسرائیل کے اندر جرائم کی شرح ویسے
بھی بہت زیادہ ہے مگر سن 2014ء سے 2017ء تک کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے
تو یہودی آبادی کی بہ نسبت فلسطینی عربوں کےخلاف تشدد اور دیگر جرائم میں
پانچ گنا زیادہ واقعات رونما ہوے ہیں ۔ فلسطین میں جب سے دوسری تحریک
انتفاضہ کا آغاز ہوا ہے دیہی علاقوں میں بسنے والے باشندوں کا عرصہ حیات
تنگ کردیا گیا اور ایک منظم مافیا کو نسل کشی کے کام پر مامور کردیا گیا ۔
اسرائیلی پولیس کی دانستہ لاپرواہی نے اس گینگ کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ۔
ہومن رائٹس واچ کے مطابق سن 2000ء کے بعد سے مقبوضہ عرب علاقوں میں 7001
فلسطینیوں کو نسل کشی کی گئی ۔ 2021ء میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں 6
فلسطینیوںکو شہید کیاگیا ۔ سال 2020ء کے دوران اسرائیلی مافیا کے ہاتھوں
17 خواتین سمیت 100 فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ مقبوضہ فلسطینی
علاقوں میں جرائم تین طرح سے پھیل رہے ہیں۔ پہلا اسلحہ کے استعمال کوعام
کرکے جرائم پیشہ گروپوں کی مدد کرنا۔ جرائم کے پھیلنے دوسری وجہ اسرائیلی
پولیس کا جرائم کے واقعات کی تحقیقات کرنےکے بجائے مجرموں کو چھوڑدینا ہے
اور تیسرا خطرناک سبب اسرائیل میں داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے 'شاباک' کی
طرف سے فلسطینیوں کی نمائندہ شخصیات کو شہید کرنے کی غیراعلانیہ مہم چلانا
ہے۔
اس نسل کشی کے پیچھے دو اہم اسباب ہیں۔ ایک سبب تو پیشہ ور منظم مافیا ہے
جسے اسرائیلی حکومت اور ریاستی اداروں کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مدد حاصل
ہے اور وہ ان کے اشارے پر فلسطینیوں پر حملے کرتے ہیں۔ دوسرا سبب یہودی
آباد کاروں میں بانٹا گیا بے پناہ اسلحہ ہے جسے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے
لیے استعمال ہو رہاہے۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی آباد کاروں کے پاس 5
لاکھ سے زیادہ ہتھیار ہیں۔ اسرائیلی پولیس کو پتہ ہے کہ کون اپنے ہتھیار کو
کس کام میں لارہا ہےمگر وہ ان واقعات اور جرائم پر دانستہ خاموشی برتنے کے
مجرم ہیں ۔ اسرائیلی حکومت کی طرف سے اس پر آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیلی پولیس جرائم میںملوث عناصر کے خلاف کارروائی سے
پہلو تہی کیوں کرتی ہے؟ جرائم کے واقعات کو نظرانداز کرنا اور مجرموں کی
نشاندہی کے باجودانہیں آزاد چھوڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نسل کشی میں ملوث
صہیونی قاتل گروہ کو پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی حمایت وتعاون حاصل
ہے۔
اسرائیلی پولیس یہ کہہ کر اپنا دامن جھٹک لیتی ہے کہ فلسطینیوں کو نشانہ
بنائے جانے کے پیچھے منظم مافیا کا ہاتھ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مافیا صرف
فلسطینی عرب آبادی کے خلاف کیوں سرگرم ہے؟ اور انتظامیہ اسے کیفرِ کردار تک
کیوں نہیں پہنچاتا؟ حقیقت یہی ہے کہ ایسے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کے
بعد بھی پولیس انہیں پکڑنے اوران کے خلاف قانونی کارروائی کو دانستہ
نظرانداز کر تی ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار نسل کشی کے پیچھے قاتل مافیا
نہیں بلکہ اسرائیل کی سرکاری پالیسی اور منظم حکمت عملی کو ذمہ دار مانتے
ہیں ۔دہشت گردی کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن اس میں
کسی فرد یا گروہ کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ حکومتِ وقت اس کے خلاف
کارروائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اگر خود سرکار ملوث ہوجائے تو ریاستی
دہشت گردی کہلاتی ہے۔ فی الحال علمی سطح پر اس بابت دوہرا معیار اختیار کیا
جاتا ہے۔ مسلم ملک میں کسی فرد کی دہشت گردی کے لیے حکومت کو اور مغربی
ممالک میں ریاستی دہشت گردی کو بھی انفرادی عمل کہا جاتا ہے۔
عصرِ حاضر میں دہشت گرد کا تعلق اگر عیسائیت سے ہو تو یوروپ و امریکہ میں
یہ اس کا انفرادی عمل قرار پاتا ہے ۔ مذہب و کتاب سے اس کو نہیں جوڑا جاتا
۔ تفتیش کے بعد اکثر یہ اعلان بھی کردیاجاتا ہے اس بیچارے کا دماغی توازن
ٹھیک نہیں تھا ۔ وہ زیر علاج تھا اس لیے نرمی کا مستحق ہےلیکن اگر وہ
مسلمان نکل آئے تو اس کو خود ساختہ اسلامی انتہا پسند تنظیموں سے جوڑ کر
دین اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ ایسے دانشور جو اسلامی جہاد
کی ابجد سے واقف نہیں ہوتے مفکرین اسلام بن کر مصروف عمل ہوجاتے ہیں اور
انہیں مصلحت کوش علماء کی تائید بھی ملنے لگتی ہے لیکن حکومت کو کبھی بھی
دہشت گرد نہیں کہا جاتا ۔ اسرائیل کے معاملے میں ترک صدر رجب طیب اردوان کا
چند افراد کے بجائے اسرائیلی ریاست کو دہشت گرد ریاست قرار دینا ہیومن
رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے ۔ ایران کے روحانی پیشواء
علی خامنہ ای نے بھی بجا طور پر اسرائیل دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیا ہے۔
مذکورہ رپورٹ اسرائیلی ریاست کے انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہونے کا ثبوت
فراہم کرتی ہے۔ عالمی برادری کواب اسرائیلی ریاست کا محاسبہ کرکے ان جرائم
کےخلاف عملی اقدامات کرنا ہوگا ورنہ یہ ظلم و جبر کی آگ اقوام عالم کو
اپنی لپیٹ میں لے کررہے گی۔
|